صدرڈونلڈ ٹرمپ کا دوحہ میں اسرائیل کے فضائی حملے پر ناراضگی اور مایوس کا اظہار

امریکی فوج کی خطے میں مرکزی کمانڈ کا ہیڈکواٹردوحہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے‘سمندرمیں جنگی بیڑے تعینات ہیں‘اسرائیلی طیاروں کا بغیررکاوٹ کے آپریشن کرکے واپس چلے جانا واشنگٹن کے لیے شرمندگی کا باعث ہے.ماہرین مشرق وسطی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 10 ستمبر 2025 13:09

صدرڈونلڈ ٹرمپ کا دوحہ میں اسرائیل کے فضائی حملے پر ناراضگی اور مایوس ..
واشنگٹن/دوحہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 ستمبر ۔2025 )امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے قطرکے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل کے فضائی حملے پر ناراضگی اور مایوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس حملے سے بہت ناخوش ہیں واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے قطر پر اسرائیلی حملے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ میں پوری صورتحال کے سے کوئی خوشی نہیں ہوئی ہے یہ سب اچھا نہیں ہوا لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہم یرغمالیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں تاہم ہم اس سے خوش نہیں جو ہوا ہے اس سے اب تک ہونے والی بات چیت پر اچھا اثر نہیں پڑے گا.

(جاری ہے)

صدرٹرمپ کے قطرکے شاہی خاندان سے قریبی تعلقات ہیں اور اپنے دوسرے عہدصدارت کے آغازمیں انہوں نے دوحہ کا دورہ کیا تھا جس کے دوران قطری حکومت نے انہیں ایک بوئنگ جہاز تحفے میں دیا اس کے علاوہ ٹرمپ کارپوریشن شاہی خاندان کے ساتھ اربوں ڈالر کے منصوبوں میں شراکت دار ہے امریکی صدر نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میں کبھی بھی کسی چیز سے حیران نہیں ہوا ہوں خاص طور پر جب بات ہو مشرق وسطیٰ کی اس سے قبل ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ حملے کا فیصلہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کیا تھا نہ کہ انہوں نے اور یہ کہ جب تک ان کی انتظامیہ کو امریکی فوج کی طرف سے حملے کی اطلاع ملتی، بمباری روکنا ممکن نہیں تھا.

انہوں نے کہا کہ قطر پر یکطرفہ بمباری کا فیصلہ درست نہیں تھا، قطر امریکہ کا مضبوط اتحادی اور دوست م±لک ہے اور ایسے میں اس پر حملہ اسرائیل اور امریکہ دونوں کے اہداف کی جانب بڑھنے کے عمل کو نقصان پہنچائے گا قبل ازیں وائٹ ہاﺅس نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے قطر کے وزیر اعظم اور امیر دونوں سے بات کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ ان کی سرزمین پر اس طرح کا حملہ دوبارہ نہیں ہوگا ادھر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ”شین بیت“ کا کہنا ہے کہ قطر میں اسرائیلی حملے کے وقت وزیراعظم نیتن یاہو ان کے ہیڈکوارٹرز میں موجود تھے شین بیت کے ترجمان کے مطابق حماس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف یہ حملہ ایجنسی اور اسرائیلی فوج کے درمیان تعاون سے کیا گیا ترجمان کے مطابق اس موقع پر اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، ایجنسی کے ڈپٹی چیف اور ملٹی انٹیلیجنس کے سربراہ بھی ہیڈکوارٹرز میں موجود تھے.

قطر پر اسرائیل کے جارحانہ حملے پر مشرق وسطی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حملہ واشنگٹن کے لیے بڑا امتحان ہے کیونکہ قطر‘متحدہ عرب امارات‘کویت اور سعودی عرب سمیت خطے کی دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستیں دفاع کے معاملات میں امریکا پر انحصارکرتی ہیں اور معاہدوں کے مطابق ان عرب ریاستوں پر حملے کی صورت میں امریکا ان کے دفاع کا ذمہ دار ہے .

ماہرین کے مطابق امریکی فوج کی خطے میںمرکزی کمانڈ کا ہیڈکواٹردوحہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اسی طرح امریکی بحریہ کے جنگی جہازبھی خطے میں موجود ہیں مگر امریکی افواج نے دفاعی نظام کے ذریعے اس حملے کو روکنے کی کوشش نہیں کی جس سے واشنگٹن کے عرب اتحادیوں میں عدم اعتماد پیدا ہونے کا خدشہ ہے انہوں نے کہا کہ دوسرا اہم پہلو قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالث کا کردار اداکررہا ہے اور مذکرات کے لیے حماس کے راہنماﺅں کا قطر میں ہونا غیرمعمولی بات نہیں.

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ اسڈی سرکل کا کہنا ہے کہ امریکا ‘اسرائیل سمیت ہر کسی کے علم میں تھا کہ مذکرات کے لیے حماس کے متعدداہم راہنما دوحہ میں موجود تھے اس سے قبل قطر امریکا اور افغان طالبان کے درمیان طویل مذکرات کی میزبانی کرچکا ہے ‘رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حملے سے مذکرات کا عمل متاثرہوگا ‘حملے سے ظاہرہوتا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر مذکرات کو سبوتاژ کیا ہے جس کے بعد کوئی بھی ملک ایسے تنازعات میں ثالثی کے لیے رضامند نہیں ہوگا.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عرب اتحادیوں میں اعتماد بحال کرنے کے لیے واشنگٹن کو اسرائیل کے معاملے میں اپنے کردار پر غور کرنا ہوگا‘تاہم صدر ٹرمپ نے جہاں حملے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے وہیں انہوں نے حماس کو دوبارہ دھمکی دی ہے جو وائٹ ہاﺅس کی اسرائیل کے بارے میں پالیسی کا اظہار ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹس نے2010میں متحدہ عرب امارات میں حماس کے ایک سینیئر اہلکار کو ہوٹل میںقتل کیا تھا تاہم یہ ایک خفیہ کاروائی تھی اس سے قبل اردن میں بھی موساد نے اسی طرزکی کاروائی میں حماس کے راہنماخالد مشعل کو قتل کیا تھا تاہم یہ کاروائیاں کھلے حملوں کی بجائے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے کی گئیں تھیں‘انہوں نے کہا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذکراتی عمل کا مستقبل کیا ہے؟امریکی صدر کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے اور اسرائیل پر دباﺅ بڑھانے کی ضرورت ہے.

دوسری جانب قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے دوحہ میں اسرائیلی حملے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ایک بیان جاری کیا امیر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے قطر کے ساتھ امریکی یکجہتی کا اعادہ کیا ہے اور قطر کی خودمختاری پر حملے کی شدید مذمت کی ہے امیر نے ٹرمپ کو بتایا کہ قطر اسے اسرائیل کا لاپرواہی پر مبنی ایک مجرمانہ کارروائی سمجھتا ہے اور ان کا ملک اپنی سلامتی کے تحفظ اور اس کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا.

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملے کے بارے میں ڈیموکریٹ سینیٹر کرس کونز کا کہنا ہے کہ یہ بہت حیران کن امر اور انتہائی غیر معمولی امر ہے کہ امریکہ کے قریبی اتحادی اسرائیل نے قطر میں حماس کے راہنماﺅں پر حملے کے اپنے منصوبے سے امریکی انتظامیہ کو آگاہ نہیں کیا ان کا کہنا تھا کہ اس سے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچا ہے کیونکہ اس معاملے سے متعلق نہ تو کانگریس کی اعلیٰ قیادت اور نہ ہی صدر ٹرمپ کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان طویل اور بہت قریبی تعلقات رہے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات سے ان دوستانہ تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ کانگریس میں ہم میں سے بہت سے لوگوں نے غزہ میں جنگ کے خاتمے، جنگ بندی اور حماس کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے.

دوسری جانب قطری وزیراعظم اور وزیرخارجہ شیخ محمد نے انکشاف کیا کہ امریکہ نے قطر کو حملہ ہونے کے دس منٹ بعد اطلاع دی اور اس بات کی نشاندہی کی کہ اسرائیل نے ایسے ہتھیار استعمال کیے جو ریڈار پر نظر نہیں آتے جبکہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں 15 اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے حصہ لیا اوردوحہ شہر کے مرکزی علاقے میں ایک ہی ہدف پر 10 مرتبہ گولہ باری کی‘ہلاک ہونے والوں میں حماس کے راہنماﺅ ں کے علاوہ قطری سیکورٹی فورسزکے افسران بھی شامل ہیںادھر وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ کا ہے ٹرمپ انتظامیہ کو امریکی فوج کی طرف سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ اسرائیل حماس پر حملہ کرنے والا ہے جس کا مقام قطری دارالحکومت دوحہ میں موجود تھا بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹرمپ نے معاون خصوصی وٹکوف کو فوراًہدایت دی تھی کہ وہ ’قطر کو حملے سے قبل اطلاع دیں جو کہ انہوں نے کیا جبکہ قطری وزیراعظم نے دوحہ میں پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ امریکا نے حملے کے بعد اطلاع دی.