اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 اکتوبر2025ء)
پاکستان نے
دہشت گردی کی تمام شکلوں اور ان کی بنیادی وجوہات کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ انسداد
دہشت گردی کے قدامات کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال نہ کیا جائے جیسا کہ قابض قوتیں
فلسطین اور
بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و
کشمیر میں کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ میں
پاکستان کے نائب مستقل نمائندہ عثمان جدون نے جنرل
اسمبلی کی قانونی (چھٹی) کمیٹی میں ’’بین الاقوامی
دہشت گردی کے خاتمے کے اقدامات‘‘پر بحث کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اجتماعی طور پر طویل عرصے سے حل طلب تنازعات ، غیر ملکی قبضے اور نوآبادیاتی تسلط اور غیر ملکی حکمرانی کے تحت زندگی گزارنے والے لوگوں کو ان کا حق خود ارادیت نہ دینے جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے انسداد
دہشت گردی کے بہانے ناانصافی ، ظلم اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ ہمیں
دہشت گردی اور غیر ملکی قبضے کے خلاف عوام کی جائز جدوجہد اور ان کے ناقابل تنسیخ حقِ خودارادیت کے درمیان واضح فرق کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ
دہشت گردی وقت کے ساتھ ساتھ نئی شکلیں اختیار کر رہی ہے اس لیے
اقوام متحدہ کے انسداد
دہشت گردی کے نظام میں اصلاحات بشمول پابندیوں کے نظام میں تبدیلی اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی رویے کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے
دہشت گردی کے خلاف
جنگ میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور 90 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دے چکا ہےجن میں فوجی، شہری اور سکول کے بچے شامل ہیں لیکن افسوس ہے کہ
پاکستان آج بھی سرحد پار سے ریاستی سرپرستی میں
دہشت گردی کا شکار ہے، جس میں ٹی ٹی پی،
داعش، بی ایل اے اور اس کی مجید بریگیڈ شامل ہیں، جو عام شہریوں اور بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
انہوں نے واضح طور پر
بھارت کے حوالے سے کہا کہ
پاکستان کے پاس اس بیرونی سرپرستی میں ہونے والی
دہشت گردی کو شکست دینے کا عزم، حوصلہ اور مکمل صلاحیت ہے، ایک پڑوسی ملک جو
دہشت گردی کی بھرپور معاونت، سرپرستی اور مالی امداد کر رہا ہے ، وہ خود جارح ہے مگر خود کو مظلوم ظاہر کرنے کا ڈراما بھی کرتا ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ
پاکستان کی دفاعی افواج نے مئی میں بلا اشتعال
بھارتی جارحیت کا مناسب جواب دیا اور اس کا خاتمہ کیا۔
لیکن ہر ملک کے پاس ایسا جواب دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ عالمی برادری کو ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات اور علاقائی عدم استحکام کی سازشوں کو روکنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے نشاندہی کی کہ عالمی انسداد
دہشت گردی کی کوششیں ریاستی
دہشت گردی سے نمٹنے میں ناکام رہی ہیں جس میں حق خود ارادیت کے لئے جائز جدوجہد کو دبانے یا غیر ملکی قبضے کو طول دینے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے ، جو اس کے بدترین مظاہر میں شامل ہیں۔
دوسرے ممالک میں
دہشت گردی کی ریاستی سرپرستی کا بھی مسئلہ ہے ۔پاکستانی مندوب نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اس رجحان اور اس
استثنیٰ سے نمٹنے کے لئے جو اس طرح کی ریاستی
دہشت گردی سے وابستہ ہے اس بات کو یقینی بنائے کہ انسداد
دہشت گردی کی کوششوں کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے قانون کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے کے لئے غلط استعمال نہیں کیا جائے ، جیسا کہ
فلسطین اور جموں و
کشمیر میں قبضہ کرنے والے طاقتوں کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے سفید فام برتری کے نظریات، دائیں بازو کی شدت پسندی، قوم پرستی، اسلاموفوبیا اور ہندوتوا جیسے انتہا پسند نظریات پر مبنی
دہشت گردی کی نئی شکلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ریاستی سرپرستی میں سرحد پار
قتل و غارت، پراکسی
دہشت گردی اور آبی
دہشت گردی جیسے ہتھکنڈوں کو بھی انسداد
دہشت گردی کے عالمی ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔
بھارتی مندوب نے پاکستانی مندوب عثمان جدون کےبیان پر اپنے ردعمل میں
پاکستان پر سرحد پار
دہشت گردی کے الزامات عائد کیے، خاص طور پر پہلگام واقعہ میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کا
بھارت نے ابھی تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے
۔پاکستان نے
بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ
بھارت نہ صرف ریاستی
دہشت گردی میں ملوث ہے بلکہ جھوٹے بیانیے، پروپیگنڈے اور گمراہ کن اطلاعات کے ذریعے نفرت کو ہوا دے رہا ہے، جو اس کی تنگ نظر خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
پہلگام حملے کے حوالے سے
اقوام متحدہ میں
پاکستان مشن میں قونصلر محمد جواد اجمل نے جواب دینے کے اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستان نے اس واقعے کی نہ صرف مذمت کی بلکہ آزادانہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی تھی۔ ابھی تک اس حملے کے ذمہ داروں کے شواہد پیش نہیں کیے گئے اور واقعے کی تفصیلات بھی تاحال نامعلوم ہیں۔پاکستانی مندوب محمد جواد اجمل نے کہا کہ نہ صرف
پاکستان کی تحقیقات کی پیشکش کو مسترد کیا گیا بلکہ
پاکستان پر
حملہ کیا گیا، اس کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی کی گئی اور 54 بے گناہ پاکستانی شہریوں کو
شہید کیا گیا جن میں 15 بچے اور 13 خواتین شامل تھیں ۔
یہ سب ایک کھلی جارحیت کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ
پاکستان کا انتہائی سوچا سمجھا اور محتاط ردِعمل کامیابی سے ہمکنار ہوا، جس کے نتیجے میں امریکا کی ثالثی سے،
بھارت کی درخواست پر
جنگ بندی عمل میں آئی۔سرحد پار
دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات ایک سوچی سمجھی سازش ہیں، جن کا مقصد جھوٹ کو اتنی بار دہرانا ہے کہ وہ سچ مان لیا جائے حالانکہ یہ زمینی حقائق سے یکسر متصادم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک
(بھارت) نہ صرف خطے کا غنڈہ بن چکا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کا باعث ہے، جس نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور نفرت انگیز ہندوتوا نظریے کے ذریعے خطے کو یرغمال بنا رکھا ہے ، ہندوتوا نظریہ ایک ایسا نظریہ جو نفرت، تقسیم اور غیر ملکیوں سے نفرت (زینوفوبیا) کو ہوا دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ
بھارت غیر قانونی طور پر علاقوں پر قابض ہے، مقامی آبادیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے، جیسا کہ
بھارت کے غیر قانونی زیرِ تسلط جموں و
کشمیر میں ہو رہا ہے - جس کی متنازعہ حیثیت خود
اقوام متحدہ کے
ریکارڈ پر تسلیم شدہ ہے۔
محمد جواد اجمل نے
بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک، خصوصاً
پاکستان میں
دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی اور مالی معاونت کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت
پاکستان اور دیگر ممالک بشمول امریکا اور
کینیڈا میں خفیہ پراکسی نیٹ ورکس اور سرحد پار
قتل و غارت گری کی ایک عالمی مہم چلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک معمول کا سکرپٹ بن چکا ہے جیسے ہی کوئی واقعہ پیش آتا ہے، بغیر کسی ثبوت، منطق یا تحقیقات کے فوراً
پاکستان پر الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔
امن کے لیے
پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے محمد جواد اجمل نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ بات چیت کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی پیش رفت کے لیے خلوصِ نیت، باہمی احترام اور سنجیدہ سفارت کاری ناگزیر ہے ،یہ وہ اصول ہیں جن پر
پاکستان مسلسل کاربند رہا ہے اور جنہیں
بھارت کو بھی بالآخر اپنانا ہوگا اگر وہ واقعی خطے میں امن چاہتا ہے۔