’پریس کانفرنس میں صحافی اسلام آباد سے لائے ہوئے ہیں‘

ہماری حق تلفی ہو رہی ہے، سوال کرنے کا موقع ہمیں ملنا چاہیئے؛ پشاور کے مقامی صحافی کا ڈی جی آئی ایس پی آر سے شکوہ

Sajid Ali ساجد علی جمعہ 10 اکتوبر 2025 15:48

’پریس کانفرنس میں صحافی اسلام آباد سے لائے ہوئے ہیں‘
پشاور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 10 اکتوبر 2025ء ) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس کے دوران مقامی صحافی نے اس سے شکوہ کردیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب ڈان نیوز پشاور کے بیوروچیف علی اکبر خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے شکوہ کیا کہ ’پریس کانفرنس میں صحافی اسلام آباد سے لائے ہوئے ہیں، ہماری حق تلفی ہو رہی ہے، سوال کرنے کا موقع ہمیں ملنا چاہیئے‘۔

پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں گورننس کے خلا کو پورا کرنے کیلئے فوج کے افسر اور جوان اپنا خون دے رہے ہیں، نیپ پر عمل نہیں کرنا اور سیاست کرنی ہے تو دہشتگردی سے کیسے چھٹکارا حاصل ہوگا؟ پاکستان کی ریاست اس کی افواج اور اس کے ادارے کسی سیاسی بگاڑ کی پرواہ نہیں کریں گے، ریاست پاکستان اور اس کی عوام کو کسی ایک شخص کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا جو ملک میں دہشت گردی کو واپس لانے کا واحد ذمہ دار ہے۔

(جاری ہے)

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ کیا آج ہم ایک بیانیے پر کھڑے ہیں کیا آپ کو آواز نہیں آتی کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں؟ کہاں سے آواز آرہی ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیئے بتائیں ناں کون کہہ رہا ہے، کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے؟ اگر ہر چیز کا حل بات چیت ہوتا تو دنیا میں جنگیں نہیں ہوتی ، جب 9 اور 10 مئی کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تب یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ بھارت سے بات چیت کریں؟ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرور کونین ﷺ دو جہان جن کے لیے بنائے گئے، وہ ذات جس سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں، کیوں نہیں اُس دن اُنہوں نے بات چیت کرلی؟ اُدھر تو باپ کے آگے بیٹا کھڑا تھا، بھائی کے آگے بھائی کھڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں دہشتگردی کے واقعات اسلئے نہیں ہوتے کہ وہاں گُڈ گورننس ہے وہاں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کام کر رہے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ بجائے منفی سیاست،الزام تراشی، اور خارجی کرمنل مافیہ کی سہولت کاری کے آپ اپنی اس بنیادی ڈیوٹی پر توجو دیں گے، افغانستان سے سکیورٹی کی بھیک مانگنے کی بجائے خیبرپختونخواہ کے غیور عوام سکیورٹی کی زمہ داری لیں گے، ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ خارجی دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کے لیے یہ زمین تنگ کر دی جائے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کہتے ہیں کہ آج یہ بیانیہ کہاں سے آ گیا کہ افغانوں کو واپس نہیں بھیجنا، تو کیا آپ 2014ء میں غلط تھے، 2021ء میں غلط تھے، آج ریاست کہہ رہی ہے کہ افغان بھائیوں کو واپس بھیجیں تو سیاست کی جاتی ہے، بیانئے بنائے جاتے ہیں، گمراہ کُن باتیں کی جاتی ہیں، دہشتگردی کے واقعات پنجاب اور سندھ میں کیوں نہیں ہو رہے؟ یہ جو خیبرپختونخواہ میں دہشتگردی ہے، اُس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو منشیات، اسمگلنگ ، بھتہ خوری ، اغواء برائے تاوان اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے پاک کرنا ہے لیکن جب کام کرتے ہیں تو مختلف جگہوں سے آوازیں آتی ہیں، کسی فرد واحد کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور مفاد کیلئے پاکستان اور خیبرپختونخواہ کے غیور عوام کی جان مال اور عزت کا سودا کرے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی عہدے پر ہو، اُس کیلئے زمین تنگ کر دی جائے گی کیوں کہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر ایک بنیانُ مرصوص کی طرح دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی۔