- اسپن بولدک میں حالات معمول پر آنے لگے
- جنگ بندی دیرپا ثابت نہیں ہو گی، پاکستانی وزیر دفاع
افغانستان سے فائربندی دیرپا نہیں ہوگی، خطرہ بدستور موجود، خواجہ آصف
پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ حالیہ فائربندی محض وقتی ہے اور اس کے دیرپا ہونے کے امکانات کم ہیں۔
ان کے مطابق سرحد پار سے حملوں کا خطرہ اب بھی برقرار ہے اور پاکستان اپنی سرحدی سلامتی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔پاکستانی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے الزام عائد کیا کہ افغانستان اس وقت بھارت کی ایک پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ افغان طالبان کے ’جھنڈے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے، تاہم وہ اس وقت بھارت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں‘۔
خواجہ محمد آصف
نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کے ساتھ فائربندی خوش آئند ضرور ہے مگر پائیدار امن کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ کابل میں طالبان حکومت کو افغان سرزمین کے پاکستان مخالف گروہوں کے ذریعے استعمال کو روکنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اگر دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا تو ’’جوابی کارروائی ناگزیر ہو جائے گی۔
‘‘پاکستانی وزیر دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب اسپن بولدک اور چمن کے درمیان فائر بندی کے بعد حالات کچھ حد تک معمول پر آئے ہیں۔ دونوں ممالک نے 48 گھنٹوں کے لیے فائربندی پر اتفاق کیا ہے تاکہ مذاکرات کے ذریعے کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔
خواجہ محمد آصف
کے اس تازہ بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام آباد کو افغانستان میں طالبان حکومت کی نیت پر مکمل اعتماد نہیں اور حکومت آئندہ کسی بھی پیش رفت سے متعلق محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر فائربندی برقرار
پاکستان
اور افغانستان دونوں نے ہی تصدیق کی ہے کہ رات بھر کسی نئی جھڑپ کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ افغانستان کے سرحدی علاقے اسپن بولدک میں معمولات زندگی بحال ہونے لگے ہیں۔ یہ وہی سرحدی علاقہ ہے، جو حالیہ دنوں میں شدید لڑائی کا مرکز رہا۔مقامی میڈیا نے بتایا کہ اس علاقے میں دکانیں دوبارہ کھل گئی ہیں جبکہ وہ شہری واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، جو جھڑپوں کے دوران وہاں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے۔
اسلام آباد
کے مطابق اڑتالیس گھنٹوں کی اس فائربندی کا مقصد ’’تعمیری مذاکرات کے ذریعے ایک مثبت حل تلاش کرنے کی کوشش ہے۔‘‘پاکستان
کو اپنی مغربی سرحد پر ایک بار پھر شدت پسندانہ حملوں کا سامنا ہے، جن کی قیادت پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادی گروہ کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کا الزام ہے کہ کابل میں طالبان حکومت ان جنگجوؤں کو افغان سرزمین پر پناہ دے رہی ہے، تاہم کابل اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر فولکر ترک نے اس فائربندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ’’شہریوں کو مزید نقصان سے بچائیں اور ایک پائیدار امن کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔‘‘