برطانیہ میں بھارتی باشندوں کے ساتھ اپنے سفارتخانے کا توہین آمیز سلوک ، بھارتی تارکین وطن نے ہندوستانیوں کے ساتھ کْوڑے جیسا سلوک بند کرو‘ کے عنوان سے آن لائن مہم شروع کر دی،بھارتی ہائی کمیشن جانا جہنم جانے کے مترادف ہے جس سے ہمیشہ بچنا چاہیے‘ بھارتی شہری

پیر 12 مئی 2014 07:25

لند ن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12مئی۔2014ء)بر طا نیہ میں بھا رتی با شند و ں نے اپنے سفا رتخا نے کی جا نب سے نا روا سلو ک روا رکھے جا نے کے خلا ف بطو ر احتجا ن ہندوستانیوں کے ساتھ کْوڑے جیسا سلوک بند کرو کے عنوا ن سے آ ن لائن مہم شروع کر دی ۔اس آ ن لائن پیٹیشن یا عرض داشت میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر مکمل معلومات فراہم نہیں کی جاتی، آ ن لائن اپوائنٹمنٹ کا نظام نہیں ہے اور وہاں کام کرنے والے لوگوں کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔

بہت سے لوگوں کی شکایت ہے کہ ہائی کمیشن میں ان کا تجربہ بہت ہی تلخ تھا۔ لوگ سخت تنقید بھی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک بند کیا جانا چاہیے‘، ’بھارتی ہائی کمیشن جانا جہنم جانے کے مترادف ہے جس سے ہمیشہ بچنا چاہیے‘، ’یہ بہتر ہونا چاہیے‘ وغیرہ۔

(جاری ہے)

لندن میں ’سٹاپ ٹریٹنگ انڈینز لائک گاربیج‘ نامی اس آ ن لائن مہم کی پہل ارون اشوین نے کی ہے اور انھوں نے بھارتی ہائی کمیشن، بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید اور امیگریشن معاملات کے وزیر کو اس سلسلے میں خطوط لکھے ہیں۔

ارون کے مطابق: ’ہائی کمیشن میں کوئی کام ہو تو صبح 6:00 سے 9:45 بجے تک قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ حاملہ خواتین ہو یا پھر کوئی اپاہج شخص، وہ بھی اسی قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ اندر جانے پر پتہ چلتا ہے کہ جو دستاویز ہم لائیں ہیں وہ مکمل نہیں ہیں، کیونکہ ہائی کمیشن کی ویب سائٹ پر جو معلومات ہیں ، وہ ہی آدھی ادھوری ہے۔‘برطانیہ میں لاکھوں بھارتی باشندے رہتے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کا کسی نہ کسی وجہ سے بھارتی ہائی کمیشن سے سابقہ پڑتا رہتا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہم دستاویز ہائی کمیشن میں کام کرنے والوں کو دیتے ہیں، تو وہ برہم ہوتے ہیں۔

ہم کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں تعصب ہے۔ لیکن جب ہم ہندوستانی ہی بھارتی ہائی کمیشن جاتے ہیں، اور ہمارے ہی افسر ہم پر چلاتے ہیں، بری طرح بات کرتے ہیں، تو بہت خراب لگتا ہے۔ بھارت اتنا بڑا آئی ٹی پاور ہے، لیکن ہمارے ہائی کمیشن کے لیے اپنی ویب سائٹ اپ ڈیٹ رکھنا مشکل ہے۔

‘اس پورے معاملے پر بی بی سی نے کئی بار ہائی کمیشن سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہائی کمیشن نے کو ئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

تاہم ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر اپنی بات رکھی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے ٹویٹ کیا کہ ہم لوگوں کے ’فیڈ بیک کی قدر کرتے ہیں اور ہائی کمیشن کی جانب سے صورت حال میں بہتری لانے کے لیے کیے جانے والے اقدام کا بھی ذکر کیا۔ارون کی ہی طرح بہت سے لوگوں نے آ ن لائن پیٹیشن میں ہائی کمیشن کے خلاف اپنا غصہ ظاہر کیا ہے۔ اب تک 2،500 سے زیادہ لوگ اس پر اپنے دستخط کر چکے ہیں۔

اس آ ن لائن پیٹیشن کی حمایت کرنے والے ایک شخص دھرو کانٹریکٹر نے بتایا کہ وہ بھی ہائی کمیشن سے پریشان تھے اس آ ن لائن پیٹیشن کی حمایت کرنے والے ایک شخص دھرو کانٹریکٹر نے بتایا کہ وہ بھی ہائی کمیشن سے پریشان تھے اور جب ارون نے یہ مہم شروع کی تو وہ بھی اس کا حصہ بن گئے۔دھرو بتاتے ہیں: ’جب بھی ہم جاتے ہیں تو کہتے ہیں کل آو، پرسوں آوٴ، کیوں آئے ہو؟ اگر وہ لوگ ہی مدد نہیں کریں گے تو ہم کہاں جائیں گے۔ بھارتی پاسپورٹ لے کر ہم برطانوی ہائی کمیشن تو نہیں جائیں گے۔ بھارتی ہائی کمیشن میں کام کرنے والوں کا رویہ کافی خراب ہے۔برطانیہ میں لاکھوں بھارتی باشندے رہتے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کا کسی نہ کسی وجہ سے بھارتی ہائی کمیشن سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔

متعلقہ عنوان :