سعودی عرب ، دو شیعہ کارکنوں کو ملک کے مشرقی صوبے میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی

ہفتہ 31 مئی 2014 07:19

ریاض(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31مئی۔ 2014ء)سعودی عرب میں دو شیعہ کارکنوں کو ملک کے مشرقی صوبے میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق 20 سالہ علی محمد باقر النمر کو ضلع قتیف میں بغاوت، ہنگامہ آرائی، احتجاج اور ڈاکے ڈالنے کا مرتکب پایا گیا۔اس سے ایک دن قبل سعودی عرب کے مشہور شیعہ عالم شیخ جعفر الرْبح کے 26 سالہ بیٹے ردا الرْبح کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی۔

دونوں کارکنوں کو اعلیٰ عدالتوں میں اس سزا کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے اور سعودی قانون کے مطابق بادشاہ کسی بھی مجرم کی سزا کو معاف بھی کر سکتے ہیں۔سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق علی النمر کو بغاوت، شاہ کو ماننے سے انکار، ہنگامہ آرائی، اسلحہ رکھنے، سکیورٹی اہلکاروں پر پیٹرول بم پھینکنے، ایک کیمسٹ کی دکان لوٹنے اور نگرانی والے کیمرے چرانے کا مرتکب پایا گیا۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق ان الزات کے علاوہ علی النمر کو غیر قانونی احتجاجی مظاہروں میں حکومت کے خلاف نعرے بازی اور دوسروں کو ہنگامہ آرائی پر اکسانے کے الزامات کا مرتکب بھی پایا گیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے مطابق مقامی سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے علی کو گذشتہ 30 ماہ سے قید میں رکھا ہوا تھا۔ ایک کارکن نے علی کے والد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب علی کوگرفتار کیا گیا اْس وقت اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔

پہلے پہل علی کو بچوں کی جیل میں رکھا گیا اور پھر اس کے خلاف انسدادِ دہشگردی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلانے سے پہلے اسے دوسری جیل میں منتقل کر دیا گیا۔مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ردا الرْبح کو 2011 کے حکومت مخالف مظاہروں میں تاروت اور درین کے قصبوں میں سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ اسلحہ خریدنے اور ایک مطلوبہ شخص سمیت دیگر مظاہرین کو پناہ دینے کا مرتکب پایا گیا ہے۔

سعودی عرب کی ایک شیعہ ویب سائٹ کے مطابق ردا الرْبح کے والد نے عوامیہ میں امن عامہ بحال کرنے کے لیے مقامی شیعہ برادری اور وزارتِ داخلہ کے مابین مذاکرات میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔یہ بات واضح نہیں ہے کہ جن حملوں میں ملوث ہونے پر دونوں نوجوانوں کو سزا سنائی گئی ہے ان ہنگاموں میں کوئی سکیورٹی اہلکار زخمی یا ہلاک ہوا تھا یا نہیں۔تیل کی دولت سے مالا مال مشرقی صوبے میں سنہ 2011 میں حکومت کے خلاف ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کو دی جانے والے سزاوٴں میں یہ سخت ترین سزا ہے۔

اْس وقت نو سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے مبینہ طور پر اب بھی کم از کم تین سو افراد زیر حراست ہیں۔2011 میں علی النمر کو کم عمر مجرم کے طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ علی النمر اور ردا الرْبح اْن ایک درجن افراد میں شامل ہیں جنھیں ضلع قتیف کے گاوٴں عوامیہ میں ہنگامہ آرائی کے الزامات کا سامنا ہے جہاں ہنگاموں کے دوران پولیس اور سرکاری املاک پر حملے کیے گئے تھے۔

متعلقہ عنوان :