13واں ہاکی ورلڈ کپ آج سے شروع ہوگا،4 بار عالمی کپ کا اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم 43سال میں پہلی بار کوالیفائی نہ کرنے کے باعث اس میں شرکت نہیں کرے گی،میگا ایونٹ میں 12 ٹیمیں شریک ہوں گی، آسٹریلوی ٹیم اعزاز کا دفاع کرے گی جبکہ ایونٹ میں شریک ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے،اگر پی ایچ ایف نے اسکواڈ کی تیاری بہتر انداز میں کی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا،کوالیفائی کرنے کے اچھے مواقع ملے جو ضائع کردیے گئے،سمیع اللہ ، ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی بھی پاکستان نے خود تیار کرکے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو تحفے میں پیش کی تھی

ہفتہ 31 مئی 2014 07:08

ہیگ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31مئی۔ 2014ء) 13واں ہاکی ورلڈ کپ کل سے شروع ہوگا لیکن پاکستانی ٹیم 43 سال میں پہلی بار اس میگا ایونٹ میں شرکت نہیں کرے گی۔ہالینڈ کے شہر ہیگ میں 31 مئی سے 15 جون تک جاری رہنے والے میگا ایونٹ میں 12 ٹیمیں شریک ہوں گی لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ 4 بار عالمی کپ کا اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم پہلی بار کوالیفائی نہ کرنے کے باعث اس میں شرکت نہیں کرے گی اور قومی کھلاڑی باہر بیٹھ کر ہی میچ دیکھیں گے جبکہ پاکستان ہاکی کے کرتا دھرتا اپنی کوتاہیوں اور بے بسی کا ملبہ دوسروں پر گراتے رہیں گے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی بھی پاکستان نے خود تیار کرکے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو تحفے میں پیش کی تھی۔

عالمی کپ میں آسٹریلوی ٹیم اعزاز کا دفاع کرے گی جبکہ ایونٹ میں شریک ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے، گروپ ”اے“ میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا، انگلینڈ، اسپین، بیلجیئم، ملائشیا اور بھارت شامل ہیں جبکہ گروپ ”بی“ میں جرمنی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا، جنوبی افریقا اور ارجنٹائن کی ٹیمیں شامل ہیں، ایونٹ کے سیمی فائنلز 13 جبکہ فائنل 15 جون کو کھیلا جائے گا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ ورلڈ کپ کا آغاز 1971میں ہوا اور قومی ٹیم نے خالدمحمودکی قیادت میں بارسلونا میں میزبان اسپین کوشکست دے کرپہلا ورلڈ کپ جیتا، 1978 کو بیونس آئرس کے عالمی کپ میں اصلاح الدین کی کپتانی میں پاکستان نیفائنل میں ہالینڈ کو 2-3 سے زیر کیا ، 1982 کا سال خوب رہا اس بار قومی ٹیم نے بھارت میں 2 بار کامیابی کیجھنڈے گاڑے ، نئی دہلی میں ایشیائی کھیل کاٹائٹل جیتا اورپھراختررسول کی کپتانی میں قومی ٹیم ممبئی سیورلڈکپ بھی چھین لے آئی.

گرین شرٹس نے عالمی کپ کے فائنل میں ہالینڈ کو 0-3 سے شکست دی۔

1986 میں ایشیائی اعزازچھن گیا اورپھرورلڈکپ لندن میں قومی ٹیم گیارھویں پوزیشن پرجا پہنچی لیکن 1994 پھر فضا کا خوشگوارجھونکا لے کرآیا اور شہباز سینئرکی قیادت میں لاہورمیں چیمپئنزٹرافی اور سڈنی میں ورلڈکپ کی فتح نے کئی عبرتناک ناکامیوں کیزخموں پر مرہم رکھ دیا لیکن قومی ہاکی ٹیم کو اب تو ایسا زخم لگا ہے کہ اسے پتہ نہیں کون آکر بھرے گا۔

ایونٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب گرین شرٹس ایکشن میں نظر نہیں آئیں گے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی بھی پاکستان نے خود تیار کرکے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو تحفے میں پیش کی تھی۔ 13 ویں میگا ایونٹ میں 12 ٹیمیں شریک ہیں، پول اے میں عالمی چیمپئن آسٹریلیا، انگلینڈ، بیلجیئم، بھارت، اسپین اور ملائیشیا شامل ہیں، پول بی میں گذشتہ ورلڈ کپ کی رنر اپ جرمنی، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور ارجنٹائن موجود ہیں، ایونٹ کا فائنل15جون کو کھیلا جائے گا۔

سابق پاکستانی کپتان اور 2بار ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کے رکن سمیع اللہ عالمی مقابلے میں ٹیم کی عدم موجودگی کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہیں.

انھوں نے کہا کہ اگر پی ایچ ایف نے اسکواڈ کی تیاری بہتر انداز میں کی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا، ہمیں کوالیفائی کرنے کے اچھے مواقع ملے جو ضائع کردیے گئے۔ سمیع اللہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ سیکریٹری رانا مجاہد کے اس دعوے کو قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ہاکی ابھی نہیں مری ہے۔

واضح رہے کہ رانا مجاہد نے حال ہی میں کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا آج بھی گرین شرٹس کو اپنے یہاں بلانا چاہتی ہے، ہم اس وقت بھی ایشین چیمپئن ہیں اور ٹیم کا موازنہ حقیقت پسندی سے نہیں کیا جاتا۔ سمیع اللہ کے خیال میں خود کو ایشیا تک محدود کرنا خود فریبی ہے۔اگر فیڈریشن نے یہ سوچ لیاکہ ہمیں صرف ایشیا میں ہی رہنا ہے تو پھر رانامجاہد کی بات درست ہے، البتہ پی ایچ ایف کو صفِ اول کی چار ٹیموں میں شامل ہونے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں، ہمارے سامنے ملائشیا اور بھارت کی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

سمیع اللہ میگا ایونٹ میں چند غیرمتوقع نتائج کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے، انھوں نے کہا کہ بظاہر آسٹریلیا، جرمنی اور ہالینڈ مضبوط ٹیمیں ہیں لیکن بیلجیئم اور انگلینڈ بھی حریفوں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، ورلڈ کپ میں وہی ٹیم کامیاب رہے گی جس کی فٹنس بہت اچھی اور ہر میچ کے لیے نئی اور موثر حکمتِ عملی ہوگی ۔

متعلقہ عنوان :