اگر اس بار جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو اس کا خمیازہ ہمیں برسوں تک بھگتنا پڑے گا،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،بلوچ مزاحمت کار وں سے مذاکرات مختلف سطح پر جاری ہیں بلوچستان میں امن استحکام ترقی و خوشحالی کیلئے سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہے،پرچم کشائی کی منعقدہ تقریب سے خطاب،کہ ارسلان افتخار چوہدری کو بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ میں وائس چیئرمین بنانا میرا ذاتی فیصلہ تھا اس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری یا کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ، گورنر ہاوٴس میں میڈیا سے گفتگو

جمعہ 15 اگست 2014 08:48

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15اگست۔2014ء) وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے غیر سیاسی ٹیکنو کریٹ حکومت کے مطالبہ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس بار جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو اس کا خمیازہ ہمیں برسوں تک بھگتنا پڑے گا بلوچ مزاحمت کار وں سے مذاکرات مختلف سطح پر جاری ہیں بلوچستان میں امن استحکام ترقی و خوشحالی کیلئے سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی منعقدہ تقریب سے خطاب اور گورنر ہاوٴس میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا صوبائی اسمبلی میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے پرچم کشائی کی اس موقع پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی تقریب میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی ‘کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ ،انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد کے علاوہ صوبائی وزراء ،سینیٹر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی جبکہ سکولوں کے طلباء و طالبات نے ملی نغمے پیش کئے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اہل وطن کو جشن آزادی کی مبارک دیتے ہوئے کہا کہ آج کا دن یوم احتساب ہے اور زندہ قومیں اپنی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کا سفر طے کرتی ہیں لیکن اگر ہم اپنی 68سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو مایوس کن نظر آتی ہے جہاں 68سال گذرنے کے باوجود عوام تعلیم و صحت سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اس کی ایک وجہ ملک میں طویل عرصہ تک رہنے والی آمریت بھی ہے آمریت نے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں بیش بہا قربانیوں کے بعد ملک میں جمہوریت بحال ہوئی گوکہ آج بھی بعض قوتیں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں بدقسمتی سے نان ایشوز کو ایشوز بنا کر جمہوری اداروں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے جس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن استحکام ترقی و خوشحالی کے حوالے سے سیاسی و عسکری قیادت کے مابین مکمل ہم آہنگی ہے اور مخلوط حکومت کا ایجنڈہ صرف اور صرف بلوچستان میں امن و استحکام کا قیام ہے یہی وجہ ہے کہ قیام امن کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں تعلیم و صحت سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی ترقی کے بغیر بلوچستان میں امن و استحکام کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کی جانب سے بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا جو مینڈیٹ مجھے دیا گیا اس کے تحت مختلف سطح پر بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں تشدد اور بندوق کسی مسئلہ کا حل نہیں بلوچستان کا مسئلہ خالصتاً سیاسی ہے اور اس کو سیاسی و جمہوری انداز میں مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنا ہوگا بلوچ مزاحمت کاروں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں پرامن مذاکرات کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کے حل میں حکومت کا ساتھ دیں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم نے جو اہداف مقرر کئے ایک سالہ دور حکومت میں وہ مکمل نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ماضی کی نسبت بلوچستان کے حالات میں مثبت تبدیلی آئی ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاوشوں اور مخلوط حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کے تعاون سے یہاں فرقہ وارانہ دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں مذہبی قائدین سے اپیل ہے کہ وہ بلوچستان کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے میں حکومت کا ساتھ دیں مذہبی منافرت کے نام پر قتل و غارت گری کا سلسلہ بند کیا جائے عوام میں شعور اجاگر کرتے ہوئے مذہبی روادری ہم آہنگی قومی یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا ء کو پروان چڑھایا جائے ،

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ مخلوط صوبائی حکومت نے اگر کرپشن کا مکمل خاتمہ نہیں کیا تو یہ پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس میں کافی حد تک کمی آئی ہے ، تاہم ابھی بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن کا مقابلہ کرنے اور بلوچستان میں امن و استحکام کے حوالے سے تمام سیاسی و جمہوری جماعتوں کو اپنا موٴثر وعملی کردار ادا کرنا ہوگا انہوں وفاقی پی ایس ڈی پی کے 45ارب روپے کی ادائیگی پر وفاقی حکومت سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان جن گوناں گوں مسائل کا شکار ہے 45ارب روپے میں ان مسائل کا حل ممکن نہیں وفاقی حکومت بلوچستان کے لئے پی ایس ڈی پی فنڈ میں اضافہ کرے اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان بیورو کریسی کے رویئے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ بیورو کریسی کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا اور انہیں تعلیم و صحت سمیت مسائل کے حل سے متعلق جو بھی پالیسی دی جائے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ بننے کی بجائے پالیسی پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا بعد ازاں وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے گورنر ہاوٴس میں منعقدہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے غیر سیاسی و ٹیکنو کریٹ حکومت کا مطالبہ غیر آئینی ہے اگر اس بار جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو ہمیں اس کا خمیازہ برسوں بھگتنا پڑے گا اگر عمران خان کو ملک میں جمہوریت اور جمہوری قوتوں کی تحریک کا مطالعہ کرنا چاہیئے تاہم جمہوری سوچ رکھنے والوں کو سلام پیش کرتاہوں جو آج بھی جمہوری نظام کے دفاع کیلئے برسرپیکار ہیں ارسلان افتخار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ارسلان افتخار چوہدری کو بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ میں وائس چیئرمین بنانا میرا ذاتی فیصلہ تھا اس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری یا کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں تھا