عامر کے مستقبل کا فیصلہ چال چلن اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اس کی کارکردگی سے کیا جائے گا ، شہریار خان ، پاک بھارت سیریز اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے امکانات روش ہیں،ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سٹے بازی میں ملوث کرکٹرز کو لائف لائن دینے کا فیصلہ کارگر نہیں رہا، ٹیم میں واپس آکر داغدار کھلاڑی وہی گل پھر کھلاتے رہے، چیئرمین پی سی بی

منگل 25 نومبر 2014 08:27

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25نومبر۔2014ء )پی سی بی کے چیئرمین کے بقول محمد عامر کے مستقبل کا فیصلہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اس کی کارکردگی کرے گی۔ ، پاک بھارت سیریز اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے امکانات روش ہیں۔ماضی میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے سٹے بازی میں ملوث کرکٹرز کو لائف لائن دینے کا فیصلہ کارگر نہیں رہا اور ٹیم میں واپس آکر داغدار کھلاڑی وہی گل پھر کھلاتے رہے۔

تاہم لاہور میں غیر ملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو میں شہر یار خان کا کہنا تھا کہ محمد عامر کو اپنے جرم کا اقرار کرنے اور گناہ کی معافی مانگنے پرموقع دیا جا رہا ہے۔ انسانیت اور اسلام دونوں میں معافی کی بہت اہمیت ہے۔تاہم چیئرمین پی سی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکستانی ٹیم میں واپس آنے کے لیے عامر کو پہلے مقامی کرکٹ میں خود کو منوانا ہو گا۔

(جاری ہے)

شہر یار کے بقول ٹیم میں اس کی واپسی آسان نہ ہوگی۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں عامر کو سخت مخالفانہ ماحول کا سامنا ہو گا۔ حریفوں کے علاوہ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑی بھی اس کی مخالفت کریں گے۔شہر یار خان کے مطابق سابق کپتان رمیز راجہ کے محمد عامر کے بارے میں تحفظات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ تاہم چیرمین پی سی بی کا کہنا تھا، ”عامر سے متعلق پاکستانی کرکٹرز کے احساسات کا جائزہ لیا جائے گا اور کھلاڑیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ فاسٹ بولر کو اپنے کیے کی پانچ سال سزا تو مل چکی ہے، اب اسے دوسری سزا تو نہ دی جائے۔

“ انہوں نے امید ظاہر کی، ” کھلاڑی معافی دینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ لیکن اس کا تمام تر دور مدار خود محمد عامر کے اپنے رویے پر ہو گا۔ ہو سکتا ہے ایک دو سال ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کے بعد وہ پاکستان ٹیم کے کام آسکے۔“شہر یار خان جو پاکستان کرکٹ بورڈ کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ کے پہلے منتخب چیئرمین ہیں کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی ہے۔

”یہ سب راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ دسمبر میں کینیا کی ٹیم کا دورہ پاکستان اس سلسلے کی پہلی کڑی ہوگا۔ اگلے سال سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے کی انڈر 19 ٹیمیں یہاں آرہی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں آئرلینڈ، ہالینڈ اور نیپال کی ٹیمیں پاکستان آ کر کھیلیں گی۔ یوں رفتہ رفتہ دو ہزار پندرہ میں پاکستان پرعالمی کرکٹ کے بند دروازے کھل جائیں گے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم سے بھی اجازت مانگی ہے۔

“اگلے برس طے پاک بھارت سیریز کے بارے میں معتبر سفارت کار شہر یارخان کا کہنا تھا کہ مسٹر سری نواسن نے انہیں سیریز کھیلنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا، ”جائلز کلارک نے بھی پاکستان کرکٹ سے متعلق اپنی سفارشات میں پاک بھارت سیریز کے انعقاد پر زور دیا تھا کیونکہ اس کی اہمیت ایشیز سے بھی بڑھ کر ہے۔ پاکستان کی امن وامان کی صورتحال دن بدن بہتر ہو رہی ہے تاہم ہم بھارت سے غیر جانبدار مقام پر کھیلنے کو تیار ہیں۔

“سعید اجمل کے بولنگ ایکشن کے بارے میں چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ اجمل اپنے ایکشن کی اصلاح کے لیے بے حد پرعزم ہیں، ” ان کا نام عالمی کپ کے ممکنہ تیس کھلاڑیوں میں بھی شامل ہے۔ ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ جنوری میں حتمی پندرہ کھلاڑیوں کے اعلان سے پہلے آف اسپنر کا ایکشن آئی سی سی کے مروجہ قانون کے مطابق آجائے۔ اجمل کے بازو کا خم بیس ڈگری سے کم ہو چکا ہے لیکن آخری چار پانچ ڈگری خم کم کرنا بہت مشکل ہو گا۔

“آٹھ برس قبل شہر یار خان کی پی سی بی چیئرمین شپ کے پہلے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم عالمی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر پہنچی تھی۔ رواں برس اگست میں ان کے بورڈ کی باگ ڈور دوسری بار سنبھالنے کے بعد ٹیم پھر کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔اس بارے میں شہریار کہتے ہیں، ”میرے پاس کوئی جادو کی پڑیا نہیں۔ یہ سب مصباح الحق پر اعتماد کے اظہار کا نتیجہ ہے۔

مصباح کو کپتان برقرار رکھنا ایک بہت مشکل فیصلہ تھا۔ ٹیم ہار رہی تھی، کپتان آوٹ آف فارم اور بد دل ہو چکا تھا۔ اکثریت نے مجھے مصباح کو ہٹانے کا مشورہ دیا۔ ذرائع ابلاغ میں بھی اسے دفاعی کپتان قراردیا جا رہا تھا لیکن اس کی گزشتہ کامیابیوں کا موازنہ کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ برا وقت تو ہرکرکٹر پرآتا ہے اس لیے سب کی مخالفت مول لے کر اپنا وزن مصباح کے پلڑے میں ڈال دیا اور اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔“ایک سوال کے جواب میں شہر یار خان کا کہنا تھا کہ پی سی بی میں ڈاوٴن سائزنگ کی جا رہی ہے۔ کرکٹ بورڈ میں ملازمین اور گاڑیوں کی تعداد ضرورت سے کہیں زیادہ ہے لیکن ملازمین کی چھانٹی کرتے ہوئے انسانی پہلووں کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔