سینٹ، بنکنگ کے شعبہ پر بحث ، چئیرمین نے وزیر پٹرولیم کا جواب غیرتسلی بخش قرار دیا ،وزیر خزانہ سے جواب ملنے تک تحریک موخر ، بینکاری نظام کو سہل بنایا جائے، دیہاتیوں کیلئے اکاؤنٹس کھولنے کیلئے آسان طریقہ کار وضح کیا جائے،سینیٹر لطیف انصاری، بنکوں سے اربوں روپے لو ٹنے والوں سے رقم نکلوا کر فاٹا کیلئے قرضوں کی مد میں رقم مختص کی جائے،سینٹر عثمان کاکڑ ،ملک میں اسلامک بنکنگ کے نام پر دھوکہ دیا جارہا ہے ،دنیا میں بنکوں کی چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے،پاکستان میں چھٹیوں سے تجارتی برادری شدید متاثر ہوتا ہے، سینیٹر طلحہ محمود و دیگر کا بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 12 مئی 2015 08:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12 مئی۔2015ء)چےئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے وفاقی وزیرپٹرولیم کی جانب سے بنکنگ کے شعبے کی کارکردگی کے حوالے سے وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے تحریک کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے تسلی بخش جواب ملنے تک مؤخر کردیا۔سوموار کے روز سینیٹ اجلاس کے موقع پر سینیٹر عثمان سیف اللہ کی جانب سے بنکنگ کے شعبے کی مجموعی کارکردگی کے حوالے سے جاری تحریک پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر لطیف انصاری نے کہا کہ یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک کے اندر سب سے اہم محکمہ بنکنگ کا ہے مگر لگتا ہے کہ انہوں نے یہ ادارہ اپنے ذاتی مقاصد کیلئے بنایا ہے ملک کی 60 فیصد دیہاتی آبادیوں کو بنکنگ کے شعبے کا فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بنک کے بنک اکاؤنٹس کھولنے پر قدغن لگائی ہے،میرا مطالبہ ہے کہ بائیومیٹرک تصدیق کے ذریعے دیہاتیوں کو اکاؤنٹس کھولنے کے مواقع دئیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں زرعی بنک بند ہوچکا ہے اب آبادیوں کو بنکوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ فیس ہے،بنکوں میں سرمایہ امیر لوگوں کا ہے اور وہی بنکوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،حکومت بینکاری نظام کو آسان اور سہل بنایا جائے اور دہاتی علاقوں میں رہنے والوں کو اکاؤنٹس کھولنے کیلئے آسان طریقہ کار وضح کیا جائے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ملک کا سب سے اہم شعبہ زراعت ہے مگر زرعی بنک کی کارکردگی بہت ہی ناقص ہے،بلوچستان میں قرضے میں میرٹ پر نہیں دئیے جاتے ہیں،بلوچستان میں 10سالہ خشک سالی کے باوجود زرعی بنک نے قرضے معاف نہیں کئے مگر سندھ اور پنجاب مں ے اربوں روپے قرضے معاف کردئیے گئے،بلوچستان میں بجلی نہیں ہے،پانی نہیں ہے،زرعی بنک بلوچستان کیلئے متفقہ قرارداد منظور کی جائے،زرعی بنک کے صدر نے 10/15دن پہلے جو پروموشن کئے ہیں اس میں بھی بے قاعدگی ہے،اس کا نوٹس لینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل بنک اوردیگر بنک آسان شرائط اور کم از کم سود پر قرضے دئیے جائیں،نیشنل بنک بلوچستان کو لوکل افراد کو بھرتی کرنے کا پابند بنایا جائے۔سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ30سالوں سے فاٹا کے ساتھ زیادتیاں جاری ہیں،بنکوں سے قبائلی عوام کو قرضے نہیں ملتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ہم پاکستانی نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن مگر مچھوں نے بنکوں سے اربوں روپے لوٹے ہیں ان سے رقم نکالی جائے اور فاٹا کیلئے قرضوں کی مد میں رقم مختص کی جائے۔

سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ پاکستان اس وقت معاشی طور پر دباؤ میں ہے اور اسکے ذمہ دار بنک بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ترقی پذیر ملک ہیں مگر ہمارے اوپر ترقی یافتہ ممالک کے قوانین لاگو ہیں۔انہوں نے کہا کہ بنکوں میں مسائل ہیں20لاکھ روپے نکالنے پر ریڈ لائن آجاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں بنکوں کی چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے اس کے برعکس پاکستان میں پہلے ہفتے اور اتوار کو تمام بنک بند ہوتے ہیں جس سے تجارتی برادری شدید متاثر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اسلامک بنکنگ کے نام پر دھوکہ دیا جارہا ہے اس میں کوئی قانون بھی اسلامی نہیں ہے،نیشنل بنک نے قرضہ دار کا تعین کئے بغیر اربوں کھربوں روپے کے قرضے دینے جو ابھی تک وصول نہیں ہوئے ہیں،یہی مسئلہ گلگت بلتستان کا ہے بنک کو لوٹا گیا ہے اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی جائے تاکہ ان لوگوں کا محاسبہ ہوسکے۔سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک کے اندر ہمیشہ سکینڈل بنتے رہے،لیکن آً تک کسی کوبھی بنکوں کو لوٹنے کا جرم گرفتار نہیں ہوتے ہیں ملک کے اندر غریب اور عام آدمی کیلئے اکاؤنٹ کھولنا بھی مسئلہ بن چکا ہے اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنانی چاہئے جس میں غریب افراد کو آسان شرائط پر بنک اکاؤنٹس کھولنے اور قرضے فراہم کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسی پالیسی بنائی جائے تاکہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔انہوں نے کہا کہ سود کا کاروبار اللہ پاک اور رسول اللہﷺ کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے،ایسا نظام لانا چاہئے جس میں غریب آدمی کو اس کا حق مل سکے،مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ بنکنگ کا مسئلہ بہت اہم ہے ملک میں اسلامک بنکنگ کا آغاز ہوا ہے اور یہ بہت حد تک کامیاب رہا ہے،عرب ممالک میں بھی اس پر آغاز ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں خالصتاً اسلامی بنکنگ کا آغاز کیا جائے،پاکستان میں بعض بنک اسلامک بنکنگ کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں،اس کی تحقیقات کی جائے اور بنکنگ کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں،اگر اسلامک بنک کا آغاز کیا جائے تو ملک میں خوشحالی آئے گی،وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تمام بنکوں کے پاس چھوٹے تاجروں کیلئے مخصوص بجٹ ہوتا ہے،خیبرپختونخوا گلگت اور بلتستان میں 13فیصد رقم ان کیلئے مختص ہوئی ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وفاقی وزیر نے انتہائی اہم مسئلے پر غیر تسلی بخش جواب دیا ہے،حکومت کا یہ جواب غلط ہے کہ بنک پرائیویٹ شعبے میں ہیں،تمام بنکوں کو سٹیٹ بنک کنٹرول کرتا ہے۔انہوں نے وفاقی وزیر کی جانب سے غیر تسلی بخش جواب پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے چےئرمین سینیٹ سے مطالبہ کیا کہ اس کے خلاف ایک سخت قرارداد منظور کی جائے۔سینیٹر الیاس بلور نے بھی وفاقی وزیر کے جواب کو غیر تسلی بخش قراردیا۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا پر سرخ لکیر کھینچی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ تین دنوں کی بحث کے بعد مختصر جواب نہایت افسوسنا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جو مسئلہ میں درج تھا ،میں نے اسی کے مطابق جواب دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بنک پرائیویٹ ہوچکے ہیں،اسٹیٹ بنک صرف ریگولیٹری ادارہ ہے۔سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ وفاقی وزیر ایک بار پھر مسئلے کو غلط رخ پر لیکر جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بنک پرائیویٹ بنکوں کیلئے طریقہ کار وضع کرتا ہے مگر ہمیں اسٹیٹ بنک کی جانب سے بنکوں سے قرضوں کی فراہمی بارے کچھ نہیں کہا گیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ حکومتی منظوری پر 100ملین ڈالر رکھنے کے بعد بنک کھولنے کی اجازت دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ 700 ارب روپے میں خیبرپختونخوا کو60 ارب روپے دئیے گئے جو کہ زیادتی کے مترادف ہے۔چےئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ موصوف وزیر نے تسلی بخش جواب نہیں دیا اور تحریک کو مؤخر کرتے ہوئے کہا کہ اس پر بحث کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار از خود جواب دیں گے

متعلقہ عنوان :