کسی صوبے میں زراعت کی ترقی کیلئے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی،سینٹ کمیٹی میں انکشاف،45فیصد لیبر زراعت سے وابستہ ہے ، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں نے زراعت کی ترقی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے، سکندر بوسن،پی اے آر سی نے زیتون کی کاشت کے فروغ کیلئے بلوچستان میں ایک لاکھ اور فاٹا میں 73 ہزار پودے کاشتکاروں میں تقسیم کئے

بدھ 9 دسمبر 2015 09:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9دسمبر۔2015ء) کم ترقی یافتہ علاقوں کے حوالے سے سینٹ کی کمیٹی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کسی صوبے میں زراعت کے شعبے کی ترقی کیلئے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ،45فیصد لیبر زراعت سے وابستہ ہے ، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں نے زراعت کی ترقی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے ۔ ایف سی اے فیڈرل کمیٹی فار ایگری کلچرل کے اجلاس میں پنجاب کے علاوہ کوئی صوبہ شرکت نہیں کرتا ، زراعت کی ترقی کیلئے بجٹ بڑھانے کی بجائے 32 بلین سے کم کرکے ایک بلین کردیا گیا ہے اگر حکومت نے ریسرچ کیلئے بجٹ نہیں دینا تو پی اے آر سی کو بند کردیا جائے بلوچستان کے ایک ہزار کاشتکاروں کو ٹماٹر کاشت کے حوالے سے تربیت فراہم کی جارہی ہے ۔

کمیٹی نے سفارش کی کہ زیادہ سے زیادہ بجٹ زراعت کی ریسرچ پر خرچ کیا جائے پی اے آر سی کی طرف سے زیتون کی کاشت کے فروغ کیلئے بلوچستان میں ایک لاکھ دو ہزار 840 اور فاٹا میں 73 ہزار پانچ سو زیتون کے پودے کاشتکاروں میں مفت تقسیم کئے گئے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس منگل کے روز چیئرمین سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد کیا گیا جس میں ممبران کی اکثریت نے شرکت کی کمیٹی بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات بوسن نے بتایا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت کی وزارت صوبوں کو چلی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی صوبہ زراعت کی ترقی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کررہا ۔

صوبوں کو آزادی تودے دی گئی لیکن صوبے زراعت کی ترقی کیلئے اقدامات کرنے کو تیار نہیں کسان پیکج شارٹ ٹرم ریلیف ہے اس کیلئے صوبوں کو لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی سکندر بوسن نے کہا کہ ملک کی 67فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور 45فیصد لیبر زراعت سے منسلک ہے وفاقی وزارت زراعت و ریسرچ واحد وزارت ہے جو اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی اپنے دائرہ کار سے ہٹ کرچاروں صوبوں گلگت و فاٹا میں ریسرچ کا کام کررہی ہے ۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیڈرل کمیٹی برائے زراعت کا سال میں دو بار اجلاس ہوتا ہے جس میں صرف پنجاب سے سیکرٹری ہی شرکت کرتے ہیں کسی اور صوبے کا کوئی وزیر زراعت اس کمیٹی میں شرکت نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے کسان کی حالت بہت خراب ہے ستانوے فیصد ملک میں چھوٹے کسان ہیں بڑے کسانوں کی شرح 0.1فیصد ہے زراعت کی ترقی صرف حکومت کا کام نہیں اس کیلئے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا کمیٹی کے چیئرمین محمد عثمان کاکڑ نے کہا کہ حکومت زیادہ سے زیادہ بجٹ زراعت کیلئے ریسرچ پر خرچ کرے لائیو سٹاک فوڈ فشریز اور پانی کی ریسرچ کیلئے ملک میں سنٹرز قائم کئے جائیں چیرمین نے مطالبہ کیا کہ میرے علاقے ژوب میں ریسرچ سنٹر قائم کیا جائے وفاقی سیکرٹری فوڈ اینڈ سکیورٹی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی صورتحال وہی ہے دستوری طور پر چیزیں تبدیل ہوئی ہیں صورتحال ویسی ہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے پی اے آر سی کو بجٹ نہیں دیتنا صرف تنخواہیں ہی دینی ہیں تو اس ادارے کو بند کردیا جائے پی اے آر سی کے سابق چیئرمین نے بتایا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے ستر فیصد علاقے کم ترقی یافتہ ہیں پانچ سا ل کیلئے بلوچستان کو ایکسپورٹ کیلئے فری ڈیوٹی قرار دیا گیا ہے تاکہ بلوچستان کا کسان خوش حال ہو لیکن افسوس کی بات ہے کہ بلوچستان کے 99 فیصد کسانوں کو معلومات ہی نہیں ہیں ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ دو ارب روپے کا پروجیکٹ جس کے پانچ سال بعد ہمیں تین سو ارب روپے کا کھانے کا تیل باہر سے درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ہم برآمد کرنے کے قابل ہوجائیں گے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے پی اے آر سی حکام نے بتایا کہ بلوچستان علاقوں قلعہ سیف اللہ میں اٹھائیس ہزار چھ سو بیس بارکھان ، 9ہزار 2سو 32 موسی خیل میں چھ ہزار تین سو چالیس ژوب میں 23ہزار 6سو لورالائی میں 28ہزار چھ سو اڑتالیس کرم ایجنسی میں دو سو خضدار میں چودہ سو پنگجور میں چار سو کوئٹہ میں چار ہزار اور پشین میں چار سو زیتون کے پودے مفت تقسیم کئے گئے اس کے علاوہ فاٹا کے علاقوں جنوبی وزیرستان ایجنسی اکتیس ہزار مہمند ایجنسی میں بائیس ہزار پانچ سو باڑہ خیبر ایجنسی میں پانچ ہزار باجوڑ ایجنسی میں تین ہزار اور شمالی وزیرستان ایجنسی میں بارہ ہزار زیتون کے پودے تقسیم کئے گئے کمیٹی کو بتایا گیا کہ بلوچستان اور فاٹا نے یہ علاقے زیتون کی کاشت کیلئے موزوں ترین ہیں

متعلقہ عنوان :