وائس چیئرمین بلدیہ اٹک ملک طاہر اعوان کے خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی ، اے ایس پی اور ایس ایچ او تھانہ صد ر پر سنگین الزامات

الزامات کی اعلیٰ سطحی انکوائری کرائی جائے،حکومت سے مطالبہ

ہفتہ 21 اگست 2021 23:57

اٹک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 اگست2021ء) وائس چیئرمین بلدیہ اٹک ملک طاہر اعوان نے خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی ، اے ایس پی ( ایس ڈی پی او صدر سرکل ) جواد اسحاق اور تفتیشی سب انسپکٹر عظمت حیات جو اب ایس ایچ او تھانہ صدر اٹک کے عہدے پر تعینات ہیں پر کرپشن اختیارات کے ناجائز استعمال ، بدعنوانی، سرکاری پیٹرول شیل پیٹرول پمپ اٹک سے اپنے خاوند کی گاڑی اور دیگر نجی گاڑیوں میں ڈلوانے ، اپنی سرکاری نمبر پلیٹ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار میں استعمال کرکے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے ، معمولی تنخواہ میں اٹک کے سب سے مہنگے رہائشی علاقے میں عالیشان کوٹھی میں رہائش ، بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے ، ایک لاکھ روپے رشوت وصول کرنے اور دیگر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان الزامات کی اعلیٰ سطحی انکوائری کرائی جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ان کے ہمراہ ان کے بیٹے ملک اذان اعوان اور پیپلز کالونی کے رہائشی ریحان محمود بھی موجود تھے جن پر اے ایس پی جواد اپنی جواں سالہ سالی کے ساتھ ملی بھگت کر کے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا تھا جو عدالت نے پہلی ہی سماعت میں خارج کر دیا ملک طاہر اعوان نے کہا کہ انہوں نے تین مرتبہ ضلع اٹک میں تعینات ہونے والی خاتون ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی (پی ایس پی) کے پی کے سے تعلق رکھنے والے اے ایس پی ایس ڈی پی او صدر سرکل جواد اسحاق اور سب انسپکٹر عظمت حیات کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر وزیر اعلیٰ پنجاب ، ا?ئی جی پنجاب اور ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کو الگ الگ تحریری درخواستوں میں تمام حقائق سے ا?گاہ کر دیا ہے اور ان افسران کے خلاف عدالت عالیہ راولپنڈی بینج میں بھی رٹ پٹیشن دائر کر دی ہے انہوں نے ان درخواستوں میں تحریر کیا کہ ان تینوں پولیس افسران نے ان کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ملی بھگت ، ساز باز اور مالی منفیت حاصل کر کے مقدمہ نمبر 155;47;21 مورخہ 10-05-2021 تھانہ اٹک سٹی میں ان کے بیٹے ملک اسامہ بن طاہر اعوان کے خلاف ایک ماہ ا?ٹھ دن بعد اسے نامزد کیا گیا جس کے خلاف ا?ج تک کوئی شہادت صفحہ مثل پر نہیں ا?ئی ہے تاہم اس کے باوجود یہ دونوں افسران مدعی مقدمہ وغیرہ کے گھر جا کر میرے سیاسی مخالفین کے ایمائ پر ان کی ہر قسم کی غیر قانونی مدد کرتے ہوئے میرے بیٹے کے خلاف شہادت تیار کرتے ہیں اور اب ممکنہ طور پر میرے بیٹے کو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں سزا یاب کرانے کے در پہ ہیں اور اس کیلئے انہوں نے دن رات ایک کر کے مجھے اور میرے بیٹے کو بلیک میل کیا ہوا ہے خاتون ایس پی ڈاکٹر عمارہ شیرازی اس سے قبل 3 مرتبہ اٹک میں اے ایس پی رہ چکی ہیں جو بہت زیادہ واقفیت ہونے اور کرپٹ عناصر سے تعلقات ہونے کی وجہ سے کرپشن لینے ماہر ہو چکی ہیں جن کو میرے سیاسی مخالفین و حکومتی ارکان کی مکمل پشت پنائی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ بار بار ضلع اٹک میں اپنی تعیناتی کرا لیتی ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ تفتیشی سب انسپکٹر عظمت حیات نے انہیں بلیک میل کر کے ان سے اسلم کالونی میں روبروگواہان ایک لاکھ روپے رشوت لی کہ میں ا?پ کے بیٹے کی مدد کروں گا اگر ا?پ نے مجھے ایک لاکھ روپے رشوت نہ دی تو میں مقدمہ ا?پ کے بیٹے کے خلاف کر دوں گا بعد میں کہا کہ ایس پی ڈاکٹر عمارہ شیرازی کہتی ہیں کہ پارٹی بہت امیر ہے ان سے 10 لاکھ روپے لو ورنہ ان کا ایسا بندوبست کرو تاکہ یہ یاد رکھیں جس پر میں نے انکار کیا کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے میں رشوت نہیں دیتا مجھے میرٹ چاہیے تو سب انسپکٹر عظمت حیات نے کہا کہ ایس پی میڈم عمارہ شیرازی ا?پ کا نام تک نہیں سننا چاہتی اور مجھے حکم دیا ہے کہ طاہر اعوان کا کوئی بھی جائز کام نہیں کرنا اور ہر طرح سے اس کے خلاف کاروائی کرنی ہے عظمت حیات نے یہ بھی کہا کہ ا?پ نے جو درخواست ڈی پی او اٹک رانا شعیب محمود کو دی تھی اس پر ایس پی انوسٹی گیشن نے ا?ج کوئی کاروائی نہیں کی ا?پ کو اس بات سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ خاتون ایس پی صاحبہ ا?پ کے کتنا خلاف ہیں خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی سرکاری گاڑی پر اپنے سسر قمر شاہ کو کامرہ اٹک سے میانوالی لینے و چھوڑنے کیلئے 3;47;4 ملازمین استعمال کرتی ہیں اس میں پیٹرول کے تمام اخراجات سرکاری ہوتے ہیں جس کا ثبوت ملازمین کے موبائل ڈیٹا ، ٹول پلازہ اور تصاویر سے واضح ہو جاتا ہے علاوہ ازیں خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اپنی ذاتی رہائش حافظ ا?باد میں سرکاری خرچ پر پولیس ملازمین کے ہمراہ ا?تی جاتی ہیں کیا اٹک کے عوام کیلئے مختص کیا گیا تیل خاتون ایس پی انویسٹی گیشن کے استعمال میں خرچ ہوتا ہے یہ تبدیلی ہے خاتون ایس پی کا معمول ہے کہ روزانہ 12 بجے دفتر ا?نا اور 3 بجے واپس کامرہ رہائش گاہ پر چلے جانا اور کبھی دفتر نہ ا?نا اٹک کے عوام کو صبح سے دفتر بلا کر ذلیل کرنا ، ایس پی کے دفتری اوقات 3 گھنٹے سے زائد نہ ہیں ان کا اپنا قانون ہے کہ جب مرضی ا?ئیں اور جب مرضی واپس چلی جائیں کیا حکومت انہیں 3 گھنٹے کی لاکھوں روپے تنخواہ اور ہر طرح کی مراعات دیتی ہے ، اے ایس پی ( ایس ڈی پی او صدر سرکل اٹک ) جواد اسحاق جب سے اٹک ا?ئے ہیں انہوں نے صدر سرکل میں قانون کی حکمرانی کی بجائے ایس ڈی پی او صدر سرکل ا?فس کو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی طلب اور رسد کا مرکز بنا دیا ہے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے شو روم مالکان سے اے ایس پی کا رابطہ رہنا واضح ثبوت ہے اس کے علاوہ اے ایس پی جو سرکاری گاڑی اپنے استعمال میں رکھتے ہیں اس کا نمبر ;657571;26 سبز نمبر پلیٹ پر لکھا ہوتا ہے گاڑی کبھی ویگو ، کبھی کار ، کبھی صرف گاڑی وغیرہ وغیرہ پر نیلی بتی لگا کر اٹک کے اندر اور بیرون ضلع بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ ان تمام گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر یہی نمبر درج ہوتا ہے قانون سب کیلئے برابر ہے تاہم ان افسران کیلئے کوئی الگ قانون ہو گا قانون اندھا ہوتا ہے لیکن نظر ایسے ا? رہا ہے کہ قانون اندھا نہیں بلکہ گونگا بہرا اور کانا ہے تفتیش افسر نے ان کی گاڑی کو فرانزک کیلئے جمع کرایا عملے نے ا? کر چیک کیا اور حادثہ میں استعمال ہونے والے موٹر سائیکل کا بھی معائنہ کیا اور کہا کہ یہ گاڑی حادثہ میں استعمال نہ ہوئی ہے ان تمام معاملات کو جس میں گاڑی کلیئر ہو گئی کو تفتیشی ایس پی انویسٹی گیشن کی بے جاہ مداخلت کی وجہ سے ان حقائق کو صفحہ مثل پر نہیں لا رہا ہے 18 اگست 2021 کو اے ایس پی ، ایس ایچ او ، سب انسپکٹر عظمت حیات ، سب انسپکٹر غلام حسن و دیگر عملہ تقریباً ا?دھے گھنٹے تک خود غیر قانونی طریقے سے گاڑی کو کھول کر بونٹ ، فرنٹ ، حصہ چیک کرنے کی بجائے مذکورہ گاڑی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک میں اور میرا بیٹا تھانے داخل ہوئے ، سارا واقعہ اپنی ا?نکھوں سے دیکھا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی جا سکتی ہے 17 اگست کو ان کے بیٹے کی گاڑی کا مکمل طور پر معائنہ ماہر فرانزک لیبارٹری والوں نے کیا اس کے بعد ان کی گاڑی کے ساتھ اے ایس پی اور دیگر پولیس افسران کی چھیڑ چھاڑ غیر قانونی اور انہیں نقصان پہنچانے کے مترادف ہے یہ پولیس افسران اس بات کے متعلق بھی ا?گاہ کریں کہ انہوں نے اس سے قبل کبھی تھانہ میں ماہرین کے بغیر گاڑیوں کا معائنہ کیا ہے اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب انسپکٹر عظمت حیات کو 10 لاکھ روپے رشوت نہ دے کر میں اور میرا بیٹا سزا بھگت رہے ہیں ایس پی اور اے ایس پی کے گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سب انسپکٹر عظمت حیات تبدیل بھی ہو گیا تاہم تفتیش میں وہ ہر جگہ تھانہ سے لے کر ڈی پی او ا?فس اور ہائی کورٹ تک وہ خود پیش ہو رہا ہے اس کرپٹ اور بددیانت کے علاوہ کوئی اتنا قابل نہیں ہے جو مقدمہ میں بطور تفتیشی افسر پیش ہو ایس پی اور اے ایس پی نے موجودہ تفتیشی کو بھی یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غیر قانونی طریقہ اختیار کر کے مقدمہ کی تفتیش ہمارے خلاف کرنا چاہتے ہیں سب انسپکٹر عظمت حیات جس نے ان سے ایک لاکھ روپے رشوت لی اور وہ اب رقم واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے اور اکثر اوقات وٹس ایپ پر کال کر کے تسلی دے دیتا ہے ان کے افسران کو بھی اس کے بارے میں ا?گاہ کیا گیا تو اس نے مجھے واضح دھمکی دی کہ ا?پ جہاں مرضی شکایت کر لیں ا?خر تفتیش محکمہ پولیس نے ہی کرنی ہے مجھے تھانہ اٹک سٹی اور تھانہ صدر اٹک کے قتل کے مقدمات کا انچارج افسران نے بنایا ہے اور خاص طور پر ا?پ کے مقدمہ کی دیکھ بھال میرے سپرد کی ہوئی ہے عظمت حیات بطور انچارج ایچ ا?ئی یو کی حیثیت سے قتل کی غلط تفتیش کرنے کے سبب کروڑ پتی بن چکا ہے جس نے اٹک کے سب سے مہنگے اور پوش علاقہ میں 10 مرلہ میں اپنی کوٹھی بنائی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ مختلف پلاٹس اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے نام خرید رکھے ہیں ذاتی کار اور بچوں کی تعلیم مہنگے تعلیمی اداروں میں کرا رہا ہے یہ قتل کے مقدمات میں خود پہلے مدعی پارٹی سے مل کر ایف ا?ئی ا?ر میں بے گناہ لوگوں کو نامزد کرواتا ہے اور بعد میں بھاری رشوت لے کر ان کو مختلف طریقے بتا کر افسران کو اندھیرے میں رکھ کر یا رشوت لے کر بے گناہ کرواتا ہے یہ تمام افسران میرے مخالف کو خوش کرنے کیلئے مجھے اور میرے بیٹوں کے دشمن بن چکے ہیں اور یہ کسی بھی وقت ہ میں نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کے الزامات پر کسی سینئر غیر جانبدار ا?فیسر سے انکوائری کرائی جائے اور حتمی انکوائری رپورٹ تک ان افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے بہت سے حقائق وہ ابھی میڈیا کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہتے وہ تمام حقائق وہ اعلیٰ سطحی انکوائری ٹیم کے سامنے پیش کریں گے ڈی پی او اٹک رانا شعیب محمود سے انہوں نے 20 اگست کو سینئر قانون دان سید عظمت علی بخاری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور ثاقب شاہ زیب اعوان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کے ہمراہ ملاقات کی اور انہوں نے ڈی پی او کو تمام صورتحال سے ا?گاہ کرتے ہوئے انہیں کاغذات دیئے جو انہوں نے بھی اپنے ماتحت عملہ کی روش پر عمل پیرا ہو کر صفحہ مثل پر نہیں لگائے جس میرٹ کا قتل عام کیا جا رہا ہے ان کی پریس کانفرنس سے قبل ڈی پی او ا?فس کے ترجمان کی جانب سے ان کی کردار کشی ، پولیس کے ان کے خلاف عزائم کو بے نقاب کرتی ہے جس میں پولیس نے ان کے خلاف جن مقدمات کی لسٹ جاری کی ہے یہ تمام مقدمات عدالتوں نے خارج کر کے انہیں باعزت بری کیا ہے جس پر پولیس نے اپیل دائر نہیں کی اور ان کے خلاف ڈی پی او ا?فس کے میڈیا سیل سے جو شرانگیز پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے اس پر وہ ان افسران کے خلاف دس دس کروڑ روپے کے حرجانہ کا دعویٰ کریں گے پاکستان خاص طور پر اٹک میں قیام پاکستان سے لے کر ا?ج تک افسران اپنی من مانی ، مالی و اخلاقی کرپشناٹک (آن لائن) وائس چیئرمین بلدیہ اٹک ملک طاہر اعوان نے خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی ، اے ایس پی ( ایس ڈی پی او صدر سرکل ) جواد اسحاق اور تفتیشی سب انسپکٹر عظمت حیات جو اب ایس ایچ او تھانہ صدر اٹک کے عہدے پر تعینات ہیں پر کرپشن اختیارات کے ناجائز استعمال ، بدعنوانی، سرکاری پیٹرول شیل پیٹرول پمپ اٹک سے اپنے خاوند کی گاڑی اور دیگر نجی گاڑیوں میں ڈلوانے ، اپنی سرکاری نمبر پلیٹ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کاروبار میں استعمال کرکے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے ، معمولی تخواہ میں اٹک کے سب سے مہنگے رہائشی علاقے میں عالیشان کوٹھی میں رہائش ، بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے ، ایک لاکھ روپے رشوت وصول کرنے اور دیگر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان الزامات کی اعلیٰ سطحی انکوائری کرائی جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ان کے ہمراہ ان کے بیٹے ملک اذان اعوان اور پیپلز کالونی کے رہائشی ریحان محمود بھی موجود تھے جن پر اے ایس پی جواد اپنی جواں سالہ سالی کے ساتھ ملی بھگت کر کے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا تھا جو عدالت نے پہلی ہی سماعت میں خارج کر دیا ملک طاہر اعوان نے کہا کہ انہوں نے تین مرتبہ ضلع اٹک میں تعینات ہونے والی خاتون ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی (پی ایس پی) کے پی کے سے تعلق رکھنے والے اے ایس پی ایس ڈی پی او صدر سرکل جواد اسحاق اور سب انسپکٹر عظمت حیات کی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر وزیر اعلیٰ پنجاب ، ا?ئی جی پنجاب اور ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب کو الگ الگ تحریری درخواستوں میں تمام حقائق سے ا?گاہ کر دیا ہے اور ان افسران کے خلاف عدالت عالیہ راولپنڈی بینج میں بھی رٹ پٹیشن دائر کر دی ہے انہوں نے ان درخواستوں میں تحریر کیا کہ ان تینوں پولیس افسران نے ان کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ملی بھگت ، ساز باز اور مالی منفیت حاصل کر کے مقدمہ نمبر 155;47;21 مورخہ 10-05-2021 تھانہ اٹک سٹی میں ان کے بیٹے ملک اسامہ بن طاہر اعوان کے خلاف ایک ماہ ا?ٹھ دن بعد اسے نامزد کیا گیا جس کے خلاف ا?ج تک کوئی شہادت صفحہ مثل پر نہیں ا?ئی ہے تاہم اس کے باوجود یہ دونوں افسران مدعی مقدمہ وغیرہ کے گھر جا کر میرے سیاسی مخالفین کے ایمائ پر ان کی ہر قسم کی غیر قانونی مدد کرتے ہوئے میرے بیٹے کے خلاف شہادت تیار کرتے ہیں اور اب ممکنہ طور پر میرے بیٹے کو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں سزا یاب کرانے کے در پہ ہیں اور اس کیلئے انہوں نے دن رات ایک کر کے مجھے اور میرے بیٹے کو بلیک میل کیا ہوا ہے خاتون ایس پی ڈاکٹر عمارہ شیرازی اس سے قبل 3 مرتبہ اٹک میں اے ایس پی رہ چکی ہیں جو بہت زیادہ واقفیت ہونے اور کرپٹ عناصر سے تعلقات ہونے کی وجہ سے کرپشن لینے ماہر ہو چکی ہیں جن کو میرے سیاسی مخالفین و حکومتی ارکان کی مکمل پشت پنائی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ بار بار ضلع اٹک میں اپنی تعیناتی کرا لیتی ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ تفتیشی سب انسپکٹر عظمت حیات نے انہیں بلیک میل کر کے ان سے اسلم کالونی میں روبروگواہان ایک لاکھ روپے رشوت لی کہ میں ا?پ کے بیٹے کی مدد کروں گا اگر ا?پ نے مجھے ایک لاکھ روپے رشوت نہ دی تو میں مقدمہ ا?پ کے بیٹے کے خلاف کر دوں گا بعد میں کہا کہ ایس پی ڈاکٹر عمارہ شیرازی کہتی ہیں کہ پارٹی بہت امیر ہے ان سے 10 لاکھ روپے لو ورنہ ان کا ایسا بندوبست کرو تاکہ یہ یاد رکھیں جس پر میں نے انکار کیا کہ میرا بیٹا بے گناہ ہے میں رشوت نہیں دیتا مجھے میرٹ چاہیے تو سب انسپکٹر عظمت حیات نے کہا کہ ایس پی میڈم عمارہ شیرازی ا?پ کا نام تک نہیں سننا چاہتی اور مجھے حکم دیا ہے کہ طاہر اعوان کا کوئی بھی جائز کام نہیں کرنا اور ہر طرح سے اس کے خلاف کاروائی کرنی ہے عظمت حیات نے یہ بھی کہا کہ ا?پ نے جو درخواست ڈی پی او اٹک رانا شعیب محمود کو دی تھی اس پر ایس پی انوسٹی گیشن نے ا?ج کوئی کاروائی نہیں کی ا?پ کو اس بات سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ خاتون ایس پی صاحبہ ا?پ کے کتنا خلاف ہیں خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی سرکاری گاڑی پر اپنے سسر قمر شاہ کو کامرہ اٹک سے میانوالی لینے و چھوڑنے کیلئے 3;47;4 ملازمین استعمال کرتی ہیں اس میں پیٹرول کے تمام اخراجات سرکاری ہوتے ہیں جس کا ثبوت ملازمین کے موبائل ڈیٹا ، ٹول پلازہ اور تصاویر سے واضح ہو جاتا ہے علاوہ ازیں خاتون ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر عمارہ شیرازی اپنی ذاتی رہائش حافظ ا?باد میں سرکاری خرچ پر پولیس ملازمین کے ہمراہ ا?تی جاتی ہیں کیا اٹک کے عوام کیلئے مختص کیا گیا تیل خاتون ایس پی انویسٹی گیشن کے استعمال میں خرچ ہوتا ہے یہ تبدیلی ہے خاتون ایس پی کا معمول ہے کہ روزانہ 12 بجے دفتر ا?نا اور 3 بجے واپس کامرہ رہائش گاہ پر چلے جانا اور کبھی دفتر نہ ا?نا اٹک کے عوام کو صبح سے دفتر بلا کر ذلیل کرنا ، ایس پی کے دفتری اوقات 3 گھنٹے سے زائد نہ ہیں ان کا اپنا قانون ہے کہ جب مرضی ا?ئیں اور جب مرضی واپس چلی جائیں کیا حکومت انہیں 3 گھنٹے کی لاکھوں روپے تنخواہ اور ہر طرح کی مراعات دیتی ہے ، اے ایس پی ( ایس ڈی پی او صدر سرکل اٹک ) جواد اسحاق جب سے اٹک ا?ئے ہیں انہوں نے صدر سرکل میں قانون کی حکمرانی کی بجائے ایس ڈی پی او صدر سرکل ا?فس کو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی طلب اور رسد کا مرکز بنا دیا ہے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے شو روم مالکان سے اے ایس پی کا رابطہ رہنا واضح ثبوت ہے اس کے علاوہ اے ایس پی جو سرکاری گاڑی اپنے استعمال میں رکھتے ہیں اس کا نمبر ;657571;26 سبز نمبر پلیٹ پر لکھا ہوتا ہے گاڑی کبھی ویگو ، کبھی کار ، کبھی صرف گاڑی وغیرہ وغیرہ پر نیلی بتی لگا کر اٹک کے اندر اور بیرون ضلع بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ ان تمام گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر یہی نمبر درج ہوتا ہے قانون سب کیلئے برابر ہے تاہم ان افسران کیلئے کوئی الگ قانون ہو گا قانون اندھا ہوتا ہے لیکن نظر ایسے ا? رہا ہے کہ قانون اندھا نہیں بلکہ گونگا بہرا اور کانا ہے تفتیش افسر نے ان کی گاڑی کو فرانزک کیلئے جمع کرایا عملے نے ا? کر چیک کیا اور حادثہ میں استعمال ہونے والے موٹر سائیکل کا بھی معائنہ کیا اور کہا کہ یہ گاڑی حادثہ میں استعمال نہ ہوئی ہے ان تمام معاملات کو جس میں گاڑی کلیئر ہو گئی کو تفتیشی ایس پی انویسٹی گیشن کی بے جاہ مداخلت کی وجہ سے ان حقائق کو صفحہ مثل پر نہیں لا رہا ہے 18 اگست 2021 کو اے ایس پی ، ایس ایچ او ، سب انسپکٹر عظمت حیات ، سب انسپکٹر غلام حسن و دیگر عملہ تقریباً ا?دھے گھنٹے تک خود غیر قانونی طریقے سے گاڑی کو کھول کر بونٹ ، فرنٹ ، حصہ چیک کرنے کی بجائے مذکورہ گاڑی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک میں اور میرا بیٹا تھانے داخل ہوئے ، سارا واقعہ اپنی ا?نکھوں سے دیکھا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی جا سکتی ہے 17 اگست کو ان کے بیٹے کی گاڑی کا مکمل طور پر معائنہ ماہر فرانزک لیبارٹری والوں نے کیا اس کے بعد ان کی گاڑی کے ساتھ اے ایس پی اور دیگر پولیس افسران کی چھیڑ چھاڑ غیر قانونی اور انہیں نقصان پہنچانے کے مترادف ہے یہ پولیس افسران اس بات کے متعلق بھی ا?گاہ کریں کہ انہوں نے اس سے قبل کبھی تھانہ میں ماہرین کے بغیر گاڑیوں کا معائنہ کیا ہے اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب انسپکٹر عظمت حیات کو 10 لاکھ روپے رشوت نہ دے کر میں اور میرا بیٹا سزا بھگت رہے ہیں ایس پی اور اے ایس پی کے گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سب انسپکٹر عظمت حیات تبدیل بھی ہو گیا تاہم تفتیش میں وہ ہر جگہ تھانہ سے لے کر ڈی پی او ا?فس اور ہائی کورٹ تک وہ خود پیش ہو رہا ہے اس کرپٹ اور بددیانت کے علاوہ کوئی اتنا قابل نہیں ہے جو مقدمہ میں بطور تفتیشی افسر پیش ہو ایس پی اور اے ایس پی نے موجودہ تفتیشی کو بھی یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غیر قانونی طریقہ اختیار کر کے مقدمہ کی تفتیش ہمارے خلاف کرنا چاہتے ہیں سب انسپکٹر عظمت حیات جس نے ان سے ایک لاکھ روپے رشوت لی اور وہ اب رقم واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے اور اکثر اوقات وٹس ایپ پر کال کر کے تسلی دے دیتا ہے ان کے افسران کو بھی اس کے بارے میں ا?گاہ کیا گیا تو اس نے مجھے واضح دھمکی دی کہ ا?پ جہاں مرضی شکایت کر لیں ا?خر تفتیش محکمہ پولیس نے ہی کرنی ہے مجھے تھانہ اٹک سٹی اور تھانہ صدر اٹک کے قتل کے مقدمات کا انچارج افسران نے بنایا ہے اور خاص طور پر ا?پ کے مقدمہ کی دیکھ بھال میرے سپرد کی ہوئی ہے عظمت حیات بطور انچارج ایچ ا?ئی یو کی حیثیت سے قتل کی غلط تفتیش کرنے کے سبب کروڑ پتی بن چکا ہے جس نے اٹک کے سب سے مہنگے اور پوش علاقہ میں 10 مرلہ میں اپنی کوٹھی بنائی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ مختلف پلاٹس اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے نام خرید رکھے ہیں ذاتی کار اور بچوں کی تعلیم مہنگے تعلیمی اداروں میں کرا رہا ہے یہ قتل کے مقدمات میں خود پہلے مدعی پارٹی سے مل کر ایف ا?ئی ا?ر میں بے گناہ لوگوں کو نامزد کرواتا ہے اور بعد میں بھاری رشوت لے کر ان کو مختلف طریقے بتا کر افسران کو اندھیرے میں رکھ کر یا رشوت لے کر بے گناہ کرواتا ہے یہ تمام افسران میرے مخالف کو خوش کرنے کیلئے مجھے اور میرے بیٹوں کے دشمن بن چکے ہیں اور یہ کسی بھی وقت ہ میں نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کے الزامات پر کسی سینئر غیر جانبدار ا?فیسر سے انکوائری کرائی جائے اور حتمی انکوائری رپورٹ تک ان افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے بہت سے حقائق وہ ابھی میڈیا کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہتے وہ تمام حقائق وہ اعلیٰ سطحی انکوائری ٹیم کے سامنے پیش کریں گے ڈی پی او اٹک رانا شعیب محمود سے انہوں نے 20 اگست کو سینئر قانون دان سید عظمت علی بخاری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور ثاقب شاہ زیب اعوان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کے ہمراہ ملاقات کی اور انہوں نے ڈی پی او کو تمام صورتحال سے ا?گاہ کرتے ہوئے انہیں کاغذات دیئے جو انہوں نے بھی اپنے ماتحت عملہ کی روش پر عمل پیرا ہو کر صفحہ مثل پر نہیں لگائے جس میرٹ کا قتل عام کیا جا رہا ہے ان کی پریس کانفرنس سے قبل ڈی پی او ا?فس کے ترجمان کی جانب سے ان کی کردار کشی ، پولیس کے ان کے خلاف عزائم کو بے نقاب کرتی ہے جس میں پولیس نے ان کے خلاف جن مقدمات کی لسٹ جاری کی ہے یہ تمام مقدمات عدالتوں نے خارج کر کے انہیں باعزت بری کیا ہے جس پر پولیس نے اپیل دائر نہیں کی اور ان کے خلاف ڈی پی او ا?فس کے میڈیا سیل سے جو شرانگیز پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے اس پر وہ ان افسران کے خلاف دس دس کروڑ روپے کے حرجانہ کا دعویٰ کریں گے پاکستان خاص طور پر اٹک میں قیام پاکستان سے لے کر ا?ج تک افسران اپنی من مانی ، مالی و اخلاقی کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال ، سرکاری وسائل کی لوٹ کھسوٹ ، سیاسی شخصیات کا ایک غیر قانونی کام کر کے اپنے 100 کام کر لیتے ہیں اور سیاسی شخصیات کبوتر کی طرح ا?نکھیں بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ڈگر پر گامزن ہے تاہم عام ا?دمی مڈل مین جس کرب اور مصیبتوں ، پریشانیوں ، مالی بدحالی اور دیگر وسائل نہ ہونے کے سبب جن مسائل کا شکار ہے ان کی طرف موجودہ منتخب اور غیر منتخب قیادت کی توجہ نہیں وہ ان افسران کے خلاف ہمیشہ ا?واز حق بلند کرتے رہے ہیں بطور وائس چیئرمین بلدیہ اٹک جس طرح انہوں نے عوام کی خدمت کی ہے اور اس کے قبل ناظم یونین کونسل اور کونسلر بلدیہ کی حیثیت سے بھی عوامی خدمت کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے اور وہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہیں اس کی پاداش میں اٹک کی سیاسی قیادت اور افسران کے گٹھ جوڑ نے ان کے بیٹے کو بے گناہ مقدمہ قتل میں ملوث کر دیا ہے افسران ان کے مخالفین کی دہلیز پر جا کر سجدہ ریز ہو کر ان کے ہر غلط اقدام پر ان کی حمایت اور ہماری جانب سے اپنی بے گناہی کیلئے ثبوتوں کو صفحہ مثل پر لانے کیلئے تیار نہیں جو پاکستان میں نا انصافی اور افسر شاہی کی ہٹ دھرمی اور جو ان کی زبان سے نکل ا?ئے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اٹک میں اس وقت یہ صورتحال ہے کہ پولیس جو قانون کی محافظ ہے جو قانون پر عملدرا?مد کی بجائے خود قانون شکنی ، غیر قانونی کاروبار ، سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال ، بدعنوانی ، تنخواہ سے زیادہ اخراجات اور دیگر غیر قانونی کاموں میں شریک ہے ہر مقدمے کا ریٹ مقرر ہے انصاف کی فراہمی صرف اشرافیہ تک محدود ہے عام ا?دمی کیلئے انصاف کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں لوگ دوردراز سے روزانہ ا? کر ناکام اور نامراد لوٹتے ہیں اور اسی طرح لوگوں کو ناجائز مقدمات میں ملوث اور بعدازاں معاملات طے ہونے پر بے گناہ یا عدالتوں سے ایسے بیانات جس میں ان لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے دے کر مک مکا کا سلسلہ جاری ہے۔

(جاری ہے)

، اختیارات کے ناجائز استعمال ، سرکاری وسائل کی لوٹ کھسوٹ ، سیاسی شخصیات کا ایک غیر قانونی کام کر کے اپنے 100 کام کر لیتے ہیں اور سیاسی شخصیات کبوتر کی طرح ا?نکھیں بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ڈگر پر گامزن ہے تاہم عام ا?دمی مڈل مین جس کرب اور مصیبتوں ، پریشانیوں ، مالی بدحالی اور دیگر وسائل نہ ہونے کے سبب جن مسائل کا شکار ہے ان کی طرف موجودہ منتخب اور غیر منتخب قیادت کی توجہ نہیں وہ ان افسران کے خلاف ہمیشہ ا?واز حق بلند کرتے رہے ہیں بطور وائس چیئرمین بلدیہ اٹک جس طرح انہوں نے عوام کی خدمت کی ہے اور اس کے قبل ناظم یونین کونسل اور کونسلر بلدیہ کی حیثیت سے بھی عوامی خدمت کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے اور وہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہیں اس کی پاداش میں اٹک کی سیاسی قیادت اور افسران کے گٹھ جوڑ نے ان کے بیٹے کو بے گناہ مقدمہ قتل میں ملوث کر دیا ہے افسران ان کے مخالفین کی دہلیز پر جا کر سجدہ ریز ہو کر ان کے ہر غلط اقدام پر ان کی حمایت اور ہماری جانب سے اپنی بے گناہی کیلئے ثبوتوں کو صفحہ مثل پر لانے کیلئے تیار نہیں جو پاکستان میں نا انصافی اور افسر شاہی کی ہٹ دھرمی اور جو ان کی زبان سے نکل ا?ئے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اٹک میں اس وقت یہ صورتحال ہے کہ پولیس جو قانون کی محافظ ہے جو قانون پر عملدرا?مد کی بجائے خود قانون شکنی ، غیر قانونی کاروبار ، سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال ، بدعنوانی ، تنخواہ سے زیادہ اخراجات اور دیگر غیر قانونی کاموں میں شریک ہے ہر مقدمے کا ریٹ مقرر ہے انصاف کی فراہمی صرف اشرافیہ تک محدود ہے عام ا?دمی کیلئے انصاف کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں لوگ دوردراز سے روزانہ ا? کر ناکام اور نامراد لوٹتے ہیں اور اسی طرح لوگوں کو ناجائز مقدمات میں ملوث اور بعدازاں معاملات طے ہونے پر بے گناہ یا عدالتوں سے ایسے بیانات جس میں ان لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے دے کر مک مکا کا سلسلہ جاری ہے۔

اٹک میں شائع ہونے والی مزید خبریں