وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت آزادکشمیر کی صورت حال پرآج اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوگا

بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی‘ آٹا پر سبسڈی‘ کشمیر بینک کی شیڈولنگ‘ طلبہ یونینز کی بحالی‘ بلدیاتی نمائندگان کا فنڈز کی ترسیل‘ موبائل فون کمپنیوں کی سروس اور پی ٹی اے کے معاملات‘ رٹھوعہ ہریام برج کی تعمیر اور اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ ‘ 30رکنی فیصلہ سازکمیٹی کے مطالبات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 13 مئی 2024 11:32

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت آزادکشمیر کی صورت حال پرآج اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوگا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13مئی۔2024 ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اور قیادت سے مل کردرپیش مسائل کو مذاکرات سے حل کریں گے ریڈیو پاکستان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے آزادکشمیر کی صورت حال پرآج پیر کے روز اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے جس میں آزادکشمیر کے وزیراعظم سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے.

(جاری ہے)

وزیر اعظم شہباز شریف نے کشمیر کی تمام جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے حل کے لیے پرامن لائحہ عمل اختیار کریں اتوار کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس “پر اپنے پیغام میں شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے بات کی ہے اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کو ایکشن کمیٹی کے راہنماﺅں سے بات کرنے کی ہدایت کی ہے.

آزاد کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہبازشریف کا کہنا تھا کہ مذاکرات اور پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہیں لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کو برداشت نہیں کرنا چاہیے انہوں نے امید ظاہر کی کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور ناقدین کی کوششوں کے باوجود یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا. وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کس طرح کچھ عناصر ہمیشہ اختلاف رائے کے حالات میں سیاسی پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے جلد بازی کرتے ہیںدوسری جانب صدرمملکت آصف علی زرداری نے گذشتہ روز آزادکشمیر کی کشیدہ صورت حال کے حوالے سے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل بات چیت اور باہمی مشاورت سے حل کریں ایوان صدر سے جاری ایک بیان کے مطابق صدر زرداری سے اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے آزادجموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ارکان کے وفد نے ملاقات کی جس میں صدر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں او عوام کو ذمہ داری سے کام لینا چاہیے تاکہ دشمن عناصر حالات کا فائدہ نہ اٹھا سکیں.

آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں ’سستی بجلی اور سستے آٹے کے لیے‘ احتجاج اور لانگ مارچ جاری ہے جس میں مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئی ہیں ہفتے کے روزضلع میرپور میں فائرنگ سے سب انسپکٹر عدنان فاروق کی موت ہو گئی تھی کمشنر میرپور ڈویژن چوہدری شوکت نے میرپور کے علاقے اسلام گڑھ میں پیش آئے واقعے میں عدنان کی موت کی تصدیق کی. حکومت نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے رینجرز طلب کی تھی جس کے بعد رینجرز کی تین کمپنیاں اتوار کو صبح کوہالہ کے مقام سے کشمیر میں داخل ہوئیں لیکن دو گھنٹے کوہالہ قیام کے بعد انہیں واپس بھیج دیا گیاآزاد کشمیر میں گذشتہ تین دن سے جاری پرتشدد احتجاج اور لانگ مارچ کو ختم کرنے اور مظاہرین کے مطالبوں کے حوالے سے حکومتی کمیٹی اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مابین بات چیت کا پہلا دور ناکام ہو گیا، جس کی تصدیق کمیٹی کے رکن عمر نذیر نے کی ہے عمر نذیر نے صحافیوں سے مختصر گفتگو میں الزام عائد کیا کہ اسلام آباد حکومت ان کے مطالبات حل کرنے میں سنجیدہ نہیں بات چیت کی ناکامی کے بعد راولا کوٹ میں مختلف علاقوں سے آئے مظاہرین آج پیر سے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کی جانب اپنا لانگ مارچ دوبارہ شروع کریں گے احتجاج اور لانگ مارچ کی وجہ سے مظفرآباد ڈویژن میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے پیر کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.

گزشتہ سال8مئی کو یہ تحریک اسلام آباد وفاقی حکومت کی جانب سے آٹے اور بجلی پر آزادکشمیر کے باشندوں سے وفاق پاکستان کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سبسڈی واپس لینے پر شروع ہونے والا احتجاج ایک سال میں پورے آزاد کشمیر میں پھیل چکا ہے مطالبات کے حصول کے لیے شروع ہونے والی تحریک کو منظم کرنے کے لیے8 اگست 2023 کو احتجاجی تحریک کی سربراہی کے لیے 30 رکنی فیصلہ ساز کمیٹی بنائی گئی اور اس کے تحت احتجاجی تحریک شروع کی گئی تھی کمیٹی 8مطالبات لے کر اپنی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہے جن میں معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی‘ آٹا پر سبسڈی‘ کشمیر بینک کی شیڈولنگ‘ طلبہ یونینز کی بحالی‘ بلدیاتی نمائندگان کا فنڈز کی ترسیل‘ موبائل سیلولرز کمپنیوں سروس اور پی ٹی اے کے معاملات‘ رٹھوعہ ہریام برج کی تعمیر اور اشرافیہ کی مراعات کو ختم کرنا شامل ہیں.

اس سلسلہ میںآزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے برطانوی نشریاتی ادارے سے ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایف سی اور پی سی کی تعیناتی کے حوالے سے حکومتی موقف انتہائی واضح ہے آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم، نیلم جہلم، جاگراں، گلپور سمیت کئی بڑے پراجیکٹس موجود ہیں، جن میں غیر ملکی انجینیئرز بھی کام کر رہے ہیں اورغیر ملکی انجینیئرز پر ہوئے حالیہ حملوں کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے اسلام آباد سے یہاں موجود آبی وسائل کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے ایف سی اور پی سی کی فراہمی کی درخواست کی تھی جسے قبول کرتے ہوئے دونوں فورسز فراہم کی گئیں وزیر اعظم آزادکشمیرنے دعویٰ کیا کہ ان فورسز کو کسی عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے نہیں بلایا گیا ہے.


اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں