&جماعت اسلامی پنجاب کے رہنمائوں حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں اور گندم کی امدادی قیمت 5 ہزار مقرر نہ کرنے کے خلاف ہنگامی پریس کانفرنس و احتجاجی مظاہرہ

ٰ لاہور سمیت پورے صوبے میں کاشتکار حکومتی بے حسی اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ) جماعت اسلامی نے ہمیشہ کاشتکاروں کی آوازکوہرپلیٹ فارم پر بلند کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں مقدمات بھی لڑے ہیں ۳ قائمقام امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی نصر اللہ گورائیہ کی امیر حلقہ لاہور ضیاء الدین انصاری، عرفان حیدر، ٓاشتیاق چیمہ،جبران بٹ، بشارت صدیقی،محمد فاروق چوہان کے ہمراہ پریس کانفرنس و احتجاجی مظاہرہ

پیر 29 اپریل 2024 03:25

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 اپریل2024ء) حکومت پنجاب کسانوں کا معاشی قتل عام کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی پنجاب حکومت کی کسان دشمن پالیسی کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ اس سلسلہ میں 30اپریل کو جماعت اسلامی کسانوں کے ساتھ مل کر پنجاب بھر کی شاہراوں پرشدید احتجاج کرے گی۔حکومت نے امدادی قیمت 3900 روپے مقرر کی جبکہ اس نرخ پر بھی گندم خریدی نہیں جا رہی۔

ان خیالات کا اظہار قائمقام امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی نصر اللہ گورائیہ کی امیر حلقہ لاہور ضیاء الدین انصاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع بشارت صدیقی،جبران بٹ،اشتیاق چیمہ،احمد جمال،عرفان حیدر،محمد فاروق چوہان، فرحان شوکت ہنجرا، عمران الحق و دیگر بھی موجود تھے۔ نصر اللہ گورائیہ نے کہا کہ پنجاب میں گندم کی سرکاری خریداری کم ہونے کی وجہ سے اناج منڈیوں میں فی من قیمت 3 ہزار روپے من تک ہوگئی۔

(جاری ہے)

گندم کی خریداری شروع نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کی گندم کھلے آسمان تلے پڑی ہے جبکہ دوسری جانب پی ڈی ایم اے کی جانب سے پنجاب میں طوفانی بارشوں کا الرٹ جاری کیاگیا جس کے باعث کسانوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔کاشتکاروں سمیت پوری قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں دنیا بھر کے 28 کروڑ 20 لاکھ افراد جب کہ پاکستان کے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زا ئد افراد کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بد قسمتی سے حکومت پاکستان کو اس حوالے سے کوئی فکر لاحق نہیں۔گندم کی امدادی قیمت 2023میں 3900روپے فی من تھی جبکہ امسال بھی حکومت نے اسی قیمت کو برقرار رکھا ہے۔ ڈی ائے پی کھاد فی بوری 8500روپے سے 14500تک پہنچ چکی ہے۔یوریا کھاد 1800سے 4600، نائٹروفاس کھاد 3500سے 9000ہزار ہو گئی ہے۔بجلی کی قیمت فی یونٹ 12تا19روپے سے 57تا120روپے تک پہنچ چکی ہے ڈیزل 190سے 290ہو چکا ہے۔

قیمتوں کے ساتھ ساتھ مزدوری اور زرعی مداخل میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے 2023میں گندم خریداری کا ہدف 45لاکھ ٹن مقرر کیا تھا جبکہ امسال خریداری کا ہدف 20لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ لاہور سمیت پورے صوبے میں کاشتکار حکومتی بے حسی اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ حکومت کی طرف سے گندم کی خریداری نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ریٹ سے بھی کم قیمت پر گندم فروخت ہونا تشویشناک ہے، حکومت کی جانب سے عام کسان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

پاکستان کا کسان مایوس بھی ہے اور مقروض بھی ہے۔پنجاب میں کھاد مافیا بے لگام ہو چکا ہے۔کھادوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکار پریشان ہیں کھادوں، زرعی ادویات اور مداخل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے شعبہ زراعت کاکردار ہمیشہ سے ہی سرفہرست رہاہے۔حکومت پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری کے بیان کہ حکومت کسانوں سے گندم سرکاری نرخوں پر خرید رہی ہے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے بھر میں گندم 2500سے 3000ہزار میں خریدی جا رہی ہے۔حکومتی دعوے چور مچائے شور کے مترادف ہیں۔گندم کا سرکاری ریٹ کم از کم پانچ ہزار مقر ر کیا جانا چاہئے۔پنجاب حکومت کے اقدامات نے شعبہ زراعت کا دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ حکومت نے کسانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔حکومت کسانوں کو درپیش مسائل کے ازالہ کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔

ملک کی آبادی کا بڑا حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور زراعت ان کے روزگار کا اہم جزو ہے۔ نصر اللہ گورائیہ نے کہا کہ اس وقت شعبہ زراعت کوجو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں موسمیاتی تبدیلی، انرجی بحران، جدید سائنسی بنیاد پر کاشتکاری کا نہ ہونا شامل ہیں۔کسان دشمن پالیسیاں ختم ہونی چاہئے۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ کاشتکاروں کی آوازکوہرپلیٹ فارم پر بلند کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں مقدمات بھی لڑے ہیں۔

ہم آئندہ بھی اپنے کاشتکاربھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ پریس کانفرنس کے بعد قائمقام امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی نصر اللہ گورائیہ نے کسان رہنماوں اشتیاق چیمہ،احمد جمال،عرفان حیدر کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسان دشمن پالیسی نے حکومتی چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔حکومت نے کاشتکاروں سے فوری طور پر گندم خریدنے کا علان نہ کیا تو 30اپریل کو لاہور سمیت پورے صوبے میں شدید احتجاج کریں گے۔

پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر بدقسمتی سے سب سے زیادہ نظرانداز بھی اسی شعبہ سے وابستہ افرادکو کیاجاتا ہے۔شوگرمل مالکان اور مڈل مین سمیت ہرکوئی کسانوں کو ٹ رہا ہے۔ جب تک حکومت کی جانب سے کسانوں کو درپیش مشکلات کاازالہ نہیں کیا جائے گا پاکستان کی معیشت میں بہتری لانا ممکن نہیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں