ماہ میں حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ،پی ایس ڈی پی کے اجراء میں حکومتی سرد مہری باعث افسوس

ہے،اپوزیشن لیڈرملک سکندرخان ایڈووکیٹ رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی سابق دور حکومت میں بنی تھی ہمارے دور حکومت میں یہ پی ایس ڈی پی نہیںبنی ،صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی

منگل 26 مارچ 2019 00:13

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مارچ2019ء) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو55منٹ کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں کرائسٹ چرچ دہشت گردانہ واقعے میں شہید ہونے والوں ، سنجاوی میں نامعلوم افراد کی جانب سے شہید کئے گئے لیویز اہلکاروں اور کراچی میں عالم دین پر ہونے والے حملے سمیت دیگر واقعات میں شہید ہونے والوں کے درجات کی بلندی کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی ۔

اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے استدعا کی کہ پی ایس ڈی پی کے لئے بھی ایوان میں دعائے مغفرت کی جائے ، جس پر سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ صوبے کے کچھ اضلاع میں کہیں نہ کہیں زندہ ہے ۔ پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے بلوچستان حکومت پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ مہینوں کے دوران صوبے کے سیاہ و سفید کی مالک حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے پی ایس ڈی پی کے اجراء میں حکومتی سرد مہری باعث افسوس ہے ، حکومت نے اپوزیشن اراکین کو صحت ، تعلیم ، انفراسٹرکچر سمیت صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا لہٰذا قول و فعل میں تضاد کے باعث حکومت صوبے میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کا آئینی جواز کھو چکی ہے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی میں پی ایس ڈی پی ، این ایف سی ایوارڈ ، پینے کے صاف پانی ، خشک سالی سے متاثرہ تمام اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے سے متعلق متعدد قراردادیں ایوان میں پیش کرکے منظور کرائیں جن پر عملدرآمد کے لئے کمیٹیاں بھی قائم ہوئیں لیکن آٹھ ماہ میں کسی بھی کمیٹی کا کوئی اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا نہ ہی حکومت اس ضمن میں ایک قدم آگے بڑھی ہے ، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں واٹر سپلائی ، میگا پراجیکٹ کے لئے مختص شدہ چھ ارب روپے کہاں خرچ ہوئے اس کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کی گئی تھی لیکن تحقیقاتی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی بلوچستان کے دیگر اضلاع تو درکنار کوئٹہ کے لوگ بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔

(جاری ہے)

انہو ںنے کہا کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں قرار داد بھی پاس ہوئی ہے جس پر عملدرآمد کے لئے حکومت اور اپوزیشن اراکین میں مذاکرات کے دو دور بھی ہوئے لیکن کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن اراکین سے مذاکرات کے لئے سردار صالح بھوتانی کی قیادت میں اسداللہ بلوچ ، ظہور بلیدی ، عبدالخالق ہزارہ ، زمرک اچکزئی اور نصیب اللہ مری پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی کمیٹی کے اراکین نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ جلد ازجلد پی ایس ڈی پی کے اجراء کو یقینی بنایا جائے گا تاہم تین سے چار مہینے گزرنے کے باوجود حکومت مسلسل لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور اب خدشہ ہے کہ جس طرح سابق حکومتوں نے پی ایس ڈی پی کے فنڈز لیپس کئے موجودہ حکومت بھی اسی روش پر چل رہی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت 33ارب روپے ریلیز کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اپوزیشن اراکین کے حلقوں کے لئے ایک روپیہ بھی ریلیز نہیں ہوا نہ ہی کسی رکن کو اس بابت علم ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقم کہاں اور کس مد میں خرچ ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق سے فنڈز کے حصول کے لئے ہم نے بلوچستان اسمبلی میں قرار داد منظور کرکے حکومت کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی کہ ہم اپوزیشن اراکین وفاق میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر صوبے کا مقدمہ لڑیں گے لیکن حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ تک نہیں کیا المیہ تو یہ ہے کہ میں نے بارہا وزیراعلیٰ سے اپنے حلقے میں شیخ ماندہ گرلز سکول کے لئے فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا جہاں 777بچیاں زیر تعلیم ہیں لیکن اس کے لئے تاحال ایک روپیہ بھی جاری نہیں ہوا 2009ء میں ایک اور سکول کے لئے زمین خریدی گئی تھی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اب تک محکمے نے اس کا قبضہ تک حاصل نہیں کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن کی24اراکین بھی عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور ترقی کے عمل میں جتنا حق میر جام کمال کے حلقے کے لوگوں کا ہے اتنا ہی حق اپوزیشن حلقوں کے عوام کا بھی ہے ۔انہوں نے کہا اپوزیشن نے 8ماہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے حکومت کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی پاسداری کی لیکن حکومت نے اس سے انحراف کیا او رہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے حقوق کے دفاع اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے اپوزیشن نے بھرپور تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو حکومت کے امتیازی رویئے سے آگاہ کیا جائے ۔

اس موقع پر نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ اپوزیشن اراکین کے فنڈ ز کو روک کربلوچستان کے آدھے حصے میں ترقی کے عمل کو روک دیا گیا ہے اپوزیشن اراکین اور ان کے حلقہ انتخاب میں موجود لوگ صوبے میں ترقی عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں حکومت اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے حلقوں کو یکساں فنڈز کا اجراء یقینی بنائے بصورت دیگر اپوزیشن اراکین آج پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں کل ہم سپیکر ڈائس کے آگے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے ۔

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے بھی پی ایس ڈی پی سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابق دور حکومت میں بلوچستان کے 154ارب روپے لیپس ہوئے اور موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے تین مہینے قبل اپوزیشن اراکین نے ایوان میں قرار داد پیش کی تھی کہ پی ایس ڈی پی پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے جس پر اس وقت حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے بعدازاں سردار صالح بھوتانی کی قیادت میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے اپوزیشن اراکین سے مذاکرات کرکے تحفظات کے ازالے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن تاحال ہمیں کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی جارہیں انہوںنے کہا کہ وفاق کی ناانصافیاں اپنی جگہ جب وفاق سے کچھ آتا ہے تو ہماری حکومت کی نااہلی آڑے آجاتی ہے ہمیںپی ایس ڈی پی میں حصہ زکواة اور خیرات کی بنیاد پرنہیں بلکہ اپنے حق کی بنیاد پر چاہئے انہوںنے کہا کہ حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالتی احکامات ہیں کہ پی ایس ڈی پی میں صحت تعلیم اور پی ایچ ای کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے حکومت بتائے کہ ان شعبوں کے لئے کتنے فنڈز جاری ہوئے ہیں انہوںنے کہا کہ ہم عدالت میں نہیں جائیں گے بلکہ جس عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے ہم ان کی عدالت میں جائیں گے اور انہیں باور کرائیںگے کہ ہم ان کے حقوق سے غداری نہیں کریں گے انہوںنے کہا کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہرسڑکوں پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائیںگے۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں گندم کی نو لاکھ بوریاں ضائع ہوگئی ہیں اگر حکومت کی رفتار یہی رہی تو نہ صرف بلوچستا ن کی غربت کی شرح بڑھے گی بلکہ بے روزگار ی ، غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا انہوں نے کہا کہ حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرکے توہین عدالت کی مرتکب ہورہی ہے عدالت نے واضح احکامات جاری کئے ہیں کہ پی ایس ڈی پی میں شامل450کے قریب منصوبوں کو نکال دیا جائے جبکہ حکومت نے آن گوئنگ کی مد میں ان کے لئے رقم مختص کی ہے انہوں نے کہا کہ سپیکر پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کی رولنگ دیں ہم عدالت سے رجوع کریں گے انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کے لئے کابینہ کے بارہ گھنٹوں کے اجلاس کی ضرورت نہیں حکومت مفلوک الحال عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ محسوس کرے کہ انہیں کیا چاہئے تو فیصلے منٹوں میں ہوں گے۔

انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے حقوق پر کسی کو بھی سودے بازی نہیں کرنے دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ صوبے کے ترقیاتی فنڈز کو ہڑپ کر جاتے ہیں ہم یہ دھبہ خود پر نہیں لگنے دیں گے۔صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی نے کہا کہ سپیکر نے مجھے سینئر وزیر کہہ کر مخاطب کیا ہے لہٰذا واضح کرتا ہوں کہ میرے نام پر سینئر وزارت ابھی تک الاٹ نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ پانچ نومبر کو بلوچستان کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے میری سربراہی میں حکومتی اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ہم نے اپوزیشن اراکین سے ملاقات کی جس میں انہوں نے شکوہ کیا کہ ہم عوام سے ووٹ لے کر آئے ہیں پی ایس ڈی پی میں ہمارے حلقوں کے لئے خاطرخواہ رقم نہیں رکھی گئی اس ضمن میں ہمارے تحفظات ہیں انہوںنے کہا کہ ہم نے وزیراعلیٰ کو اپوزیشن اراکین کے تحفظات سے آگاہ کیا اور وزیراعلیٰ نے کہا کہ 17سی18فیصد آن گوئنگ منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے رقم مختص کی گئی ہے آئندہ پی ایس ڈی پی میں ہر رکن اسمبلی کے حلقے کے لئے دس کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے جائیں گے انہوں نے کہا کہ موجودہ پی ایس ڈی پی میں رقم کس مد میں جاری ہوئی مجھے کوئی علم نہیں جس پر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ سردار صالح بھوتانی حکومتی کمیٹی کے سربراہ تھے جب انہیں اور نہ ہی سپیکر کو اس ضمن میںکوئی علم ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کے ساتھ دھوکہ کررہی ہے نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ سپیکر کی سربراہی میں پی ایس ڈی پی سے متعلق کمیٹی تشکیل دی جائے اور حکومتی و اپوزیشن اراکین کو اس کمیٹی کا حصہ بنایا جائے ۔

انہوںنے کہا کہ پی اینڈ ڈی کا محکمہ جس کے پاس ہے وہ آکر ہمارے سوالوں کے جواب دیں ۔صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی سابق دور حکومت میں بنی تھی ہمارے دور حکومت میں یہ پی ایس ڈی پی نہیں بنی اس پی ایس ڈی پی میں ایسے بھی منصوبے شامل تھے جن کے لئے گزشتہ پندرہ سالوں سے رقم مختص ہوتی چلی آرہی ہے اس کی ذمہ داری سابق حکومتوں پر ہے پی ایس ڈی پی سے متعلق عدالت کا فیصلہ واضح ہے کسی کی خواہش پر پی ایس ڈی پی میں منصوبے شامل نہیں کئے جائیں گے انہوں نے کہا کہ متعلقہ محکمہ عدالتی احکامات کی روشنی میں طے شدہ طریقہ کار کے تحت پی ایس ڈی پی کو ترتیب دے رہا ہے انہوںنے کہا کہ اکثر فنڈز آن گوئنگ سکیمات کی تکمیل کے لئے مختص کئے گئے ہیں اپوزیشن اراکین آج احتجاج کررہے ہیںلیکن یہ نہیں بتارہے کہ آن گوئنگ سکیمات کس کی ہیں ان میں میرے حلقے کی ایک بھی سکیم شامل نہیں ۔

انہوںنے کہا کہ وزارت ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی جہاں بلوچستان کے حقوق کے دفاع کی بات آئے گی تو ہم اپنی وزارتیں چھوڑ دیں گے ، این ایف سی ایوارڈ اور مغربی روٹ کی تعمیر سے متعلق بلوچستان حکومت کا موقف واضح ہے ہم ایوان کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ جتنے فنڈز وزیراعلیٰ کے حلقے کے لئے مختص ہوں گے اتنے ہی فنڈز اپوزیشن کے حلقوں میں بھی خرچ ہوں گے تاہم یہ کسی قانون میں نہیں کہ اراکین کی مرضی کے تحت ہی منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کئے جائیں ۔

اس موقع پر سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے رولنگ دیتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات) کو خط لکھیں کہ رواں مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں جتنے منصوبوں کے لئے فنڈز جاری ہوئے ہیں ان کی تفصیل آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے ۔ بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ ہم نے کسی سے اپنے لئے فنڈز نہیں مانگے بلکہ عوامی مسائل کے حل اور انہیں سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں سابق دور حکومت میں کوئٹہ میں دو سو سے زائد ٹیوب ویلز کے لئے بورنگ کی گئی مگر مزید مشینری نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں میرے توجہ دلانے پر صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر پی ایچ ای نے جلد فنڈز فراہم کرکے ٹیوب ویلز کو فعال کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر آج تک ایسا نہ ہوسکا اسی طرح شیلٹرلیس سکولوں کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے انہوں نے کہا کہ ہم حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے یکساں طریقہ کار چاہتے ہیں سابق صوبائی وزیر سید احسان شاہ نے کہا کہ ماضی میں پی ایف سی کے تحت مختلف حلقوں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر ترقیاتی منصوبوں کا تعین کیا جاتا تھا جس میں پورے صوبے میں انصاف کی بنیاد پر منصوبے بنتے تھے یہ بہتر طریقہ تھا اسے اختیار کیا جائے ۔

مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے ایک سکول کی نشاندہی کے جواب میں کہا کہ آج جو اپوزیشن میں لوگ موجود ہیں کل وزارت تعلیم ان کے پاس تھی وہ پانچ سال تک مذکورہ سکول کے مسائل حل نہ کرسکے اور ہم سے چھ مہینے میں سب کچھ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ہم عوام کو کام کرکے دکھائیں گے اس موقع پر اپوزیشن رکن اصغرخان ترین اور محمدخان لہڑی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا دونوں ارکان مسلسل بولتے رہے صوبائی وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے محکمہ صحت کے حوالے سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے آتے ساتھ پانچ سو ڈاکٹرز ، سٹاف نرسز سمیت دیگر سٹاف صوبے کے تمام اضلاع میں ضرورت کے مطابق تعینات کیا اور اس حوالے سے کسی علاقے سے کوئی ناانصافی نہیں کی گئی ماضی میں اندرون صوبہ جہاں آپریشن نہیںہوتے تھے آج وہاں بھی آپریشن کا سلسلہ جاری ہے اپوزیشن کے ارکان یہاں بیٹھ کر ہم پر تنقید کررہے ہیں وہ بتائیں کہ کیا ان کی شکایات پر محکمہ صحت نے ان کے حلقوں میں ڈاکٹروں و ادویات کی کمی کے مسائل حل نہیں کئے ۔

جس پر جمعیت کے میر زابد ریکی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میں بارہا صحت اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں کے مسائل کے حل کے لئے وزراء کے پاس گیا مگر آج تک میرا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا گیا انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس محکمہ صحت اور تعلیم میں کرپشن کے ثبوت موجود ہیں جو میں پیش بھی کرسکتا ہوں جمعیت العلماء اسلام کے میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ میں گزشتہ کئی ماہ سے خضدار سول ہسپتال کو ایمبولینس کی فراہمی کے لئے اپیلیں کرتا آرہا ہوں مگر کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی گزشتہ روز خضدار سول ہسپتال کے باہر بنائی جانے والی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں ایک میت اور ایک مریض کو رکشے میں لایا جارہا ہے اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال کیا ہوسکتی ہے صوبائی وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ مسئلے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ دار افسر کو معطل کردیا گیا ہے نئے ایمبولینسز کے ٹینڈرکردیئے گئے ہیں آتے ہی تمام علاقوں کوضرورت کے مطابق ایمبولینس فراہم کردیئے جائیں گے اندرون صوبہ ٹراما سینٹرز بھی بنائے جارہے ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ اندرون صوبہ تو دور کی بات کوئٹہ شہر میں موجود شیخ زید ہسپتال کی جانب توجہ نہیں دی جارہی افسوسناک امر تو یہ ہے کہ وہاں پر رات کو ایمرجنسی کی سہولت ہی نہیں ۔

وزیراعلیٰ اور وزیر صحت کو بارہا ہسپتال کے دورے کی دعوت دے چکا ہوں مگر کوئی دورہ کرنے کے لئے تیار نہیں ۔سپیکر نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں رپورٹ آنے پر بات ہوگی تاہم ملک نصیر شاہوانی مسلسل بولتے رہے جس پر سپیکر نے ان کا مائیک بند کرادیا اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے سپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر سخت احتجاج کیا جس کان پڑی آواز سنائی نہ دی اس موقع پر سپیکر نے اجلاس میں آدھے گھنٹے کے وقفے کا اعلان کیا قبل ازیںاپوزیشن اراکین نے اجلاس کا علامتی واک آئوٹ کیا جس کے دوران اپوزیشن اراکین ایوان کے ایک دروازے سے نکلے اور دوسرے دروازے سے واپس ایوان میں آئے ۔

وقفے کے بعد اجلاس شروع ہوا تو سپیکر کی ہدایت پر ایوان کی مشاورت سے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے سنجاوی میں لیویز اہلکاروں پر حملے سے متعلق تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ 20مارچ کو سنجاوی میں نامعلوم افراد کے حملے میں چھ لیویز اہلکار جاں بحق ہوگئے صوبے کے دیگر علاقوں میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم زیارت جیسے پرامن علاقے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے انہوںنے کہا کہ یہ ایک اہم نوعیت کا عوامی مسئلہ ہے اس لئے ایوان کی کارروائی روک کر اس اہم مسئلے کو زیر بحث لایا جائے جس وقت اصغرخان اچکزئی تحریک التواء پیش کررہے تھے اس وقت بھی اپوزیشن اراکین پی ایس ڈی پی کے حوالے سے شدید نعرے بازی کرتے رہے جبکہ جس وقت تحریک التواء پر رائے شماری کرائی جارہی تھی اس وقت بھی اپوزیشن اراکین کارروائی کو آگے بڑھانے سے روکنے کے لئے احتجاج کرتے رہے ۔

بعدازاں سپیکر نے اسی مسئلے پر پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے کی تحریک التواء نمبر دوکو اصغرخان اچکزئی کی تحریک التواء نمبر ایک کے ساتھ کلب کرتے ہوئے رولنگ دی کہ 28مارچ کے اجلاس میں اس حوالے سے ایوان میں عام بحث کرائی جائے گی ۔ بعدازاں بی اے پی کی رکن و پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے مذمتی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 15مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے دوران مساجد میں سفاک دہشت گردوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پچاس سے زائد معصوم بے گناہ مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوئے سفاک قاتل باقاعدہ اس ہولناک خونی کھیل کی ویڈیو بنارہا اس قسم کی بربریت سے دنیا کے تمام مسلمانوں کو دہشت گردی کے اس واقعے پر دلی دکھ اور افسوس ہوا جس پر بلوچستان اسمبلی کا یہ ایوان نہ صرف پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے بلکہ اس افسوسناک حملے کے نتیجے میں شہادت پانے والے مسلمانوں کو خراج عقیدت اور لواحقین سے تعزیت یکجہتی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا بھی کرتا ہے ۔

نیز یہ ایوان وزیراعظم نیوزی لینڈ کو مسلمانوں سے بے پناہ محبت ان کے غم میں شریک ہونے اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ اس واقعے میںملوث گرفتار سفاک دہشت گردکو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں ۔ بشریٰ رند نے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم نوعیت کی قرار داد ہے جو دہشت گردی کے اس افسوسناک واقعے سے متعلق ہے جس میں بے گناہ مسلمان شہید ہوئے گرفتار دہشت گردکو سزا دی جائے ساتھ ہی ہم نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا لہٰذا اس قرار داد کو منظؤر کیا جائے جس کے بعد سپیکر نے ایوان کی رائے معلوم کی اور رائے شماری کے بعد قرار داد منظور ہونے کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت صوبائی اسمبلی اور صوبے کی روایات کو برقرار رکھناچاہتی ہے اور ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں ہم عبدالرحیم زیارتوال کا رویہ اختیار نہیں کریں گے انہوںنے کہا کہ ہم صوبے کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں خود میں نے وزیراعلیٰ پر واضح کردیا تھا کہ اگر عمر کی بالائی حد 43سال مقرر کرنے سے متعلق حکمنامہ جاری نہیں ہوتا تو میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کو ترجیح دوں گا ۔

انہوں نے کہا کہ ثناء بلوچ کی اس بات کی تائید کرتاہوں کہ ایک سابق وزیراعظم نے الزام عائد کیا تھا کہ بلوچستا ن کے لوگوں کے فنڈز منتخب نمائندے ہڑپ کرجاتے ہیں انہوںنے اپوزیشن اراکین کو تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی ۔ سید احسان شاہ نے نیوزی لینڈ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہم نیوزی لینڈ کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہیں ۔

اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات مابت کاکا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی اہلکاروں نے پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات کو روک کرگاڑی کی تلاشی کے بہانے آدھے گھنٹے تک بارش میں انہیں ان کے اہلخانہ کے ہمراہ روڈ پر کھڑا کیا انہوںنے کہا کہ کچھ لوگوں کو اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی خواہش ہے سپیکر پیش آنے والے ہتک آمیز رویے اور گاڑی کی تصاویر بنانے کے واقعے کا نوٹس لے کر واقعے کی تحقیقات کرائیں ۔

انہوں نے کہا کہ آج سنجاوی واقعے پر بات ہونی چاہئے تھی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں پیسوں کی فکرپڑی ہے بہائے گئے خون کی نہیں ۔ پی ایس ڈی پی پر اپوزیشن کے خدشات و تحفظات کاا حترام کرتے ہیں ۔ اس موقع پر نواب اسلم رئیسانی نے بھی اے این پی کے سیکرٹری اطلاعات کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کو روڈ پر کھڑا کرنا غیر انسانی اور غیر مہذب طریقہ کار ہے لہٰذا یہ ایوان پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتا ہے ۔

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ اسمبلی اجلاس کے شروع ہوتے ہی میں نے پوائنٹ آف آرڈر پر لیویز اہلکاروں کے لئے فاتحہ خوانی کی استدعا کی اور آج کی کارروائی میں میری تحریک التواء بھی شامل تھی لہٰذا اس پرپوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے ۔ثناء بلوچ نے نیوزی لینڈ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے حکمرانوں کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں ایک آسٹریلیا کے ایک شہری نے آکر لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا اور نیوزی لینڈکی حکومت نے مادر پدر محبت کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کااظہار کیا ہمارے ہاں سات سو لاشیں گری ہیں کئی لوگ لاپتہ ہیں لیکن کسی نے ان متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کی زحمت نہیں کی قتل و غارت گری پر ہمارے ہاں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کی جاتی ہے جبکہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے بندوق کے قوانین تبدیل کئے واقعے کی مذمت سے بڑھ کر ہمارے حکمرانوں کو نیوزی لینڈ کے حکمرانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے سنجاوی میں شہید ہونے والے لیویز اہلکاروں کو خراج عقیدت اور نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی شہادت پر گہرے رنج و غم کااظہار کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو بھرپور کردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہا کہ انہیں مابت کاکاکے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا علم نہیں تھا اصغرخان اچکزئی سے مزید معلومات حاصل کرکے مسئلے کو دیکھیں گے۔

سپیکر نے کہا کہ ہماری سیکورٹی فورسز کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اگر کہیں کسی کے ساتھ کوئی انفرادی واقعہ پیش آیا ہے تو اسے ضرور دیکھا جائے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر نے بھی مابت کاکا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کرائی جائیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ سنجاوی واقعے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔

ا جلاس میں صوبائی مشیر ملک نعیم بازئی نے اصغرخان اچکزئی ، زمرک خان اچکزئی اور شاہینہ مہترزئی کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضلع زیارت جو کہ ایک سیاحتی مقام ہے غڑکئی کراس تازیارت اور براستہ سنجاوی تا لورالائی جیسے اہم شاہراہ کو تاحال نیشنل ہائی وے کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مذکورہ روڈ پر مرمت کاکام نہ ہونے کے برابر ہے ۔

لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ اس اہم نوعیت کے حامل شاہراہ کو نیشنل ہائی وے کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ مذکورہ روڈ پر تعمیر و مرمت کاکام بروقت مکمل کیا جاسکے ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان نے کہا کہ یہ ڈیڑھ سو کلو میٹر سڑک ہے موسم گرما میں پورے ملک سے سیاحت کے لئے لوگ زیارت آتے ہیں مگر سڑک کی حالت خستہ ہونے کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا این ایچ اے اس سڑک کی تعمیرو مرمت کرکے اسے نیشنل ہائی وے سے منسلک کرے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ یہ کوہلو ، بارکھان ، دکی ، لورالائی اور ہرنائی کو کوئٹہ سے ملانے والی مختصر ترین شاہراہ ہے اس سڑک کو این ایچ اے کے ذریعے تعمیر کیا جائے یا پھر سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے اس کے تحت اسے تعمیر کیا جائے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔

جے یوآئی کے اقلیتی رکن شام لعل نے گھوٹکی میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے اغواء اور زبردستی تبدیلی مذہب کی جانب توجہ مبذول کرائی جس پر سپیکر نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ جے یوآئی کے یونس عزیز زہری نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اسلام میں زبردستی مذہب کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اقلیتی رکن دنیش کمار نے کہا کہ کافی عرصے سے سندھ میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں وہاں لڑکیوں کو اغواء کرکے ان کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے گھوٹکی واقعے میں اغواء ہونے والی بچیوں کی عمریں بارہ سے تیرہ سال ہیں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے واقعے کا نوٹس لینا خوش آئند ہے اقلیت پاکستانی پرچم کا سفید رنگ ہے ہم اس پرچم کو بے رنگ نہیں ہونے دیں گے بعدازاں اجلاس 28مارچ تک ملتوی کردیا گیا ۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں