Episode 23 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 23 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

نومبر سے بچیں گے تو
ہم نے اکثر دیکھا کہ جب کوئی بہت بڑی بات اللہ کی ذات سے منوانی ہو یا کسی پر کوئی آزمائش ِعظیم آجائے اور وہ آس و یاس کی کیفیت میں ہو تو معصوم بچوں کے ننھے ننھے ہاتھوں کو پکڑ کر ان کا کشکول بنا کر اس بچے سے کہا جاتا ہے کہ بیٹا اللہ سے دعا کرو کہ یہ آزمائش اور پریشانی ختم ہو جائے۔وہ ننھی سی جان جب اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اللہ کی ذات سے ہماری سفارش کرتی ہے تو ہم لاکھ گناہ گار سہی اللہ کی ذات کو ہم پر رحم آ جاتا ہے۔
حالانکہ وہی بچہ ہم سے اکثر عجیب و غریب اور معصومانہ انداز میں اللہ کے بارے میں ڈھیر سارے سوالات کر بیٹھتا ہے۔ جن کا جواب اکثر ہم نہیں دے پاتے۔ مثال کے طور پر وہ پوچھتا ہے۔کہ اللہ میاں کہاں ہوتے ہیں؟ادھر کیوں نہیں آتے؟وہ کیا کھاتے ہیں؟وغیرہ وغیرہ۔

(جاری ہے)

اگر کوئی بڑا اس طرح کے سوالات کرے تو وہ گناہ گار ٹھرتا ہے۔لیکن بچے تو عقل و شعور سے نا واقف ہوتے ہیں۔

لہذا اللہ کی ذات بھی ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے یقینامحظوظ ہوتی ہو گی ۔ کیوں کہ اللہ تو دلوں کے حال جانتا ہے۔سخت سے سخت دل کو موم کی طرح پگھلا دینے والی ہستی کا نام بچہ ہے۔مذہب کی قید سے ماورا اور اصول و ضوابط اور سم و رواج کی محتاجی سے بے نیاز یہ بچے ہر کسی کو اچھے لگتے ہیں۔یہ طفل ناتواں خاموش رہ کر بھی ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ 
انسان سے انسان کو کینہ نہیں اچھا
جس سینے میں ہو کینہ وہ سینہ نہیں اچھا
یہ تو اشرف ا لمخلوقات یعنی انسان کے بچوں کی بات ہو رہی ہے۔
ایک ایسا آدمی جس کا کوئی مذہب نہ ہو۔وہ بھی انسان توانسان حیوان اور حتا کہ درندے کے بچوں کو بھی ان کی معصومیت کی بنا پر پیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر گلی میں چلتے چلتے ہماری نظر ایک بلی یا کتے کے بچے پر پڑ جائے اور وہ سخت سردی میں ٹھٹھر رہا ہو تو کم از کم میں پوری کوشش کروں گاکہ اس کو کسی محفوظ مقام پر پہنچادوں۔صرف اس لیے کہ وہ بچہ ہے۔
یہ بھی معلوم ہے کہ وہ بڑا ہو کر انسان کا دشمن بنے گا۔ لیکن چونکہ انسان کے سینے میں اللہ کی ذات نے دل بنایا ہے اور اس دل میں رحم جیسا مادہ پیدا کر کے انسان کو اشرف المخلوقات بنا دیا ہے۔ انسان اور حیوان میں صرف یہ فرق نہیں کہ انسان کی دو ٹانگیں ہیں اور حیوان کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں ۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس مخلوق کی کم ٹانگیں ہوتی ہوں گی وہ دوسروں سے افضل ہو گی۔
نہیں یہ بات ہر گز نہیں ہے اگر اس بات کو معیاد بنایا جائے تو سانپ کی ایک بھی ٹانگ نہیں ہوتی اور وہ دوستی جیسے لطیف جذبات سے بے نیاز ہو کر احسان کرنے والوں کو بھی اپنے زہریلے ڈنگ سے ڈس کر مار دیتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان اور حیوان میں بڑا فرق احساس کا ہے۔ ورنہ ہر دو ٹانگوں والی مخلوق ہمیں رحم دل نظر آتی بلکہ یقینا وہ رحم دل ہوتی۔
لیکن ایسا نہیں ہے۔دنیا کا کوئی بھی انسان جس کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ معصوم بچے پر اس کی غلطی کے باوجود ظلم نہیں کر سکتا۔ چلتے چلتے کسی بھی مخلوق کو کاٹ لینا اور اس کی جان لے کر سکون محسوس کرناایک بالغ درندے کا وصف ہو سکتا ہے۔کیونکہ ایک چھوٹا سا کسی درندے کا بچہ بھی بچپن میں انتہا پسند ہر گز نہیں ہوتا۔بڑھوتری کے ساتھ ساتھ اس کی مخفی خصوصیات ترقی کرتی ہیں مثال کے طور پر شیر کا بچہ بڑا ہو کر دوستی کی صفت سے محروم ہو جاتا ہے۔
اپنا مطلب پورا کرنے کے لیے اپنے مالک سے بچپن میں دوستی نبھاتا ہے اور جیسے ہی وہ شکار کرنے کی پوزیشن میں ہو جاتا ہے تو سب سے پہلا شکار اپنے مالک کا کرتا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ سپیرے کے ساتھ بھی ہوتاہوا دیکھاگیا ہے لہذا جیسے ہی سانپ یا شیر جوانی کی عمر کے قریب جاتے ہیں تو ان کو سدھارنے والے مالکان ان کے لیے ان کی طاقت اور جاہ جلال کے مطابق پنجرے یا قید خانے کا بندوبست کر لیتے ہیں۔
تاریخ عالم کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہلاکو خان جیسے ظالم انسان نے بھی اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا جس جرم کا ارتکاب آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم نونہالوں کے ساتھ ہوا۔ ایک دفعہ کسی نے ہلاکو خان سے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی کسی پر رحم بھی آیا ہے تو ہلاکو خان نے جواب دیا کہ جی آیا ہے۔ ایک دفعہ میں اپنے گھوڑے پر سوار سیر کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں مجھے ایک عورت ملی جس کے ہاتھوں میں اسکا بچہ تھا۔
مجھے دیکھتے ہی اس عورت پر میرا رعب و دبدبہ طاری ہو گیا اور خوف کے مارے اس کے ہاتھوں سے اس کا بچہ زمین پر گر گیا۔ مجھے بہت رحم آیااور میں نے اپنے تیز دھار نیزے کی نوک سے اس کا بچہ زمین سے اٹھا کر واپس اس کے ہاتھوں میں دے دیا۔کچھ ایسا ہی معاملہ سانحہ پشاور کی تاریخ ہمیں یاد کروا رہی ہے ۔ خدا کا خوف بھی نہیں آیا ان کو کہ سینکڑوں ماوں کے سینے پر وار کر کے انھیں چھلنی کر دیا۔
یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ بھی کسی ماں کی اولاد ہیں ۔ان کا بھی کوئی باپ ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ ان رشتوں سے محروم لوگ ہیں۔کیونکہ سینے میں دل رکھنے والا کوئی بھی زی روح یہ حرکت نہیں کر سکتا ۔ مسلمان تو مسلمان وہ تو انسان کہلوانے کے بھی حق دار نہیں ہیں۔یہ ملک پاکستان ہمارا گھر ہے اور گھر کے اندر اس گھر کے مکین جب تک ہنسی خوشی گزر بسر نہ کر رہے ہوں تو اس گھر کو قید خانہ کہا جاتا ہے۔
آج اس ملک کی آبادی کا 99فیصد امن کا خواہش مند ہے مگر مٹھی بھر دہشت گرداس ملک کو تباہ و برباد کرنے کے در پے ہیں۔دو دن قبل سانحہ پشاور کے معصوم شہداء کی کچھ تصاویر میں نے دیکھی ان میں سے ایک بچہ مشکل سے ڈھائی سے تین سال برس کا ہو گااس نے سفید شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔وہ یقینا اپنے بڑے بہن بھائی کے ساتھ آیا ہو گا۔اور میں نے دیکھا کہ وہ زمین پر الٹا پڑا ہوا تھا۔
اور اس کے بازو خون سے لہو رنگ ہو چکے تھے ۔ظالموں نے پتہ نہیں کتنی گولیاں اس کی معصوم کمر پر ماری ہوں گی۔معلوم نہیں کتنی دفعہ چیخ چیخ کر اپنے بابا کو آواز دی ہو گی۔نہ جانے کتنی بار اپنی ماں پر غصہ ہو ا ہو گاکہ ماما آپ مجھے بچانے کیوں نہیں آرہی ہیں۔نہ جانے بڑے بھائی کو کہاں کہاں ڈھونڈا ہوگا کہ وہ بھی بہت تیار ہو کر گھر سے آیا تھا اور معمول کی طرح آج بھی اس کی ماں نے ناشتہ ٹھنڈا ہو جانے کی وجہ سے یہ کہہ کر نہیں کیا ہو گا کہ کوئی بات نہیں دن کو جب بچے سکول سے واپس آئیں گے تو ان کے ساتھ کھانا کھا لوں گی۔
وہ معصوم جو ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتا تھا۔اس کے ننھے پاو ٴں بچگانہ جوتوں کے ساتھ نہ جانے کتنے ڈگمگائے ہوں گے۔میں سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں اس ننھی کلی نے کچھ کھایا بھی ہو گا کہ نہیں ۔یہ سب خیالات اور سوچیں کاش اس بے رحم اور بے ضمیر درندے کو بھی آجاتی اور وہ یہ سوچ کر ہتھیار پھینک دیتا کہ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔کاش وہ یہ سوچ کر یہ حملہ ملتوی کر دیتا کہ آج ضمیر نہیں مان رہا یہ خون کی ندیاں پھر کبھی بہا دیں گے۔
کاش اس نے ایمان کی ذرا سی رمک موجود ہوتی تو وہ معصوم بچہ اسے اپنا بچہ لگتا یااس معصوم کا بچپن دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آ جاتا اور وہ یہ کہہ کر ان کو معاف کر دیتا کہ میرے بچپن کے دنوں میں ہر کوئی مجھ سے پیار کرتا تھا۔ہر کوئی مجھے اٹھاکر اپنی باہوں میں لے لیا کرتا تھا۔بنا سوچے بنا سمجھے کہ یہ کس کا بچہ ہے کیونکہ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔
کاش یہ سب خواب ہو اور جب ہماری آنکھیں کھلیں تو یہ معصوم بچے سب والدین کی آغوش میں سو رہے ہوں اور ان کی مائیں جھٹ سے انہیں جگا کر اور خوشی کے مارے پاگل ہو کر انہیں ناشتہ دے کر ایک بار پھر اللہ پر مکمل اعتماد کے ساتھ انہیں مستقبل کا معمار بنانے کے لیے سکول روانہ کر دیں۔کاش یہ سب خواب ہو۔کاش یہ سب وہم ہوکہ اس ملک کو اس کا مستقبل مل جائے ورنہ آنے والا ہر نومبر اور دسمبر وبالِ جان بن جائے گا۔ اس سے قبل ہر نومبر اور دسمبر اپنی الگ الگ داستانیں لے کر آتے رہے لیکن اب کے برس دسمبر کی داستان وہ داستان ہے جو ان مٹ نقوش چھوڑے جا رہی ہے۔
تمہارے بعد گزریں گے بھلا کیسے ہمارے دن
 نومبر سے بچیں گے تو دسمبر مار ڈالے گا

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas