Episode 45 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 45 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

موبائل تعلیمی کانفرنس
کچھ عرصہ قبل راولپنڈی،اسلام آبادکے چندمعروف اورپڑھے لکھے افرادسے ان کے پاس جاکر”تعلیم کیاہے؟“کے موضوع پرگفت وشنیدہوئی۔اس سارے مرحلے کوموبائل تعلیمی کانفرنس کانام دیاگیا۔مزے کی بات یہ کہ اس موبائل کانفرنس میں نوجوانوں کے نظریات کوبھی شامل کیاگیا۔خاص طورپرکم عمرنوجوانوں سے بات کرنے کابھی موقع ملاتویہ جان کرانتہائی خوشی ہوئی کہ آج کی یہ نسل علم کے سمندرمیں غوطہ لگانے کے لئے بے تاب ہے،بس مخلص رہنماوٴں کی حوصلہ افزائی کی منتظرہے۔
اس خطے کی ایک صاف گواورمعروف ماہرتعلیم ہستی ندیم شیرازصاحب سے جب”تعلیم کیاہے؟“کاسوال کیاگیاتوتجاویزاوران کے حل کے حوالے سے سیرحاصل گفتگوکرکے علم کے موتی بکھیردیے۔ندیم شیرازصاحب کاکہناتھاکہ بچوں کونمبروں کے مطابق تقسیم کرنے کی بجائے ان کے رجحانات کودیکھتے ہوئے ان کے مستقبل کافیصلہ ان کی مرضی کے مطابق کرناہوگا۔

(جاری ہے)

جونوجوان ابتدائی تعلیم یعنی میڑک میں کم نمبرلیتے ہیں انہیں مایوس نہیں ہوناچاہیے کیونکہ ان کے لئے بے بہاآپشنزموجودہیں جن کواپناکریہ نوجوان نسل اپنے آنے والاکل خوشگواربناسکتی ہے۔

اس کائنات میں تمام برے لوگ یاکامیاب افرادوہ نہیں جنہوں نے بورڈیایونیورسٹی میں ٹاپ کیابلکہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے ساتھ اللہ کافضل اوردعاوٴں کے ہارہواکرتے ہیں۔اوراس کے بعدیہ افرادسوشل کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اوراپنی شخصیت کوپراعتمادبناتے ہیں۔میں بڑے ذوق سے ان کی باتیں سن رہاتھا۔اس کے بعدندیم بھائی نے ایک خوبصورت بات کرکے اپنی بات کومزیدتقویت دے دی۔
وہ یہ کہ کسی بھی انٹرویومیں کسی انسان کی پراعتمادی،حاضردماغی اورپروقارشخصیت کوسراہاجاتاہے۔یہاں پرایک بات کرتاچلوں کہ ندیم شیرازکے دروازے ان طلاب کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں جنہیں کیرئرکونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔لہٰذایہ کہاجاسکتاہے کہ کیرئرکونسلنگ کے پائیونیرکانام ندیم شیرازہے۔اس حوالے سے اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اس ملک میں ماہرتعلیم کی کمی ہرگزنہیں بلکہ ہمارابنیادی تعلیمی ڈھانچہ کمزورہونے کی وجہ سے اساتیدمکرم اورتعلیمی ماہرین کی مشاورت بے سودہوجاتی ہے۔
تمام ترکاوشوں کے باوجودہم آج تک تعلیم کے میدان میں باقی دنیاسے کوسوں فاصلے پرکھڑے ہیں۔تعلیمی ماحول کوخوشگواربنانے والے اصول وضوابط کالاگونہ ہونااس تباہی کی بڑی وجہ ہے۔
اس کے بعدجب ارسلان شاہ صاحب سے نقطہٴ نظرپوچھاگیاتوکہنے لگے کہ اس سارے عمل میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم استادکوکس معیارپررکھتے ہیں۔یعنی پروفیسر ارسلان نے دریاکوکوزے میں بندکرتے ہوئے کہاکہ استادکی اہمیت ایسے ہے کہ جیسے انسانی زندگی کے لئے سانس کاچلنااس بات کی علامت ہے کہ انسان باحیات ہے۔
اورایسے ہی کوئی معاشرہ باحیات یابے حیات بھی ہوسکتاہے۔
ایک تقریب میں ڈاکٹرزاہدحسن چغتائی کے سنہری حروف سننے کااتفاق ہواتومعلوم ہواکہ علم والاکسے کہتے ہیں۔ڈاکٹرصاحب فرمارہے تھے کہ بچہ دوبرس میں مکمل بولناسیکھ جاتاہے مگرکون سالفظ کہاں بولناہے یاکون سی بات کہاں کرنی ہے،یہ جاننے کے لئے کسی انسان کوبرسوں درکارہوتے ہیں اورکچھ لوگ مرتے دم تک یہ مقصدحاصل نہیں کرپاتے۔
اس دن کالج کے دروازے پرکھڑے قوم کے معماروں پرمیری نظرپڑی توان سے بھی میں نے پوچھاکہ آپ کے خیال میں تعلیم کیاہے توثاقب بھائی کاکہناتھاکہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے۔یعنی علم کے موتی جہاں سے ملیں سمیٹ لینے چاہییں۔اوریہ موتی ہمارے چاروں طرف موجودہیں۔گیارہوں جماعت کے طالب علم ہاشم کاکہناتھاکہ تعلیم کے بغیرکوئی آدمی انسان کہلوانے کاحقدارنہیں ہے۔
لیکن یادرہے کہ علم کامطلب صرف اورصرف ڈگریوں کاحصول نہیں بلکہ علم وہ ہے جوافرادکوانسانیت سکھائے اورپھرانسان بنادے۔جب بات ہوئی آئی۔کام کے شیخ باسط سے تومعلوم ہواکہ قوم کے معمارایک اشارے کے منتظرہیں۔یعنی
ذرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی
باسط کاکہناتھاکہ کیرئرکونسلنگ اس افراتفری کے دورمیں تعلیم کے نظام کوبہتربنانے کاواحدذریعہ ہوسکتی ہے اوراس کے لئے کیرئرکونسلنگ انسٹیٹیوشنزکاوجودمیںآ نابہت ضروری ہے۔
ہرحکومت کواس سلسلے میں سوچ وبچارکرناہوگی ورنہ یہ نوجوان نسل بھٹک سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دوستوں کے تعلیمی نظریات معلوم ہوئے توپتاچلاکہ اس ملک میں ایسے ایسے تعلیمی بورڈذموجودہیں کہ لڑکے کے رولنمبرپرلڑکی کی مارک شیٹ کااجراء تک ہوجاتاہے اورانتظامیہ کوخبرتک نہیں ہوتی۔جب تک ان پڑھ اورمحنتی والدین کابچہ پڑھے لکھے اوردولت مند والدین کی اولادکی طرح ملک کی بھاگ دوڑمیں اپناحصہ نہیں ڈالیں گے تب تک اس قائدکے دیس میں امن اورخوشحالی راج نہیں کرسکتی۔
اس کرسی کرسی کے کھیل میں ہم عوام اورحکمران سب اپنامقصدحیات بھول چکے ہیں۔تعلیمی نظام نقائص سے بھراپڑاہے۔صنعتی شعبہ تباہی کے دہانے پرکھڑاہے۔زراعت کاشعبہ گڑگڑاکرالتجاء کررہاہے کہ خدارابڑے بڑے زمینداروں کوواپس صنعت سے زراعت کی طرف لایاجائے کیونکہ پاکستان کانہری نظام دنیاکابہترین قدرتی نہری نظام جاناجاتاہے جسے خیرآبادکہہ کراس کی بے توقیری کی جارہی ہے۔
خداکی نعمتوں کی بے قدری اس ذات کوبہت ناپسندہے۔اغیارکے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہترہے کہ ہم علم کے میدان میں انقلاب برپاکردیں۔زیادہ سے زیادہ سکولوں اورتعلیمی اداروں کاقیام عمل میں لائیں۔جس سے زیادہ سے زیادہ نوجوان پڑھے لکھے ہوں گے توکشکول خودبخودٹوٹ جائے گا۔تعلیم وہ واحدہتھیارہے جودشمن کے ناپاک عزائم کوخاک میں ملاسکتاہے۔صنعت وحرفت،ٹیکنالوجی،زراعت،بنکاری اوردیگرشعبوں میں ترقی صرف اورصرف اعلٰی تعلیم کے حصول میں پنہاں ہے۔
موجودہ نظام تعلیم کونقل سے پاک کرناہوگا۔جب حقدارکوحق ملے گاتواس ملک میں موجودبادشاہت کاخاتمہ ہوگا۔یہ پاک سرزمین بے شمارشہداء کی قربانیوں کے بعدوجودمیںآ ئی۔ہمیں ان قربانیوں کالحاظ رکھناہوگا۔ان سب مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی پالیسی بنانے والاطبقہ سیاست دان سے زیادہ علم دان ہویعنی پڑھالکھاہو۔ورنہ اناڑی جب کھلاڑی بننے کی کوشش کرتاہے توہارہی اس کامقدرہواکرتی ہے۔لیکن بے شمارمسائل کے باوجودہم اللہ کی رحمت سے ناامیدنہیں ہیں۔اقبال نے کیاخوب کہاہے کہ
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas