Last Episode - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

آخری قسط - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

محصولات کا نفاذ اور ہم
حکومت ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے جہاں بے شمار طریقے اپناتی ہے وہاں ایک سب سے بڑا ذریعہ آمدنی ٹیکس ہے۔ پاکستان میں ٹیکس عائد کرنے والے بڑے ادارے تین ہیں، مرکزی حکومت، صوبائی حکومتیں اور مقامی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ضلعی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس چوروں کی تعداد ان گنت ہے اور مزے کی بات یہ کہ ٹیکس چوروں کی تعداد انگنت ہے اور مزے کی بات یہ کہ ٹیکس چوری کرنے کے طریقوں کی تعداد بھی ان گنت ہے۔
یعنی چوروں کی مقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے چوروں کے ماہرین نے ٹیکس چوری کرنے کے طریقے بھی بے تحاشہ دریافت کر لیے ہیں تاکہ جو چور جسCategorryمیں بھی ہو وہ آسانی کے ساتھ ہتھیار نمبر ڈائل کر کے اپنا مقصد پورا کر لے۔

(جاری ہے)

کھربوں روپے کی چوری کے باوجود اس ملک کی سب سے بڑی آمدنی محصولات یا ٹیکسوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر ملک میں ٹیکس چوروں کو کوئی سپرے وغیرہ کر کے تلف کر دیا جائے تو کیا ہم غربت کے اس منحوس چکر سے باہر نہیں آ جائیں گے؟ حقیقت بھی یہی ہے کہ اقوام عالم کے ہر ملک کی سب سے بڑی آمدنی محصولات کا حصول ہے اور پاکستان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی یہی ہے۔

جس کے بل بوتے پر ہم آج دال روٹی کھا رہے ہیں۔ اگر ٹیکس چوری کو ختم کر دیا جائے تو ہم دال کے ساتھ ساتھ گوشت بھی Afford کر سکتے ہیں۔ کیونکہ خوش خوراک ہونا بھی ضروری ہے۔ یاد رہے کہ یہاں پر دال سے مراد ایک گزارہ اوقات زندگی ہے اور خوش خوراکی سے مراد ایک پرسکون زندگی جو غربت کی زندگی نہیں بلکہ عزت و توقیر کی زندگی ہے۔ عوام کو عزت کی زندگی مہیا کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ٹیکس چوروں کے سرداروں کو تلف کرنا ہو گا جو کروڑوں روپے کے ٹیکس کی سالانہ چوری کرتے ہیں اور اربوں روپے کے قرضے ششماہی معاف کرواتے ہیں جو کہ پانچ سالہ دور حکومت میں کئی مرتبہ یہ فعل سرزد کر سکتے ہیں۔
پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ ”دُدھ دی راکھی بلا“ اس ملک میں جب کسی کو اختیار دے کر ٹیکس وصول کرنے پر مامور کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ ”پہلے خیش پھر درویش“ والا کام کرتا ہے۔ یعنی بندربانٹ کا عمل چارج سنبھالتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے قرضوں کی تقسیم کے حوالے سے اس ملک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے جن لوگوں کو سب سے پہلے قرضہ دیا جاتا ہے۔
وہ قرضہ معاف کرنے والوں کو لسٹ میں بھی سب سے پہلے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی اپنی فیکٹری یا کارخانے کو خالی کروا کر آگ لگا دی جاتی ہے تو کبھی کروڑوں روپے کا مسلسل نقصان ظاہر کر کے یہ بھیک مانگی جاتی ہے تو پھر ہوتا یہ ہے کہ کچھ لوگ واقعی نقصان زدہ ہوتے ہیں جن کا قرضہ معاف کرنا قانونی جواز رکھتا ہے لیکن ان کا قرضہ معاف نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ کسی پارٹی کے جیالے نہیں ہوتے اور جو لوگ چور چکے ہوتے ہیں وہ اپنے اثرو رسوخ کی بنا پر کروڑوں روپے کے قرض معاف کروا ہی لیتے ہیں۔
یہی صورت حال ہمارے ملک میں ٹیکسوں کی ادائیگی میں ہمیں درپیش ہے۔ یہاں تک کہ اگر مقامی حکومت کسی مارکیٹ کا دورہ کر کے محصولات جمع کرنے کی کوشش کرے تو پہلی دو چار دکانوں سے ہی ٹیکس کی وصولی ممکن ہوتی ہے اور باقی سب ٹیکس کے عملے کو دیکھتے ہی دکانات بند کر کے نو دو گیارہ ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اتنی بڑی چور بازاری کے باوجود بھی اگر ہمارے ملک کے حالات بہتر چل رہے ہیں تو اگر ٹیکس کا نفاذ ممکن ہو جائے تو یہ ملک بیرونی دنیا سے امداد لیے بغیر ترقی کی رفتار میں دیگر ممالک کے ساتھ دوڑ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ زیادہ آمدنی والے لوگ اپنا ٹیکس مکمل مقدار میں ادا کریں۔
ضروری اشیاء پر معمولی ٹیکس اور تعیشات پر زیادہ ٹیکس لگا کر قومی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے۔ جب حقیقی قومی آمدنی بڑھے گی تو ہم دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یہاں پر حالات یہ ہیں کہ غیر ملکی ترسیلات میں اضافہ ہونے کے بجائے ہمارے اپنے ہی اس ملک کا پیسہ باہر کے ملکوں میں سیلاب کی طرح بہا لے جا رہے ہیں۔ پراپرٹی ٹیکس، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے مکمل نفاد کی اشد ضرورت ہے۔
ان تینوں ٹیکسوں میں صرف سیلز ٹیکس ہی اگر مکمل مقدار میں کسی ملک کی انتظامیہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ کامیاب ترین حکومت کہلوانے کی حقدار ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں برسرِ اقتدار آتے ہی قومی دولت کو لوٹنے کا عمل ایک خاص ٹائم ٹیبل سے شروع ہو جاتا ہے۔ یہ وہ ٹائم ٹیبل ہوتا ہے جس میں پانچ سالوں میں ہونے والے ترقی کے لیے اقدامات درج ہوتے ہیں جن کے مکمل ہونے کے انتظار میں ہمارا ملک ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
دہشت گردی کی ہلاکتوں سے لے کر آج کے کراچی کی تباہی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ موجودہ حکومت کو ٹیکسوں کے ذریعے تقریباً 4000 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے اور FBR کو جو ہدف دیا گیا ہے وہ تقریباً 2800 ارب روپے ہے۔ اگر یہ 2800 ارب روپے کا ہدف پورا ہو جائے تو بہت بڑی بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ نواز شریف حکومت اپنی مخلص کاوشوں کی وجہ سے عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 15 برسوں میں جس طرح فرعونیت کے حملے اس ملک کے فرعونوں نے اس سرزمین پر کیے ان کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب وہ حالات کی زد میں آئے تو خدا کی ذات نے ان کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ دیا۔ احسان دانش کا ایک شعر میرے ذہن میں آ رہا ہے۔
آ جاؤ گے اک روز جو حالات کی زد میں
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas