Episode 50 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 50 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

نواز شریف ہماراپاکستان ہمیں لوٹا دو
ایک ایسا پاکستان جسکا خواب علامہ اقبال نے دیکھا۔ اور اسکو تعبیر قائداعظم محمد علی جناع نے دی۔لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ پاکستان ہمارے ہاتھو ں سے نکل رہا ہے۔ اور خدا نہ کرے کبھی ایسا ہو۔ دراصل کانچ کا گلاس ہم نے ایک ننھے، شرارتی بچے کے ہاتھ میں دے دیا تھا ۔ یہ بچہ پختگی کے حوالے سے با قی تمام ہم عصر بچوں سے بہت پیچھے رہ گیاتھا۔
کیونکہ ساری زندگی# ٹوڑ پھوڑ کے مشا غل میں خود کو مصروف رکھ کر دلی سکون محسوس کرتا تھا۔ اور اِسی وجہ سے محلے کے بڑوں نے اُسے کمرے میں بند کر دیا۔ چونکہ یہ ایک ذہنی عارضہ ہے۔لہذا س کا علاج صرف اور صرف پاگل خانے کا بند کمرہ ہی تھا۔ دوسرا مسئلہ اس بچہ کے ساتھ ازل سے یہ رہا ہے کہ اسکو جب بھی کسی گروہ کے ساتھ سزا دی گئی ۔

(جاری ہے)

تو اپنے ساتھ اپنے جیسوں کو ملا لیا کرتا تھا۔

جوکہ مزید تباہی و بربادی کا سبب بنتا ۔ لیکن کہا جاتا ہے کے جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔ وہ بار بار زمین پر گرا لیکن گلاس کو اللہ نے بچا لیا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے وطن کے ساتھ پیش آیا۔ اور بے شمار تباہیوں اور بربادیوں کے باوجود یہ ملک نہ ٹوٹ سکا۔ کیونکہ اللہ کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔
لگا کے آگ شہر کو بادشاہ نے کہا
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کے سر کو سبھی شاہ پرست بول اُٹھے
حضور شوق سلامت شہر اور بہت
یہ سرزمین پاک جس کو ہمارے آباء آجدادنے اپنی جانوں کے نذانے دے کر حاصل کیا تھا۔
ماضی میں اس پر ظلم کے پہاڑ گرا دئیے گئے۔ لاکھوں بے گناہ جانوں کاخون ہوا، ہزاروں سہاگنوں کے سہاگ اُجڑے۔ ہزاروں بہنوں کے سروں سے چادریں نوچ لی گئیں۔ الفرض خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔مگر ہمارے حکمرانوں کو اپنی عیش و عشرت سے فرصت نہ ملی۔اپنے اساثے بنانے اور اس ملک کو لوٹنے کی ڈور میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوئی کسر اُٹھا نا رکھی۔
اور اس ملک کو ایسا بنا دیا کہ جیسے کسی مکان کامکین جانے سے پہلے کھڑکیاں، دروازے واپس نہ آنے کی امید پر اتار کر لے جائے۔ کیونکہ خاندانی چور کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کو کچھ نہ کچھ لے کر ہی جانا ہوتا ہے۔ آج اس ملک کے نا تواں کندھوں پر وہی بوجھ پھر آن پڑا۔جو 14اگست 1947کو ہمارے بزرگوں نے برداشت کیے اور ملک پاکستان کو چلنے کے قابل کیا۔
خداکی قسم آج پھر پاکستان بے سروسامان پاکستان ہے۔دشمن گھاٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ اور اس انتظار میں ہیں۔ کہ مال غنیمت کب اور کیسے ان کے ہاتھ لگے۔ لیکن شائد یہ بے کلمہ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ ملک تو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے نام پر بنا ہے۔ بھلا اِس کی تباہی کسی انسان کے ہاتھوں کیسے ممکن ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ
اے مرد مجاہد جا گ زرا
اب وقت شہادت ہے آیا
جب بھی لاپرواہی اور گناہوں کے انبار لگ جائیں تو ایسی قوم کو تکا لیف کا سامنا اور عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے،لیکن اللہ ایمان والوں سے اتنی محبت کرتا ہے کہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ۔
اور مخلوق بھی ایسی جو امتِ رسول ہو۔ لہذا ظلم کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اسکی سحر ضرورہوتی ہی۔لیکن یاد رہے کہ 
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسکو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کو جب بھی جان کے نذرانوں کی ضرورت پڑی تو قوم کے جیالوں نے سینہ تان کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
جب بھی ملک کی بقاء کی بات ہوئی تو لاپرواسربراہوں کی ترجیحات کو قوم نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ اور ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر گوشے اس ملک کی بقاء کے لئے قربان کرڈالے۔ لیکن کیا ہی بات ہے۔ کہ اگر سربراہ مملکت ایک شریف النفس انسان ہو۔ جسکا ماضی بے داغ اور حال کھلی کتاب ہو۔ جو دشمن کی آنکھ میںآ نکھ ڈال کر بات کرسکے۔ جو لالج سے ممبرا ہو۔ ماؤں ، بہنوں ،بیٹیوں اور بزرگوں کی دعائین جسکا مقدر بنیں۔
ایسے سربراہ کی سربراہی میں ملک و قوم کی ترقی میں اپنا دن رات ایک کردینا ملکی مفاد میں ہے۔ موجودہ صورتحال میں نئے سربراہ وطن کو کام تو ہزاروں کرنے ہیں لیکن اس کے لئے خزانہ اس طرح خالی کردیا گیا ہے۔ کہ جیسے پیڑ کو دیمک لگ جائے۔ یا آدم زاد کو غم۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی پھتر میں بھی ایک کیڑے کو رزق دے کر زندہ رکھتا ہے۔ اور ہم تو پھر بھی اشرف المخلوقات ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اب رونے کے لئیے ایک کندھا چاہئے جو کہ دل کو بوجھ ہلکا کرنے کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ اور کیا ہی بات ہے کہ یہ کندھا ایک ایسے فرشتہ صفت انسان کا میسر آجائے جو ماضی میں بھی دکھی دلوں کی ڈھارس بندھاتا تھا۔ مخلوق جس کی آمد کے انتظار میں بے تاب ہو۔ پھر نہ بھوک ستائے نہ پیاس میں دم ہو۔ اس آس پہ سب غم مٹ جائیں کہ تمام مسائل کا حل رب ذوالجلال نے ایک مسیحا کی شکل میں بھیج دیا۔
پاکستان ریلوے، P.I.A، محکمہ تعلیم نقل و حمل صنعتی ورثہ اور آمد و برآمد ، توازن ادائیگی، توازن تجارت سب ہمارے حق میں نہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ہم س دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ جب سورج غروب ہونے سے پہلے تمام مشاغل نپٹا دیے جاتے تھے۔ کہ اسکے بعد گھپ اندھیرہ چھا جائے گا۔ بجلی کا بحران اپنی آخری شکل اختیار کرچکا ہے۔ ساری دنیا میں یہ سہولت تقریبا مفت مہیا کی جاتی ہے۔
اور دن بدن اسکی صلاحیت میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان ممالک کے حکمران بدعنوان نہیں ہیں۔ عوام کا خون نچوڑنے والے گروہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ گزشتہ دور میں جتنا نقصان اس مادر ملت کو پہنچا وہ شائد ہی 67برس میں پہنچا ہو۔یہ حکمران اس سے پہلے بھی اس دھرتی کو وقت دے چکے ہیں۔ لیکن اسوقت کے حاکم وقت کا خون اتنا سفید نہیں تھا۔ اب تو یہ حال ہے کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ آج قوم نے مزید طلم و جبر کی چکی میں پسنے سے سراسر انکا ر کردیا ہے۔
کیونکہ اب وہ باشعور ہوچکی ہے۔ اور لیٹروں کے جال میں کسی صورت میں بھی پھنسنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ 
الیکشن 2013اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔ کہ آج اس ملک کا بچہ بچہ مردزن اکثریت اور اقلیت سب کا ایک ہی نعرہ ہے۔ کہ پاکستان ہمارا ہے لیکن اس ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا دیکھنا ذرا مشکل لگ رہا ہے۔ قوم آج یک زبان ہوکر یہ کہہ رہی ہے ۔ ”نواز شریف ہماراپاکستان ہمیں لوٹادو“ وہ پاکستان کہ جس میں خوشحالی کے پھول کھلا کرتے تھے وہ پاکستان کہ جس کے مکین روکھی سوکھی کھار کرمتمعین نظر آتے تھے۔
وہ پاکستان کہ جس میں ہر رشتے کو اس کے تقدس میں محفوظ رکھا جاتا تھا۔ جہاں پر گھر سے باہر نکلنے سے پہلے اپنی آخری وصیت دہرائی نہیں جاتی تھی۔ ایک ایسا پاکستان کہ جس میں نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ پاکستان کہ جس کے کھیلوں کے میدانوں میں اقوام عالم سے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد آکر سالانہ کروڑوں روپے زرمبادلہ کا سبب بنتے تھے۔
جو کہ اب ہمارے لالچی حکمرانوں اور انکے چمچوں کی گھناؤنی سازشوں کی وجہ سے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا ادھرکا رخ کرنے سے ڈرتی ہے۔ کہ پتہ نہیں کس لمحے وہ لقمہ اجل بن جائیں۔ اقوام عالم آج شدت سے منتظر ہے کہ وہ پاکستان لوٹ آئے کہ جس میں وہ سیرو سیاحت کے لئے بلا خوف و خطر آتے تھے۔ جس سے خارجہ پالیسی زور پکڑتی تھی۔ نوازشریف خداراہ وہ پاکستان ہمیں لوٹا دیں ! ایک بار پھر ہمیں اس قابل بنادے کہ چاغی جیسے پہاڑوں کے دل دہل جائیں۔
وہ دشمن عناصرجو نتیجہ پیش کرچکے ہیں۔ ان کے خام خیال کو نیست و نابود کردو۔ آج پھر یہ ثابت کردو کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ ایک بار پھر ہمیں وہ ماحول مہیا کردو کہ جس میں ایک بھائی بے فکر ہوکر اپنی بہن کو سکول ، کالج اور یونیورسٹی روانہ کردیا کرتا تھا۔ نوازشریف وہ پاکستان ہمیں واپس دلوادو کہ جس میں مریض ہسپتالوں سے شفایاب ہوکر آتا تھا ۔ کیونکہ اس پاکستان میں خون کے سودا گر نہیں بستے تھے۔
ایسے کم ظرف اور ایسے پتھر دل درندوں کے اوپر ایک مرد قلندر کا رعب طاری رہتا تھا۔ وہ دھرتی ہمیں واپس دے دو۔ جو علم و ہنر کا گہوارہ تھی۔ جہاں بھوک و افلاس کے دور دور تک نشان نہ تھا اور لوگ آج کی طرح فٹ پاتھ پر راتیں بسر نہیں کرتے تھے۔ خدارا ہمیں ایسے پاکستان سے نجات دلائیں ۔ کہ جس میں ہزاروں مائیں ، بہنیں، بیٹیا ں، شیر خوار بچے اور صعف میں مبتلا بزرگ بغیر کھائے پیے سوجانے پر مجبور ہیں۔
حضرت عمر فاروق کا قول ہے کہ” اگر دریا کے اس دوسرے کنارے پر بکری کا ایک بچہ بھی بھوک و پیاس سے مرجاتا ہے تو میں یعنی عمر اسکا جوابدہ ہوں گا۔“ ایسی سکون آمیز سرزمین اگر نہ سہی تو کم ازکم اس سے ملتی جلتی یا کم از کم پہلے جیسی سرزمین ہی ہمیں لوٹادو۔ وہ جو ہماری اپنی دھرتی تھی۔ شکست و ریخت کے ساتھ ہی سہی خدارا نواز شریف ہمیں وہ واپس لوٹادو۔
اس قوم نے آج پھر یہ تسلیم کیا کہ نواز شریف آپ ہمارے رہنماہیں۔ یہ لو خون میں لپٹا ہوا پاکستان تمہارے حوالے ہے۔ کوئی چیز کسی کے حوالے تب ہی کیجاتی ہے جب وہ اسے اللہ کے فضل سے سنبھالنے کا ہنر بھی جانتا ہو۔ آج قوم نے یہ تسلیم کیا کہ لکڑی سے بنا ہوا بلا نیا پاکستان نہیں بناسکتا کبھی بھی ۔ یہ تو وہ خارہیں کہ جن کو صاف کر کے اس ملک کے میدانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ ہم اپنی محنت سے اس ملک پاکستان کا نام روشن کرسکیں کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔
جب گھر ہی ہ ہوتو آسائیشوں کا سوچنا بھی محال ہے۔ خدارا یہ سب ہمیں واپس لوٹا دو۔ آج اپنے ازلی دشمنوں کو یہ قوم بتا دینا چاہتی ہے کہ پاک فوج کا ایک کلمہ گو سپاہی جو کہ ساری دنیا میں اپنی بہادری کی وجہ سے ملک پاکستان کی پہچان بن چکا ہے جو رات کے اندھیروں میں جب ہم سورہے ہوتے ہیں تو ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسی فوج جو اللہ کا سب سے بڑ اتحفہ ہے۔
اسکی مدوسے اور نوازشریف جیسے پاک باز اور با کردار انسان کے اتحاد و اتفاق سے میلی آنکھ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے۔ اور اگر حالات غریب اور بے روزگار عوام کی توقعات کے برعکس ہوئے تو چوبیس ماہ کے اندر PML Nکے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آجائے گا جوPPPکے ساتھ ساٹھ ماہ یعنی پانچ برس بعد پیش آیا ہے۔ لیکن اس دفعہ بظاہر پولنگ سٹیشن نظر نہیں آئیں گے۔ الیکشن میں شیر اور تیر کا نام و نشان تک نہیں ہوگا۔ جو عوام تخت بر با عزت بٹھا سکتی ہے وہ تختہ دار پر بھی لے جاسکتی ہے۔ اور عوام کی طاقت کا اندازہ PML Nاور PPPسے بہتر کون لگاسکتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas