Episode 55 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 55 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

پاکستان ریلوے کے68 برس
سڑکیں ،بحری ،ہوائی اور ریلویز کا شمار زرائع نقل و حمل میں ہوتا ہے۔جبکہ اخبارات ،ڈاک، ٹیلی فون ،internet، T.V ،موبائل فون وغیرہ خبررسانی کے زرائع ہیں۔ یہ سب زرائع معاشی اور سیاسی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ زرائع امن وامان بحا ل کر کے ملکی دفاع کو مضبو ط بنا کر تہذیب و تمدن میں نکھار پیدا کرتے ہیں۔ ان میں زرائع نقل و حمل کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔
جب ٹیلی فون دریافت نہیں ہوا تھا تو تجارت تب بھی ہو رہی تھی لیکن ٹرانسپورٹ کے زریعے ہو رہی تھی ۔ٹرانسپورٹ میں سب سے پرانا زریعہ ریلوے ہے۔ پوری دنیا میں تجارت کو ریلوے کے زریعے ترقی ملی۔ایک وقت تھا جب پاکستان کی معیشت کو چار ستونوں نے سنمبالا ہوا تھا جس میںPIA,T&T، یوٹیلیٹی سٹور زکارپوریشن اور سب سے مضبوط ستون پاکستان ریلویز تھا جو آج کل ایک بیماری کا شکار ہے اس بیماری کا نام ہے کرپشن ۔

(جاری ہے)

سب سے پہلے سرکردہ اور بااختیار حکومرانوں اور جب گھر کا بڑا بد عنوان اور لاپروہ ہو جاتا ہے تو تمام افراد اس موزی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں اور افراد سے مراد اس محکمے کے ملازمین ہیں۔ اس ٹرانسپورٹ کے سب سے بڑے زریعے کو کرپشن نے ایسے تباہ کیا جیسے لکڑی کو دیمک کھا جاتی ہے۔ سب سے زیادہ مقدار میں استعمال ہونے والی دھات لوہا ہے جس سے پاکستان ریلویز کی پٹڑی بنائی جاتی ہے۔
اس کی خریدوفرخت میں انتہا کی بدعنوانی پائی جاتی ہے۔ حتا کہ پٹڑی کے کناروں پر ہزاروں من لوہا پڑا ہوا ہے اور ان میں سے سینکڑوں من سالانہ چوری ہو جاتا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے جب میرا ٹرین کے زریعے لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے دیکھا کہ بوتلیں بیچنے والا مسافر کے کہنے پر ایک منٹ کے اندر بھاگ کر جاتا اور بوتل اٹھا کر مسافر کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ۔
میں بہت حیران اور خوش بھی ہوا کہ ہمارے ملک میں اگر کسی سروس کو مہیا کرنے کی رفتار اتنی تیز ہو جائے تو ہم ہر شعبے میں ترقی کی منازل بڑی تیزی کے ساتھ تہہ کر سکتے ہیں مختصر یہ کہ میں نے بھی اسے کہا کہ ایک بوتل دے دو اور اٹھ کراس کے پیچھے چل پڑا یہ دیکھنے کے لئے کہ اس کا سٹور کتنا دور ہے۔میں نے دیکھا کہ اس کا سٹور کھلی اور ہوادار جگہ پر تھا۔
اور وہ جگہ تھی باتھ روم ک دروازے کے باہر والا حصہ۔ ٹوائلٹ کے اندر جاتے ہوئے اور باہر نکلتے ہوئے ان بوتلوں کا نظارہ ہر کسی کو مجبو راً کرنا پڑتا ۔ لہذا اس سفر میں بوتل صرف وہ لوگ ہی پی سکتے تھے جو باتھ روم کی طرف نہیں جارہے تھے یا وہ جسے بوتل بینے کے بعد رفع حاجت کے لئے جانا پڑتا۔لہذا وہ یہ کوشش ضرور کرتا کہ اس میٹھے پانی کی اگر الٹی ہو جائے تو دل کا بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ محکمہ سستا ترین اور بیک وقت ہزاروں لوگوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانے کا واحد زریعہ تھا اور الحمداللہ آج بھی ہے۔ مختلف سیاسی ادوار میں اس کو فٹ بال بنا کر اس سے کھیلا گیا۔ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک بلور نے اس بر بلور پھیر دیا ۔ہا ں البتہ شیخ رشید صاحب کے دور میں اس محکمے نے خاصی ترقی کی اور وہ نظر بھی آرہی تھی۔
اب کچھ حقائق پر نظر دوڑاتے ہیں۔ 1947میں جب ملک بنا تو ہمارے حصے میں ریلوے کا بہت چھوٹا سا ٹکڑا آیا۔جبکہ متحدہ ہندوستان میں اس وقت اس کے نو سسٹم تھے۔ جن میں سے صرف دو ہمارے حصے میں آئے۔جو کہ انتہائی خستہ حالت میں تھے۔ ریلوے لائنوں کی لمبائی کاتقریباً 16فی صد پاکستان کوملا،کل انجنوں کا 15 فی صد، مسافر گاڑیوں کا 17فی صد اور مال گاڑیوں کا 16فی صد پاکستان کے حصے میں آیا۔
انتھک کوششوں اور محنت کے بعد محکمہ کسی قابل ہوا ۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد اس محکمے پر خصوصی توجہ دی گئی اور1955 تک تقریباً 5.80 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جسکی وجہ سے ُپاکستان ریلویزکو 7255 مال بردار ڈبے،6000 مسافر بردار ڈبے،135ڈیزل انجن اور 24 ریل کاریں ملیں۔ دوسرے 5سالہ منصوبے میں 140کروڑروپے خرچ کرنے کا پروگرام بنایا گیا اور منصوبے کے دوران 127نئے انجن ،35 کوئلے والے انجن 600 کے قریب مسافر بردار ڈبے اور 7400 ما ل بردار ڈبے حاصل کئے گئے اور مزے کی بات یہ کہ 2000 کلو میٹر پٹڑی بھی اس محکمے کا اثاثہ بنی ۔
اس منصوبے کے دوران راولپنڈی شہر میں ڈیزل انجنوں کی مرمت کے لئے ورکشاپ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ اگر ہم بات کریں تیسرے 5سالہ منصوبے کی تو اس کے دوران مغربی پاکستان میں 150کروڑروپے خرچ کرنے کا پروگرام بنایا گیالیکن 1965کی جنگ کی وجہ سے ریلوے پر 115کروڑروپے خرچ کئے جا سکے اور کراچی سرکلر ریلوے کا دوسرا حصہ بھی مکمل کر دیا گیا جس کا پہلا حصہ دوسرے منصوبے میں مکمل ہو گیا تھا۔
اس تیسرے منصوبے کے دوران کراچی اور لاہور کے درمیان بجلی کی ٹرینیں بھی شروع کی گئی ۔ اسلام آباد میں مال بردار ڈبوں کی فیکٹری بھی اس بجٹ سے بنائی گئی۔2000 سے لے کر 2007 تک اس محکمے نے بے پناہ ترقی کی۔ اگر ہم تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیں تو 2012 کے اقتصادی جائزے کے مطابق اس محکمے کے پاس 7791 کلومٹر لمبی ریلوے لائن ،46 ٹرین ہالٹ اور 815 ریلوے سٹیشن وجود میں آئے ۔
اس عرصے میں پاکستان ریلویز نے 16 ملین مسافروں اور 4.5 ملین ٹن کارگو کی سروس مہیا کی لیکن مجموعی طور پر 2011-2012 کے دوران پاکستان ریلویزکی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ اگرچہ پچھلے سالوں میں کچھ ٹرین سروس کا وجود بھی سامنے آیا مثلاً تھر ایکسپریس،مارگلا ایکسپریس، ماروی ایکسپریس، پشاور ایکسپریس ،سندھ ایکسپریس ، جناح ایکسپریس ، سرسید ایکسپریس اور پاکستان ایکسپریس شامل ہیں۔
لیکن پاکستان ریلویز خسارہ میں رہی ۔ اس محکمے نے چین سے 20 انجن بھی برآمد کئے یاد ررہے کہ یہ انجن چالو حالت میں نہیں تھے اور ان میں سے 10 پاکستان لوگو فیکٹری میں تیار کئے گئے ۔ حالات و واقعات اور حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو کرپشن کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کا نہ ہونا اس محکمے کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کہا جاتا کہ ” ایک ملک غریب ہے کیونکہ وہ غریب ہے“اس کا مطلب یہ کہ جس ملک کو غربت ورثے میں ملی ہو اسے پاوٴں پر کھڑا ہونے کے لئے کئی نسلوں کو غربت کی نظر کرنا پڑتا ہے ۔
اور پھر جا کر آنے والی نسلیں سکون کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں ۔ پاکستان ریلویز کو غربت اور وسائل کی محرو میاں تقسیم کے وقت ورثے میں ملیں۔ یہ محر ومیاں حکمرانوں اور عوام کو مل کر ختم کرنا ہو نگی ۔ یہا ں پر عوام سے مراد محکمے کے ملازمین اور پھر عام آدمی کو بھی ٹرین میں سفر کے دوران اس کی صفائی اور املاک کی حفاظت کرنا ہو گی۔ زمینی نقل وحمل کا سب سے بڑا زریعہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج صرف قدوقامت میں بڑا ہے کارکردگی میں ایک بونا ہے۔ 

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas