Episode 31 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 31 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
 یہ و ہ جملہ ہے جس کو سن کر بے قراری اور دکھوں کی بڑی سے بڑی لہر دور ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ صبر کرنے کا درس دینے اور صبر کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اکثر ہم نے دیکھا کہ جب کوئی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے لواحقین کو ہمدردی کے طور پر ہم اور آپ کہتے ہیں کہ صبر کریں لیکن صبر کیسے کیا جاتا ہے یہ صرف انہیں کو معلوم ہے جن کا کوئی پیارا ایک دن اچانک ان کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے، بڑے بڑے با حوصلہ انسان اپنے پیاروں کی موت پر پگھل کر موم ہو جاتے ہیں اور رونے کے لیے کندھوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
کچھ ایسی ہی کہانی کیپٹن بلال طارق شہید کی ہے۔ملک و قوم کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کی خواہش نے پاکستان آرمی جوائن کرنے پر آمادہ کیا ۔

(جاری ہے)

انتہائی کم عمری میں آرمی میں کمیشنڈ آفیسر منتخب ہو کر اس مقصد کو پا لینے کی خواہش پنپتی رہی ۔لیکن کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کچھ دن قبل گھر سے ہنستا کھیلتا اور خوشیاں بکھیر کر جانے والا بلال واپس بھی آ سکے گا کہ نہیں ۔

اس امید پر کہ عید پر گھر آؤں گا تو خوب محفل سجے گی۔والدین سے ملوں گا اور پتہ نہیں کیا کیا ارمان دل میں لیے کشمیر کی پہاڑیوں میں دفاع وطن کی خاطر پچیس برس کی عمر میں والدین ،بیوی اور بیٹی زارا کی جدائی سہنا اس کا نصیب بھی تھا اور فرض بھی ۔کیپٹن بلال طارق سولہ فروری انیس سو چھیاسی میں چکوال کے ایک گاؤں میں ایک بہت بڑے زمیندار طارق سلیم کے گھر پیدا ہوا ۔
میٹرک پاکستان کے معروف ادارے جوائنٹ سٹاف پبلک سکول اینڈ کالج چکلالہ سے نمایاں پوزیشن میں پاس کیا ۔ایف ایس سی سرسید کالج مال روڈ سے اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ اللہ کے فضل و کرم، والدین اور اساتذہ کی دعاؤں اور اپنی محنت سے یہ نوجوان کمیشنڈ آفیسر منتخب ہوا۔خوبصورت اور کڑیل نوجوان پاکستان اارمی کی زینت بنا اور جانفشانی سے ثابت کیا کہ وہ واقعی ایک بہادر سپاہی ہے۔
شہادت کی موت کو ترجیح دینے والا یہ نوجوان شہادت کے رتبے پر فائز ہوا ۔عید الاضحیٰ سے چند دن قبل معمول کے مطابق فون کر کے والدہ سے خوب گب شپ کرنے کے بعد کیپٹن بلال نے ایک جملہ بولا جو ماں کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا وہ جملہ یہ تھا'' ماما جب میں گھر پہنچوں تو آپ کے ہاتھ کا کھاناتیار ہو ۔مجھے آپ کے ہاتھ کے کھانے بہت یاد آتے ہیں لیکن میں عید کے بعد آؤں گا ۔
ہم عید دوبارہ منا لیں گے " ۔ اس کے کہنے کا مطلب کچھ یوں لیا جاسکتا ہے کہ اس وطن عزیز کو میری زیادہ ضرورت ہے یہ ملک ہے تو ہم ہیں ۔یہ عیدیں بھی تب ہی خوشی کا سماں پیدا کر سکتی ہیں جب اس کی مٹی میں دشمن کے ناپاک قدم نہ پڑ سکیں۔ دوسرا فون بلال نے اپنی بیوی کو کیا اور ایک فرمائش کی کہ مجھے میری بیٹی زارا سے بات کروائیں اور اس سے کہیں کہ وہ مجھے " بلال" کہے یاد رہے کہ زارا اپنے والد کیپٹن بلال کو بابا یا پاپا کہنے کہ بجائے اکثر بلال کہا کرتی تھی۔
گھر میں بڑوں کے منہ سے یہ نام سنتے سنتے وہ دو برس کی ہو گئی ہے۔اور بلال کو یہ بہت اچھا لگتا تھا کہ زارا اسے بلال کہہ کر بلائے ۔یہ فرمائش بھی پوری کی گئی ۔حالات و واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے بلال کو اپنی شہادت کی خبر سی ہو گئی ہو ۔بیٹی کی آواز سننے کے بعد کیپٹن بلال کی آواز میں عجیب سا اطمنان محسوس ہو رہا تھا،گھر والوں اور خود کو مطمیئن کرنے کے بعد بلال اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہو گیا ۔
کسی کو کیا پتہ تھا کہ اس عید کے بعد اس کے لیے کوئی عید نہیں آئے گی ۔قدرت نے بلال کو وہ منصب عطا کرنے کا طے کر لیا تھا کہ جس کی آرزو انبیاء نے بھی کی ۔یہ آرزو شہادت کی موت ہوا کرتی ہے۔گھر کی گھنٹی کی آواز سے بلال کی آمد کا اندازہ لگانے والی ماں اس گھنٹی کی منتظر رہ گئی ۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ماں وہ واحد ہستی ہے جو اپنی اولاد کے قدموں کی آہٹ تک پہچان لیتی ہے۔
لیکن اس دفعہ یہ قدم ماں کی طرف نہ اٹھ سکے یعنی قدت کو یہ منظور نہ تھا کہ کیپٹن بلال اس کے بعد گھر والوں سے مل سکے۔بیس اکتوبر دو ہزار تیرہ کی صبح کیپٹن بلال کی گاڑی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ایک گہری کھائی میں جا گری۔بھمبھر آزاد کشمیر میں اس حادثے کے بعد کیپٹن بلال ہوش میں نہ آسکا۔اور چند لمحوں میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس دن جب میں بلال کے ماموں کیپٹن (ر) صلاح الدین سے ملا تو ان کی زبان سے بے ساختہ نکلنے والے الفاظ مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گئے۔
وہ الفاظ یہ تھے " شاہد بھائی ابھی چند دن پہلے میں نے اس گھر میں بلال کی شادی اور مہندی پر بھنگڑے ڈالے اور آج انہی در و دیوار سے اس کی میت اپنے کاندھوں پر اٹھائی ۔ابھی تو اس کی پیدائش کا وہ لمحہ بھی میرے ذہن سے نہیں اترا کہ جب وہ پیدا ہوا اور میں نے خوشی سے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا تھا۔ پچیس برس کے بلال کی خوشیوں کو نظر لگ کئی"۔اس کے بعد صلاح الدین کے آنسوں تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
گھر کا ہر فرد تڑپ تڑپ کر رونے پر مجبور تھا۔بلال کے والد گرامی کے حوصلے جواب دے چکے تھے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جوان اولاد میں سے کوئی بھی والدین کے ہوتے ہوئے جب اس دنیا سے چل بسے تو ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔اور خاص طور پر والد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسی اچانک جوانی کی موت والد کی کمر توڑ دیتی ہے۔پھر ہم نے اور آپ نے اکثر دیکھا کہ ایسے موقع پر والد کے ہاتھ کمر پر ہوتے ہیں ۔
کیونکہ اولاد ساری زندگی مشقت کرنے والے والد کی کمر کا واحد سہارا ہوتی ہے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ہر آنکھ اشک بار نظر آ رہی تھی۔خاموشی میں د م توڑتی ہوئی آہیں اور سسکیاں میں نے دیکھیں۔لیکن خدا گواہ ہے کہ کیپٹن بلال کی شہادت کو میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ایسی صاف شفاف جوانی بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
بلال کا ماضی بے داغ اور حال کھلی کتاب ہے ۔اللہ ایسی زندگی اور ایمان کی موت سب کو نصیب کرییجانے والے کی کمی کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوتا ہے۔لیکن اللہ کے ہر کام میں مصلحت ضرور ہوتی ہے ۔صحابہ کرام بھی اپنے پیاروں کی موت پر اشکبار ہوا کرتے تھے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔بلال کے چھوٹے بھائی ہارون طارق کی تڑپ مجھ سے دیکھی نہ گئی ۔
لیکن خدا کی ذات پر اس کا ایمان اتنی چھوٹی عمر میں اتنا مظبوط بھی ہو سکتا ہے میرے وہم و گماں میں نہ تھا۔اس سارے معاملے کو وہ خالصتا اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر رہا تھا لیکن اس حقیقت کو کسی صورت میں بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا جو ہم سب کا ایمان ہونا چاہیے وہ یہ کہ انسان کی زندگی پانی کے بلبلے کی مانند ہے ۔کوئی جلدی ختم ہو جاتا ہے اور کوئی کچھ لمحوں بعد۔
آتے ہوئے اذاں ہوئی جاتے ہوئے نماز
اتنے قلیل وقت میں آئے اور چلے گئے

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas