Episode 14 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 14 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

سیلا ب کی تبا ہ کا ر یا ں 
قد یم تاریخ کے اور اق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ سیلا ب اور سونامی جیسے قیا مت خیز سا نحات کم از کم ایک صدی کے بعد پلٹ کر آتے ہیں ۔ لیکن مو جودہ دورمیں قدرتی ما حول میں تبدیلی کے سبب یہ آفات اور ناگہانی حالات ہر دس سال بعد واپسی کے راستے پر چل پڑتے ہیں ۔نیشنل ڈیزاسڑ مینیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے مطا بق قدرتی آفات کا شکار ہو نے والے بے شمار ممالک میں ملک پاکستان کا چو دھواں نمبر ہے ۔
اب تک 153ممالک میں زلزلے نے بری طرح تبا ہی کی ۔ جس میں ہمارے ملک کا نمبر نوواں ہے ۔2005-2010کے درمیان پاکستان کو بے شمار خوفناک مسائل اور سا نحات کا سا مناکر نا پڑا۔ اکتو بر2005کے زلزلے نے پاکستانی معشیت کو دھچکا لگایا ۔اوروہ مسائل پاکستان کی جھولی میں ڈالے کہ جنکے زخم شائد صد یو ں نہ بھر سکیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح دسمبر 2010کے سیلاب سے پاکستان غربت کی دلددل میں دھنس کر عذاب کاشکارہے ۔

مجموعی طور پر پاکستان کو تقریبا 21 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ عالمی سطح پر ایک سروے کے مطابق کسی بھی ملک میں5برس میں اتنی شدت کے نقصا نات کا بو جھ نہیں پڑا جتنا پاکستان کی معیشت کو برداشت کرنا پڑا ۔ اکتو بر کے زلزے میں 6ہزار سے زیادہ سکول تباہ ہوگئے جو کہ قیا مت صغرٰی سے کم نہیں تھا۔ بھارت نے ہمیشہ ملک ِ پاکستان کو تباہ کرنے کی سازشوں کو پروان چڑھا یا اور اس کی طرف سے چھوڑے گئے ا چا نک پا نی کی وجہ سے راوی اور ستلج میں پانی کی سطح ا تنی تیزی سے بلند ہو گئی کہ سینکڑ دیہات ڈوب گئے ۔
افسو س کی بات یہ کہ اس ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حفا ظت کی طر ف تو جہ کسی حکو مت کو نصیب نہ ہوئی ۔ریڑھ کی ہڈی سے مراد پاکستان کی زراعت کاشعبہ ہے۔ جو ہمیشہ سیلاب کی نظر ہو جاتاہے ۔جس سے براہِ راست کسان طبقہ بری طرح متا ثر ہو تا ہے ۔ لیکن جب کھڑی فصلیں تبا ہ وبرباد ہوتی ہیں تو اشیائے خوردنی کے ساتھ ساتھ دیگر اشیا ء کی قیمتیں بھی آسما ن سے باتیں کر نے لگتی ہیں لیکن اگر ماحول خوشگوارہو بھی جائے تو بھی قیمتیں کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جس سے نہ صرف کسان طبقہ بلکہ شہروں میں بسنے والے لاکھوں سفید پوش لوگوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ۔لہذا سیلاب کی تباہ کاریاں صرف کسان اور زراعت کی تباہ کاریاں نہیں ہیں ۔بلکہ یہ تو اس مادرِ ملت کی معشیت کو وہ دھچکاہے کہ جس کے نقصانات کا ازالہ شائد صد یوں نہ ہو سکے ۔کاش ہمارے ملک میںآ بی ذرائع کو تر قی دینے کا منصوبہ ہر حکو مت کی تر جیحات میں پہلے نمبرپرہو ۔
جسکی مثال آج سے پہلے تو کہیں نہیں ملتی ۔ اس سے بڑی افسوس کی بات کیا ہوگی کہ ہمارے بھائی بہنیں،بیٹیااور مائیں خو شحال گھرانوں کے ہوتے ہوئے بھی خیموں میں رہیں یا پھر سکولوں اور مسجدوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں۔اور آج ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ کنڈہ سنگھ والا کے اردگردسینکڑوں لوگو ں نے ایسے ہی وقت گزارہ۔
راجن پور ،نارووال اور قصورکے کچھ لوگوں سے پتہ چالاکہ سیلاب کی تباہ کاریاں رات کو سونے نہیں دیتی ۔
ایسے خو فناک مناظر اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے ۔ ہر طرف بچے بوڑھے اور عورتیں گردن تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد بھی دن بدن بڑتھی جارہی ہے ۔ خوبصورت لہلہاتے کھیت چنددنو ں میں ویران اور ما ند پڑ گئے ۔ یہ وہ حالات وواقعات ہیں جو مکمل طور پر حقائق پر مبنی ہیں ۔ نہ جانے کتنے معصوم بچوں اور بوڑھے لوگوں کی آہیں ہم تک نہ پہنچ سکی ہو نگی ۔
بیماریاں ایسی کہ جنکی روک تھا م نا ممکن نظرآرہی ہے ۔مو بائل کلینک مہم کی وجہ سے ڈور ٹوڈور (Door to Door) جاکر متاثرین کا علاج کیاگیا۔ لیکن و سائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر علاقے کو شامل کرنانا ممکن ہے ۔ یہ ملک پانی میں ڈوبا ہواہے جبکہ 18کروڑ عوام اسی پانی کی نعمت سے محروم بھی ہیں ۔ یعنی صاف پانی کامسئلہ ابھی تک وہیں پرہے ۔ ہر آنے والی حکومت اگر سیلاب سے بچاؤ کیلئے ایک بڑی رقم خرچ کرے تو 15 سے 20 برس میں ہم اس پوزیشن میں ہونگے کہ اپنے پڑوسی ممالک کو صاف پانی مہیاکرسکیں گے ۔
اور اللہ کے فضل سے سیلاب کی گنجائش بھی نہیں رہے گی ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر حکو مت اس وقت خرچ کرتی ہے جب وہ خر چ نقصان کی مد میں جا رہا ہو تا ہے ۔جیسا کہ آج اربوں روپے عوام کی جا نیں بچانے کے لیے خرچ ہو رہے ہیں ۔جبکہ ہو نا یہ چا ئے کہ حکومت وہی رقم مون سون کی آمدسے بہت پہلے خرچ کرے۔ تاکہ کم از کم جا نی نقصان تو نہ ہو ۔اور دوسری طرف اس خرچ سے مزید ثمرآور نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
بشرطیکہ یہ پیسہ وقت سے پہلے اور سوچ سمجھ کر استعمال ہو ۔حالیہ سیلا ب نے نہ صرف جانی اور مالی نقصان پہنچایا بلکہ دیگربے شمار شعبے اپنی ور کنگ میں متحرک نہیں ہورہے کیونکہ سکول بند پڑے ہیں۔فیکٹریوں کے مزدور چو نکہ زراعت کے شعبے سے بھی منسلک ہوتے ہیں لہذا مزدوروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ما ل کی تر سیل بند ہو جاتی ہے ۔جو کہ قلت اشیا ء کا سبب بنتی ہے ۔
لہذا مہنگائی عروج پر پہنچ جاتی ہے ۔ بلکہ درآمدات میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جاتاہے ۔ یعنی سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے دیگر شعبے بھی بُری طرح متا ثر ہو تے ہیں ۔ جو کہ معیشت پر دُوررس اثرات مرتب کرتے ہیں ہرسال کچے مکانات کی زدمیں معصوم بچوں کی ہلا کتوں کی تعدادبھی کئی سو تک پہنچ جاتی ہے ۔اب کچے مکانات صرف زمینداریا کسان کامسئلہ نہیں ہے ۔
بلکہ حکو متوں کو بھی اس سلسلے میں ایسے اقدامات کرنے چا ہیں کہ اُنکی غربت میں کمی واقع ہو سکے ۔ اس سلسلے میں حکو مت کو چا ہیے کہ وہ کسانو ں کو پکے مکا نا ت کی تعمیر کے لیے بِلا سو دقرضے دے ۔تاکہ غربت کا منحوس چکر ختم ہو سکے ۔ جو کہ ہمیں ورثے میں ملا ہے زراعت جسے فنڈ کے بغیر چلا یا جارہا ہے ۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کی پاکستان براہِ راست زرعی ملک ہے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ شعبہ بذات خود غیر تر قی یافتہ ہے ۔بڑے بڑے زمیندار اس بات پر فخر محسوس کر تے ہیں کہ وہ زراعت چھو ڑکر صنعت کی طرف آ گئے ہیں ۔ اور ایک فیکٹری کے مالک بن کہ اپنا تعارف کروا نا فخر کی بات سمجھتے ہیں حالانکہ ان کا فخر اُنکے آبا ؤ اجدار کا شعبہ ہی ہو سکتا ہے۔
اگر پاکستان میں اللہ نے ہمیں قدرتی آبپاشی کا بہتر ین نظام عطا کر ہی دیاہے ۔ تو اُسکی قدر کر نا بھی ہمارا فرض ہے لہذااس قدرتی نہری نظام سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے۔جو کہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی اگر غر یب طبقہ کرے تو تُک بھی بنتی ہے ۔اگر یہ امیرلوگ دیہات چھوڑکر شہرومیں آکر بیٹھ جا ئیں گے تو پاکستان کی ریڑ ھ کی ہڈی ٹو ٹنے کا خطرہ ہے۔
صنعت مو جو دہ دور میں ہر ملک کی بقا ء کی علامت ہے ۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے ۔ کہ صنعت کیساتھ ساتھ زراعت پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں بڑے زمینداروں سے لے کر ہر حکو مت کو ہوش میں رہنا ہو گا اور زراعت کو تبا ہی اور بر با دی سے بچانا ہوگا ۔ کسانوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیاجائے ۔تا کہ اُنکی آمدنی میں بھی اضا فہ ہو ۔ اور وہ خو شی کیساتھ زراعت کو تر قی دیں۔
اس سلسلے میں حکو مت کو چاہئے کہ دیگر سہولتوں کیساتھ ساتھ سیلاب کی تباہ کاریو ں کے خلاف جنگ مسلط کردے ۔ اور وہ اقدامات کیے جائیں کہ کم ازکم ہمارے پاکستانی بھائی اور بہنیں اس عذاب سے نہ گزریں جسکا سا منا 2010 ئئکے بعد آج پھر وہ کررہے ہیں۔مادرِملت کی حفاظت سرحدوں پرتو پاک فو ج کر ہی رہی ہے ۔ لیکن اس ملک کے اندرونی حالات پر قا بو پانا صرف اور صرف حکو مت کی ذمہ داری ہے ۔اور حکو مت چاہے مو جو دہ حکو مت ہو یا آنے والی یاگزرے ہو ئے کل کی حکومت ان سب لو گو ں کو اپنے ا ختیارات کے استعمال کا جواب قیا مت کے روز خدا کو دینا ہو گا۔ 

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas