Episode 49 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 49 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

روشن پاکستان
کچھ عرصہ قبل جب معمول کے مطابق میں اپنی فیملی کے ہمراہ اپنے گاؤں ساگری گیا ہم صبح دس بجے پہنچے تو بجلی کا نام و نشان تک نہ تھا صبح دس سے لے کر رات دس بجے تک اور پھر صبح چھ بجے تک ہمیں پنکھے کی ہوا تک نصیب نہ ہوئی لیکن لاغر ہو کر ہم رات ایک آدھ گھنٹہ سو گئے صبح تک میرے بیٹے کو بخار ہو چکا تھا۔میں نے دیکھا کہ میرے گھر کے سب افراد اور پھر پڑوس کی طرف جب نظر دوڑائی تو ہر طرف مایوسی اور بے چینی کی فضا نظر آئی خاص طور پر بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے بزرگوں کو گرمی میں تڑپتا دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رویا اور پھر اس پاکستان کا خواب دیکھنا شروع کیا جو کبھی واقعی خوشخال اور توانا پاکستان تھا،لوڈشیڈنگ کا نام و نشان تک نہ تھااقوام عالم سے صنعتکار اور سرمایہ کار اس ملک میں آ کر صنعت و حرفت کو ترقی دینے میں معاوبن و مددگار نظر آتے تھے کیونکہ اس میں ان کا اپنا بھی فائدہ تھا پاکستان میں چونکہ غربت تھی اور پاکستان کے عوام بھاری سرمایہ کاری کرنے سے قاصر تھے لیکن باہر کے ملکوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان میں روزگار کے مواقعے موجود تھے دال روٹی اس ملک کے باشندوں کو عزت کے ساتھ مل رہی تھی آج کی طرح کروڑوں لوگ بھوکے پیاسے مر نہیں رہے تھے کیونکہ اس وقت بجلی اور گیس کی سہولت اپنے عروج پر تھی لیکن عوام اور پاکستان کے صنعت کاروں کے پاس بھاری مشینری خریدنے کے لیے زر مبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک سے امراء اور صنعت کار اس ملک کے وسائل سے استفادہ کرتے تھے،پاکستان کے قدرتی ذرائع پاکستان کی بجائے غیر ممالک کے منافعوں اور دولت میں اضافہ کا سبب بنتے رہے لیکن حالات پھر بھی قابل قبول تھے کیونکہ اس ملک کے عوام بھوک اور قحط جیسے حالات سے کبھی بھی نہ گزرے تھے،گزشتہ دو سالوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات اس ملک کے اپنے صنعت کاروں نے بھی اپنی مشینری اکھاڑ لی اور اس ملک میں جا کر نصب کی جس کے اندر سرمایہ کاری کا کم از کم پاکستان اور اس کے عوام تصور بھی نہیں کر سکتے تھے،مثال کے طور پر بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جہاں پر کوئی بھی غیر ملکی کمپنی اپنا کارخانہ لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ما سوائے چائے اور پٹ سن کی پیداوار کے سلسلے میں آج پاکستان جیسے صنعتی ملک کی مشینری بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہے کیونکہ وہاں بجلی اور گیس کا بحران نہیں ہے لہذا کوئی پاگل ہی ہو گا جو اپنی کروڑوں کی مشینری پاکستان میں زنگ لگنے کے لیے چھوڑ دے گا گزشتہ سالوں میں پیداوار زیرو ہونے کے باوجود حکومت نے ٹیکسوں کی برمار کر دی اگر حکومت صرف یہ کر لیتی کہ گیس اور بجلی کے بحران کی وجہ سے صنعتکاروں کو ٹیکس میں کچھ چھوٹ دے دیتی تو پاکستان کے کارخانے بیرون ملک منتقل نہ ہوتے ،بہت سے پرڈکشن یونٹ ایسے ہیں جو مکمل بند پڑے ہیں جنکی وجہ سے پاکستان کی بینکاری کو دھچکا لگا کیونکہ بینکوں کی سب سے بڑی آمدنی قرضے جاری کر کے ان پر منافع لینا ہوتا ہے جب کوئی قرضہ لینے والا ہی نہ ہو گا تو بینک کا نظام کیسے تباہ و برباد ہونے سے بچ سکے گا یعنی موجودہ دور میں بجلی اور گیس کسی ملک کے لیے ایسے ہیں جیسے انسان کے لیے دل و دماغ،زندگی کی روانی کے لیے ان دونوں کا ایک ساتھ چلنا بہت ضروری ہے ورنہ نظام درہم برہم ہو جاتا ہے تعلیم کا میدان ہویا صنعتکاری یا ذرائع نقل و حمل ان سب کی ترقی توانائی کی مرہون منت ہے،آج ہم جدید معلومات کے حصول میں بھی ناکام ہو چکے ہیں خاص طور پر نئی نسل جس نے انٹرنیٹ پر گھنٹوں کا کام منٹوں میں کرنا ہوتا ہے وگرنہ دنیا کے مقابلے میں پیچھے رہ جانا مقدر بن جاتا ہے،آج توانائی کے شعبے میں تنزلی کی وجہ سے خاص طور پر بجلی کے بحران نے ہمارے تعلیمی مسائل میں بے تخاشا اضافہ کر دیا ایک بار پھر عوام نے اخبار خریدنے کی دوڑ میں شمولیت تیز کر دی ہے کیونہ مختلف ٹی وی چینلز تو موجود ہیں لیکن ہر ایک کے پاس UPS یا جنریٹر موجود نہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ گرد و نواع کی خبروں سے مستفید ہو سکے لہذا اخبار خرید کر گرد و نواع کی خبروں سے مستفید ہوا جاتا ہے جو ساری دنیا 24 گھنٹے پہلے محفوظ کر چکی ہوتی ہے یعنی کرنٹ افئیر کا حصول ناپید ہو چکا ہے،بجلی کا بحران ایک بار پھر پاکستان کو پتھر کے دور میں دکھیلنے کا سبب بنا جس کا سبب وہ حکمران ہیں جنہوں نے اپنی آسانیوں اور عیاشیوں کے لیے ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیابلوچستان میں جب گیس پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی جاتی ہے تو یہ بے ضمیر حکمران ہی تھے جنہوں نے اس معاملے میں ایسی لاپرواہی برتی کہ جیسے سوئی گیس نہ ہوئی پانی کی کوئی ٹونٹی ہوئی جو کھلی رہ گئی ہو جسے اس وقت مرمت کیا گیا جب ذاتی مفادات کی مکمل تکمیل ہو چکی ہو،اللہ کی ذات کی دی ہوئی اتنی بڑی نعمت کی بے قدری اللہ کی ذات سے برداشت نہ ہوئی اور دنیا نے دیکھا کہ مغرب ہوتے ہی پاکستان اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے،ایسے حالات میں ان گھر کے سربراہوں(حکمرانوں) کی غیرت نہ جانے کہاں چھپ جاتہ ہے کہ جب سربراہ کے ہوتے ہوئے اس کے مکیں اندھیروں میں ڈوب جائیں،آج دنیا اس طرف کا رخ کرنے سے بھی کتراتی ہے خاص طور پر کاروباری لوگ اپنے مراکز تبدیل کر چکے ہیں،درآمد و برآمد کے حالات یہ ہیں کہ برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں اور درآمدات دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہیں برآمدات میں اضافہ صرف بجلی اور گیس کی متواتر موجودگی سے ہی ممکن ہے،ایسے حالات میں کہ جب ان نعمتوں کی دستیابی نا ممکنات میں شامل ہو چکی ہو تو نئی حکومت اگر پھر بھی اللہ کی رحمت پر یقین رکھ کر سر گرم عمل ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ ایمان کی ایک بہترین شکل یہی ہے،مسلمان کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا اتنے مشکل حالات میں بجلی جیسے گھمبیر مسئلے سے دوچار حکومت ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے نظر آ رہی ہے دو دن قبل جب میں اپنے گاؤں ویک اینڈ گزارنے گیا تو روزے کی حالت میں اپنے رب سے دعا کر رہا تھا کہ باری تعالیٰ گرمی کی حدت سے ہم گناہگاروں کو دور رکھنا کیونکہ شہروں میں اس وقت لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے اور دہیا توں میں یہ نعمت دو سے چار گھنٹے ہی میسر آتی تھی۔

(جاری ہے)

اللہ اللہ کر کے جب ہم گاؤں پہنچے تو دن کے چار بجے تھے خوشخبری یہ ملی کہ پچھلے کئی دنوں سے لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دل و دماغ الجھن کا شکار تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے لیکن میں نے دیکھا کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹہ رات بارہ سے ایک بجلی گئی اور اگلے چوبیس گھنٹے ہم نے وہاں گزارے اور خدا گواہ ہے کہ ایک آدھ گھنٹہ لائٹ گئی اور ہم نے بہت سکون سے وقت گزارا مجھے بیٹھے بیٹھے یہ خیال آیا کہ کیوں نہ دور دراز رہنے والے اپنے دوستوں سے پوچھوں کہ ان کی طرف بجلی کی کیا صورت حال ہے پتہ چلا کہ اللہ کے فضل سے لوڈ شیڈنگ تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے اور کچھ جگہو پر چوبیس گھنٹے بجلی نہیں جاتی رمضان کا مہینہ پہلے بھی آتا رہا مگر ہم نے گزشتہ چھ سات سال یہ ماہ مقدس بجلی کے بغیر ہی گزار اجو تقریبا گرمیوں میں ہی گزرتا رہا پھر خیال آیا کہ کیوں نہ لاہور اور گجرانوالہ جیسے شہروں کی خبر لی جائے پھر میں نے اپنے ایک شاگرد ذبئی اللہ کو فون کیا اور اس کے گاؤں میں لوڈ شیڈنگ کے حالات پوچھے تو حیران بھی ہوا اور خوش بھی کیونکہ اس کا گاؤں جوکوٹ منڈ کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے یہ نعمت میسر آتی تھی گزشتہ کئی سالوں سے یہی حالات تھے لیکن یہ سن کر خوشی ہوئی کہ وہاں بھی لوڈ شیڈنگ زیادہ سے زیادہ تین ،چار گھنٹے رہ گئی ہے کچھ اور دوستوں سے بھی پتہ چلا کہ وہ اب اس حوالے سے مطمئن نظر آتے ہیں ،حالات و واقعات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے یہ بات اپنے پلے باند لی ہے کہ اس وقت کچھ کر گزرنا ہی بہتر ہے بجائے اس کے کہ ہاتھ بہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہوں آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اگر نیک نیتی سے کام کیا جائے تو بجلی بحران جیسا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے لیکن بے جا تنقید اور کیڑے نکالنے سے بہتر ہے کہ ان اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جائے دو چار سال کے بچے سے لے کر اسی سال کے بزرگ تک ہر انسان کی یہ فطرت ہے کہ اس کے اچھے اقدامات کو سراہا جائے۔
اس کے علاوہ قوم اپنی تجاویز اور آ راء سے وقتاََ فوقتاََ آگاہ کرتی رہے اور تنقید برائے اصلاح کا عمل جاری رکھا جائے برے اقدام کی اگر آغاز میں ہی حوصلہ شکنی کر دی جائے تو غلطی کرنے والے کا ہی فائدہ ہوتا ہے اور وہ تباہی سے بچ جاتا ہے عرصہ طویل میں ایسی تنقید جو ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کی جاتی ہے ثمر آور ثابت ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تنقید کے ساتھ اصلاحات اور تجاویز سے آگاہ کیا جائے موجودہ حکومت جہاں انگنت مسائل کا شکار ہے وہاں بے جا تنقید کا بھی سامناکر رہی ہے اس وقت تحمل اور بردباری عوام اور حکومت دونوں کے لیے ایک بہترین ہتھیا ر ہے اگر آپس کی لڑائی میں ملک کی سا لمیت کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یہ عوام اور اس ملک میں بسنے والے ہر ذی روح کا نقصان ہے لہذا میں نے اپنے پہلے کالم میں بھی درخواست کی تھی کہ نئی حکومت کو کام کرنے کے لیے وقت دیا جائے چند دنوں یا مہینوں میں انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے اللہ پر پختہ یقین اور پھر دن رات کی انتھک محنت کو اپنا شعار بنانا ہو گا اس ملک کی تعمیر نو ہم سب نے مل کر کرنی ہے ۔

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas