Episode 61 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 61 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

فقیرانہ آئے صدا کر چلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاجی غلام قمر
ایک دن میں نے دیکھا کہ حاجی غلام قمر صاحب اپنی آبائی جامعہ مسجد کے باہر دروازے کے بلکل پاس ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے ناجانے اپنے رب سے کیا مانگ رہے تھے ۔میں قریب گیا تو حاجی صاحب سے پوچھنے کی کوشش کی کہ آپ آج رب ذولجلال سے کیا مانگ رہے ہیں کہ مسجد کے اند ر جانے کے لیے بھی آپ کے پاس وقت نہیں ہے ۔
تو کہنے لگے بیٹا مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے قبولیت کا وقت بس یہی ہے۔لہذا میں اللہ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر اللہ سے درخواست کر رہا ہوں کہ اے خالق و مالک میرے ارد گرد بسنے والے ہر مسلمان کو سکون اور حلال روزی عطا فرما۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ اس کائنات میں اتنی خوبصورت رنگ و بو کیوں ہے ۔اللہ کی ذات ہمارے گناہوں کے باوجود ہم پر اتنی مہربان کیوں ہے ۔

(جاری ہے)

یقینا اس لیے کہ کوئی ہے جو بغیر کسی خونی رشتے کے امت رسولﷺ کے لیے ہر نماز کے بعد اور ہر لمحہ دُعا گو رہتا ہے ۔اور جب کسی کی نیت اتنی صاف ہو اور خدا کے انصاف پر اتنا یقین ہو کہ وہ جب بھی مانگے تو دوسروں کے لیے مانگے ۔آج یہ درتی اگر قائم و دائم ہے تو ان انگلیوں پر گنے چنے لوگوں کی وجہ سے ہے کہ جن کا اٹھنا بیٹھنا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات پر چلنا اور مخلوق خدا کی فکرہے ۔
2جون 1938کو تحصیل راولپنڈی کے ایک معروف اور قدیم قصبے ساگری میں غلام حسین کے گھر پیدا ہونے والے غلام قمر نے بچبن ہی سے اپنے خاندان کی عزت اور توقیر بڑھانے کا عزم کر لیا ۔علاقے بھر میں علم اور روشنی کا مینار غلام قمر ایسا جگمگایا کہ اپنی عمر سے بڑے بھی فیض یاب ہوئے ۔اس لیے کہ بیواؤں اور یتیموں کی دعائیں لڑکپن ہی سے ان کے لیے سر فہرست تھیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا حاجی صاحب اسی دورکے انسان تھے کہ جن کے نیک اعمال نے ہزاروں بدکاروں کو راہ راست اپنانے پر مجبور کر دیا ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ شاہد آپ کو پتا ہے کہ مجھے گالی کی آواز سنائی نہیں دیتی تو میں ان سے کہا کرتا تھا کہ انسان کو وہی آواز سنائی دیتی ہے جو اس کی روح میں رچ بس چکی ہو ۔اسی لیے تو آپ گہری نیند میں اپنے بستر میں ہونے کے باوجود آذان کی پہلی آواز جو ہمارے گاؤں سے کوسوں میل دور ایک بزرگ دیا کرتے تھے سن کر اپنی مسجد کی طرف چل پڑتے تھے ۔
یہ اس لیے کہ آپ کی روح اور دل و دماغ ایسی آوازیں سننے کا متلاشی رہتا ہے ۔یقینا وہ بزرگ اور حاجی صاحب ان لوگوں میں سے ہیں کہ جو مر کر بھی امر ہو جایا کرتے ہیں ۔کسی شاعر نے یہ شعر حاجی صاحب جیسے عظیم انسانوں کے لیے ہی کہا ہے ۔
کو س ِ قزاح کے رنگ تھے ساتوں جس کے لہجے میں 
ساری محفل بھول گئی، وہ چہرہ یاد رہا
میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول ساگری سے پاس کیا۔
کمرشل کالج سر گودھا میں شارٹ ہینڈ کی تعلیم نمایا ں پوزیشن سے حاصل کی ۔ 40برس تک بطور سٹینو گرافر اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور منسٹری آف ڈیفنس میں اپنی خدمات سر انجام دیں۔اور 1996میں ریٹائر منٹ لے لی ۔فارغ ہونے کے بعد جب وہ اپنے گھر واپس آئے تو بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ کسی بھی پوزیشن پر آپ کام کریں تو ہمارے لیے خوشی کی بات ہو گی ۔
ان درخواست گزاروں میں میں بھی شامل تھا۔ حاجی صاحب شروع ہی سے مجھ سے بہت پیار کیا کرتے تھے ۔شاید اس لیے کہ میں نعت رسول مقبولﷺ پڑتا تھا اور آج بھی الحمدوللہ پڑتا ہوں ۔وہ مسجد کمیٹی کے خزانچی بھی تھے اور دن رات اہل محلہ سے درخواست کیا کرتے تھے کہ اللہ کے دیے ہوئے میں سے مسجد کے فنڈ میں ضرور دیں ۔مختصر یہ کہ میں نے بھی حاجی غلام قمر صاحب سے درخواست کی کہ ہم کوئی ایسا کام کریں کہ جس سے ہم اور خاص کر کے آپ مصروف بھی ہو جائیں اور روزگار کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی آسانیوں کا سبب بھی بنیں ۔
میری یہ بات سن کر مجھے ایسے لگا کہ جیسے حاجی صاحب کے دل کی بات میں نے کر دی ہو ۔پھر میں نے دیکھا کہ یک دم حاجی صاحب کے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ "ہمارے ادارے کا نام ہو گا صابر ٹائپنگ اینڈ شارٹ ہینڈ سینٹر"میں نے ان کے حکم پر لبیک کیا اور چند دنوں میں اس ٹریننگ سینٹر کا آغاز کر دیا ۔چند ہی سالوں میں ان کے شاگرد ملک پاکستان کے مختلف اداروں میں ملت کی تعمیر میں معمار بن کر ابھرے اس ٹریننگ سینٹر میں نہ صرف طالبعلم پڑتے تھے بلکہ بیواؤں کے مسائل حل کرنے کے لیے حاجی صاحب نے اپنا دن رات ایک کر دیا ۔
سینکڑوں بیواؤں کے پنشن کے مسائل حاجی صاحب کے ہاتھ سے پایہ تکمیل تک پہنچتے میں نے اکثر دیکھا کہ حاجی صاحب لوکل ٹرانسپورٹ میں راولپنڈی شہر جی پی او جا کر اپنی جیب سے خرچ کر کے ان خواتین کے لیے باقاعدہ پنشن کا بندوبست کرواتے اور دعائیں سمیٹتے ۔اکثر جب میں ادارے کا چکر لگاتا تو حاجی صاحب کو سر پر ہاتھ رکھے کچھ سوچتے ہوئے دیکھتا تو میرے پوچھنے پر جواب ملتا کہ فلاں گاؤں کا ایک لڑکا جس نے اس ادارے سے ٹریننگ حاصل کی ، کافی دنوں سے بے روزگار ہے مجھے اس کی فکر ہو رہی ہے ۔
میں ان سے کہا کرتا تھا کہ اتنا پریشان مت ہوا کریں تو مجھے کہتے کہ کیا کروں یہ سب بچے مجھے اپنی اولاد کی طرح لگتے ہیں ۔اور پھر چند ہی دنوں میں مجھے اپنے پاس بُلاتے اور خوشخبری سنا رہے ہوتے کہ جس بچے کے لیے میں اداس تھا اسے اللہ کے فضل سے نوکری مل گئی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس چھوٹے سے ادارے نے اتنے نوجوانوں کو روزگار عطا کیا کہ شاید وہ ادارے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان پڑتے ہیں وہاں بھی اتنی تیز رفتاری سے روزگار کا حصول ممکن نہیں تھا اور یہ سب اس لیے کہ حاجی صاحب سر سے اتارنے والا کام نہیں کیا کرتے تھے بلکہ مخلوق خد ا کی فکرکا جذبہ لے کر یہ ادارہ انہوں نے بنایا تھااس بات کا اندازہ ہم یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ نماز کے اوقات میں ادارے کے باہر گیٹ پر لکھا ہوتا تھا کہ "وقفہ برائے نماز"محفلوں کی جان اور علاقے کی برکت حاجی غلام قمر دعاؤں کا ایک سمندر تھا ۔
ہاتھ اٹھتے ہی اللہ کی ذات ان کو نواز دیا کرتی تھی میں تو خاص طور پر ہر کام سے پہلے اپنے والدین کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان سے ضرور دعا کروایا کرتا تھا ۔مجھے ایسے لگتا تھا کہ جیسے ان کی سفارش کے بغیر میری ذاتی دعا دو قدم بھی آگے نہ جا سکے گی کیونکہ میں گناہ گار تھا اور ہوں مگر حاجی صاحب کی ایمانداری شفاف جوانی صاف گوئی اور بے داغ ماضی کو ساری دنیا جانتی تھی ۔
اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ زبا ن خلق کو نقارہ خدا سمجھو ۔ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ حاجی صاحب ہمیں کبھی چھوڑ کر چلے جائیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ ہم انہیں گزرے ہوئے کل کی طرح یاد کریں گے ۔ان کے بیٹے منور حسین شاد جوکہ میرے اساتید مکرم میں سے ہیں جب بھی ملتے تو اپنے گھر آنے کی دعوت ضرور دیتے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ حاجی صاحب مجھے دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے۔
میں اکثر ان کے گھر ان کے پاس بیٹھ کر چائے کا ایک کپ پی کر اور ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ واپس آتا ۔
اشک بہہ بہہ کر میرے خاک پہ جب گرنے لگے 
میں نے تجھ کو اور تیرے دامن کو بہت یاد کیا
عاجزی انکساری شرافت اور کم گو ایسے کہ خاموش رہ کر بھی بہت کچھ کہہ جایا کرتے تھے کیونکہ سمندر ہمیشہ خاموش ہوا کرتا ہے ۔اپنے والد گرامی کی وفات کے بعد نہ صرف اپنی اولاد کو بلکہ اپنے بھائیوں کی اولاد کو بھی ایسے سائبان کی طرح ڈھانپ دیا کہ جیسے وہ ان کی اپنی اولاد ہو ۔
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ حاجی صاحب کی اولاد زیور علم سے آراستہ خودداری کے ساتھ علاقے بھر میں میٹھے پانی کے چشمے کی طرح بلکل ایسے ہی آسانیاں بانٹ رہی ہے جیسے حاجی صاحب خود آسانیاں اور آسائشیں تقسیم کیا کرتے تھے۔ حاجی صاحب زندگی میں کبھی بھی تنگ دست نہیں پائے گئے یہاں تک کہ دوران سروس آپ کو سرکاری خرچ پر حج کی سعادت نصیب ہوئی ۔ورنہ لوگ کروڑ پتی ہونے کے باوجود نبی ﷺکی گلیوں کی خاک کے لیے ترس جایا کرتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ ایک لمبا عرصہ حاجی صاحب بیماری کی حالت میں بستر پر پڑے رہے اور ایک دن اچانک اپنے گھر والوں کو بُلا کر ایک جملہ بول کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا اور وہ جملہ یہ تھا "میری فائل CLOSEکر دی گئی ہے، اللہ خافظ مجھے ہسپتال نہیں لے کر جانا" 25مئی 2012بروز جمةالمبارک دن12بجے حاجی صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔اپنی قبر کی نشاندہی خود کی اور کفن کا کپڑا تک اپنے ہاتھوں سے خریدنے والا عظیم انسان ہم سب کو چھوڑ کر چلا گیا ۔
برا ہو ں جیسا بھی ہوں تیرا ہی بندہ ہوں یا رب 
پیدا ہوتے ہی کلمہ سنا تھا مرتے وقت بھی نصیب کرنا
ہم نے دیکھا کہ وفات سے بہت پہلے ہی حاجی صاحب اللہ اور اس کے رسول کی باتیں کر رہے تھے خاص طور پر کلمہ تو ہر وقت ان کی زبان پر جاری رہتا تھا ۔کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ "اگر تمہاری آنکھیں صحت مند ہیں تو تم دنیا سے محبت کرو گے لیکن اگر تمہاری زبان صحت مند ہے تو دنیا تم سے محبت کرے گی"خدا گواہ ہے کہ حاجی صاحب کی آنکھیں اور زبان دونوں صحت مند تھے کیونکہ وہ لالچ سے مبرا تھے ۔
ایک موقع پر حاجی صاحب نے ایک خوبصورت بات کی جو آج تک میرے ذہن پر نقش ہے وہ یہ کہ "مقابلے کا پہلا میدان تمہارا نفس ہے ۔اس سے جنگ کر کے خود کو آزما لو کہ آزاد ہو یا غلام "اللہ سے دعا ہے کہ وہ حاجی صاحب کو جنت کی اعلیٰ ترین منازل عطا فرمائے اور زیارت ِرسولﷺ نصیب کرے ۔
فقیرانہ آئے صدا کر چلے 
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے 

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas