Episode 30 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 30 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

مزدور سارے کام پر افسر سارے چھٹی پر 
بعض ماہرین کے نزدیک جب ایک معا شرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک مزدور ترقی کر کے اُوپر والے طبقے میں چلا جائے تو اسے معاشرتی حرکت پزیری کا نام دیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک موچی کا بیٹا ڈاکٹر بن جائے یا ایک لوہارکا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی محنت اور کاوش سے ایک بہترین سرکاری افسر بن جائے۔
یہ وہ حرکت پذیری ہے جسے ایک بہترین حرکت پذیری کا نا م دیا جا تا ہے ۔اگر ہم اپنے ملک کے غریب اور غیر ہنر مند مزدور کی بات کریں تو وہ ایک پیشہ یا کام چھوڑ کر اسی درجے اور نوعیت کا دوسرا پیشہ اختیار کر لے اور جس کا معاوضہ بھی پہلے جتنا رہے تو اسے اُس کی متوازی حرکت پذیری کہا جائے گا ۔ اسی طرح جب کوئی مزدور نچلے درجے سے ترقی کر کے اعلیٰ درجے کے کام میں چلا جائے اور اُس کا عہدہ اور معاوضہ دونوں بہتر ہو جا ئیں تو اس کو عمودی حرکت پذیری کا نا م دیا جا تا ہے ۔

(جاری ہے)

بلکل ایسے ہی جب کوئی انسان ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اسی کام میں یا اس سے اعلیٰ درجے میں چلا جائے تو اسے جغرافیائی حرکت پذیری کا نا م دیا جاتا ہے ۔مثلاایک مزدور لاہور چھوڑ کر کراچی چلا جائے یا ایک گاؤں کا مزدور شہر میں آجائے یا ایک پاکستانی مزدور بہتر روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک چلا جائے ۔یہ حرکت پذیری کی وہ صورتیں ہیں جو پوری دنیا میں مروجہ ہیں لیکن اگر ہم اپنے اس قا ئدکے شہر کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی لاڈوں میں پلا کسی ماں کا لخت جگر اپنے سب گھر والوں کو الوداع کہہ کر سب سے پہلے گاؤں چھوڑ کر شہر آتا ہے یا پھر ایک شہر چھوڑ کر دوسرے شہر جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہہ ملک چھوڑ کر دیار غیر میں اپنے سب پیاروں سے دور صرف اس لیے چلا جا تا ہے کہ اپنے والدین کے بڑھاپے کی تکالیف کو آسانیوں میں تبدیل کر سکے ، چھوٹے بہن بھا ئیوں کی تعلیم وتربیت اچھے انداز میں ہو جا ئے یا بہن کے ہاتھ پیلے ہو جائے وغیرہ وغیرہ ۔
یہ وہ خوبصورت کردار کے غازی نوجوان ہوتے ہیں کہ جو اپنی ان روایات کو اپنے کردار کی طاقت سے اور محنت سے مزید حسین بنا دیتے ہیں ۔ان نوجوانوں میں کچھ پڑھے لکھے اور زیادہ تر اَن پڑھ مزدور ہوتے ہیں ۔یاد رہے کہ ہر قسم کی ذہنی اور جسمانی محنت یاکام کو مزدوری ہی کانام دیا جاتا ہے ۔لیکن افسوس کہ ہمارے اس ملک میں مزدور صرف اسی شخص کو کہاجاتا ہے جو کہی اور بیلچے سے کام کرتا ہو لیکن ایک اور قابلِ دکھ بات یہ ہے کہ ان پڑھ اور بے ہنر مزدور ں کی تعداد ہمارے پاکستان میں اَن گنت ہے ۔
جب کسی مزدور کا بیٹا یابیٹی بھوک سے نڈھال ہو تے ہیں تو ایک طرف یہ زمین کانپ رہی ہو تی ہے تو طرف معصوم بچے اور بوڑھے والدین اور پھولو ں کی سیج پر سونے والے اور سونے کا نوالہ کھانے والے کی غیرت کا امتحان بھی لے رہے ہو تے ہیں ۔یاد رہے کہ حساب کتاب اُس سے مانگا جاتا ہے جس کو کچھ رقم دے کر خرچ کرنے کو کہا جائے۔اُس شخص سے حساب ہر گز نہیں لیا جاتا کہ جس کو نقدی یا رپیہ پیسہ نہیں دیا جاتا ۔
لہذا اللہ کی ذات اس مزدور سے حساب یا اخراجات کے حوالے سے ہر گز نہیں پو چھے گی کہ جسے ایک دیہا ڑی دار مزدور بنا کر دنیا میں بھیجا گیا ہے لیکن وہ ذات دولت مند افراد کی دولت کے مطابق روز قیامت ان سے اسی دولت کے بارے میں ضرور پوچھے گی کہ وہ کہاں خرچ ہوئی؟لہذا وہ ذات انسان کو دے کر بھی آزما ء رہی ہے اور محر وم رکھ کر بھی۔ملک پاکستان کے مزدور کے دن رات کیسے گزرتے ہیں اس کا اندازہ اس ملک کے ہر انسان کو ہے۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ کچھ پاکستانی بھائی سعودی عرب میں بہتر آمدنی کی غرض سے ایک زیرِتعمیر عمارت کی چھت تعمیر کر رہے تھے کہ وہ چھت گِر گئی اور دس نوجوان مزدور اپنے بہن بھائیوں ،والدین اور بیوی بچوں سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے ۔کیا کیا مستقبل کے منصوبے لے کر ہر صبح آغاز اس آس پر کرتے ہو ں گے کہ جب اپنے ملک اپنے گھر والوں کو ڈھیر سارے پیسے بھیجوں گا تو میرے گھر کی غربت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔
میرے گھر والے خوشحال زندگی گزاریں گے اورجب میں واپس جاؤں گا تو خوشحالی لے کر جاؤ ں گا لیکن اس رزق کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا مزدور مر کر بھی چین نہیں پا سکتا ۔آج اگر ہم اس ملک کے دروبام کا بغور جائز ہ لیں تو ایک شخص جو فجر کی اذان کے ساتھ نماز پڑ ھ کر سبزی منڈی یافروٹ منڈی کے لئے روانہ ہو تا ہے اور سارا دن اور رات گئے ریڑھی پر ہاتھ رکھے اور آوازیں لگاتے ہوئے گلی گلی رزق کی تلاش میں گھومتا ہے۔
لیکن جب گھر واپس آتاہے تو ساتھ ہی صبح کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے اور اسی طرح ایک مزدور مرتے دم تک بغیر کسی ترقی کے مزدور ہی رہتا ہے ۔ وہ نہ تو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور نہ اپنی ہی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوا سکتاہے۔ حتی ٰ کہ بوڑھے والدین کی کھانسی اور بخا ر کی دوا تک پوری نہیں کر سکتا اور اس کی ذات کا یہ عالم ہے کہ 
سو جاتا ہے فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر 
 مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا 
اس خوبصوت دھرتی کے تاریک پہلو اس قدر تاریک ہیں کہ ان کو سوچ کر اور جان کر دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے ۔
خاص طور پر جب کسی کی بوڑھی ماں صفائی کرنے والے کپڑے ٹریفک سگنل پر فروخت کر رہی ہو تی ہے تو دل خو ن کے انسو روتاہے اوراس سرزمین پر جب کوئی بوڑھا والد سرپر ٹوکری رکھے پھیری لگا رہا ہو تا ہے جبکہ یہ دن تو اس کے آرام کے دن ہو تے ہیں لیکن وہ اپنے آرام کو قربان کر کے دوسرے کو آرام پہنچانے کو ترجیح دیتے ہیں
اس شہر میں مزدور جیسا دربدر کو ئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کو ئی نہیں 

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas