Episode 29 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 29 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

علم کے موتی بکھیرنے والے 
چند دن قبل ملکِ پاکستان کے معروف کالم نگار اور ہر دلعزیر علم دوست شخصیت زاہد حسن چغتائی اور میں اسلام آباد سے راولپنڈی روانہ ہوئے تو ہماری نظر اس دھرتی کے مردِقلندر پر پڑی جن کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ متعدد اخبارات اور رسائل کے کامیاب ایڈیٹر رہ چکے ہیں اور موجودہ دور میں ایک سینےئرکالم نگار کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
جی ہاں ، جس ہستی کا ذکر میں کر رہا ہو ں اسے جبا ر مرزا ہی کہتے ہیں آپ روز نامہ جنگ کے ان لکھاریو ں میں شامل کیے جاتے ہیں جنھوں نے نئی نسل اور معماروں کے لیے علم کے موتی بکھیرنے میں اہم کردار اداکیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہستیا ں اتنی نایاب اور ناپید ہو چکی ہیں کہ جب کبھی ان سے ملاقات ہو جائے تو ان سے جداہونے کا جی نہیں چاہتا۔

(جاری ہے)

نفسیات کو اتنی جلدی یہ علم کے سمندر لو گ سمجھ جاتے ہیں کہ انسان کی عقل ماننے سے ہر گز انکا ر نہیں کر سکتی ۔

مجھے دیکھتے ہی کہتے ہیں کہ ماشااللہ آپ لکھتے بھی اچھا ہیں اور خاص طور پر آپ نبی ﷺ کی نعت لکھتے ہیں جس کاکوئی ثانی نہیں ہے لیکن اگر آپ اپنے غصے پر کنٹرول کر لیں تو آپ کی شخصیت میں مزید نکھا ر آسکتاہے۔ اسی لمحے میں نے سوچا کہ آج کل واقعی ہی مجھے غصہ جلدی آجاتا ہے لہذا میں نے ان کی بات سے اتفاق کیا اور اعتراف جر م بھی کر لیا۔لیکن حیرانگی کی بات یہ بھی ہے کہ وہ مجھے پہلی دفعہ مل رہے تھے اور بات انھو ں نے وہ کر دی جو صرف کو ئی لنگوٹیا ہی کر سکتا ہے۔
محترم ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی اور جبار مرزا اپنی جوانی اور لٹر کپن کی باتیں کرتے کرتے مسرور کن خیالوں میں کھوجاتے اور میں خود کو اس دور کی کہانی کا حصہ سمجھ کر ان خوابوں میں گم ہو تا چلاگیا۔ باتوں باتوں میں محترم جبار مرزا نے میری کتا ب کے حوالے سے لکھے گئے چند حضرات کے الفاظ جب پڑے تو ایک صفحہ ایسا بھی پایا گیا کہ جس پر پروفیسر حسن اختر کی تحریرنظر آئی تو ڈاکٹر زاہد اور جبار مرزا کی کہانی نے ایک نیا لبادہ اوڑھ لیا۔
کہنے لگے کہ ہم ایک دوسرے کے ہاتھو ں کی لکیروں کو پڑھاکرتے تھے گھنٹوں ایک ہی موضوع کو لے کر اس کے بے شمار پہلوؤں پر بحث اور سیر حاصل گفتگوکرتے کرتے فیصلہ کن مراحل میں چلے جایا کرتے تھے۔ ان دو شخصیات کا شمار چونکہ میرے اساتذہ میں ہو تا ہے اس لئے میں بچو ں کی طرح ان کی باتوں کو سن راہا تھا۔ یاد رہے کہ یہ ملاقات اور گپ شپ میرے گھر کے ڈائننگ ٹیبل پر جاری رہی۔
میں نے ضد کر کے ان دونو ں قدآور شخصیات سے درخواست کی کہ میرے گھر پر ایک کپ چائے پی کر مجھے شکریہ کا موقع دیں لہذا مقاصد سچے ہو ں تو خدا کی ذات کامیابی سے ہمکنار کر ہی دیا کرتی ہے ۔ہمیشہ کی طر ح اس بار بھی بے بہا علم کے مالک زاہد حسن چغتائی کی چائے ایک دفعہ پھر ٹھنڈی ہو گئی کیونکہ علم و دانش کی باتیں اشیاء خوردونوش سے زیادہ قیمتی ہو تی ہیں۔
بہرحال میں تھا اور میرے چاروں طرف خلوص میں ڈوبے ہوئے جملو ں کی رم جھم مجھے معطر اور علم والا بنا رہی تھیں ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔
آج جاگیروں اور جائیداوں کی خواہش اور فراوانی نے ہمیں اند ھا کر رکھا ہے اوریہ خواہشات ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں ان دو دانشوروں کی باتو ں کو سنتے سنتے میں خو د کو بے علم تصور کرنے لگا لیکن ایک لحاظ سے خود کو خوش قسمت سمجھ رہا تھا کہ کم از کم یہ پتا چل گیا کہ واقعی گود سے گو ر تک علم حاصل کرنے کی خواہش اور تگ ودوہر انسان کے لئے اولین در جہ رکھتی ہو توتب جا کر انسان تھوڑا بہت تعلیم یاقتہ ہو سکتا ہے۔
ایک گھنٹہ ایسے گزرا کہ جیسے چند لمحے بیتے ہو ں۔ کہاجاتا ہے کہ جانے والوں کو کبھی کوئی روک نہیں سکتا ۔یہ جانے والے آپ کے گھر کی دہلیز عبور کر رہے ہو ں یا اس دنیا کی دہلیزچھوڑرہے ہوں۔اچانک جب ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی اور جبار مرزا نے مجھ سے اجازت مانگی تومجھے محسوس ہوا کہ علم کے موتی بکھیرنے والے واقعی نایاب اور کم یاب ہوا کرتے ہیں ۔مجھے مجبوراََ ان کی اجازت قبول کرنا پٹری کیونکہ یہ درویش صفت لوگ من کے سچے اورکھرے استاد ہوا کرتے ہیں جو جاتے جاتے علم کے خزانے لٹانے کے باوجوداجازت طلب کر کے طالب علم کو زیور علم سے نواز دیا کرتے ہیں ۔

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas