Episode 43 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 43 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

احتسابِ نفس ۔۔۔۔۔۔ماہِ صیام
ایک آدمی بال کٹوانے نائی کی دکان پرگیا۔ باتو ں باتوں میں نائی کہنے لگا کہ مجھے اللہ پر یقین نہیں ہے۔ اس آدمی نے پوچھا کیوں ۔نائی جو شیلے انداز میں کہنے لگا اس دنیا میں اردگرد نظر دوڑئیں اور دیکھیں کہ کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ لوگ بھوکے اور پیاسے ہیں۔ غربت سے بے حال ہو رہے ہیں۔ عوام کی کوئی عزت نہیں ہے۔
گویا تمام لوگ بے یارومددگار ہیں ۔ اس آدمی نے اس سے کوئی بحث نہیں کی اور کہنے لگا کہ ایک لمحے کیلئے مجھے اردگرد دیکھنے دو۔ کیونکہ تم نے ہی کہا ہے کہ ذرا اردگرد دیکھو۔ اس نے ایک شخص کو دیکھا اور نائی سے کہا کہ اس شخص کو غور سے دیکھو اس کی داڑھی کتنی میلی اور عجیب طریقے سے بڑھی ہوئی ہے۔ لگتا ہے اس دنیا میں کوئی نائی نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

نائی چونک اٹھا اور کہنے لگا آپ کیسی بات کر رہے ہیں ۔

آپ میرے پاس بال کٹوانے ہی تو آئے ہیں۔اس آدمی نے کہا تم تھوڑی دیر اپنا کام چھوڑ کر باہر دیکھو کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جن کے بال بری طرح بڑھے ہوئے ہیں اور خستہ حالی کا شکار ہیں۔لگتا ہے اس دینا میں نائی کوئی نہیں ہے۔ اس پر نائی کو غصہ آ گیا اور کہنے لگاکہ ان سب کے بال اس لئے بڑھے ہوئے ہیں کہ یہ میرے پاس نہیں آتے ۔اب میں ان کے پیچھے بھاگوں کیا؟ وہ آدمی مسکرایا اور کہنے لگا کچھ اسی طرح کا معاملہ آج کی مخلوق کے ساتھ بھی ہے کہ وہ اللہ کی طرف دو قدم بھی چلنا گوارا نہیں کرتے بلکہ الٹا گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں تو اللہ ان کے حال پر کیسے رحم فرمائے ؟ اس واقع کے بعد ہم رمضان المبارک کی خوبصورت اور پر کیف ساعتوں پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ رمضان اور اس کی براکات کتنی زیادہ ہیں۔
اس ماہ مقدس میں ایک اچھے عمل کا ثواب دیگر مہنوں کی نسبت 70گنا زیادہ ملتا ہے۔ اللہ کی ذات بار بار فرماتی ہے کہ اے انسان واپس پلٹ آ کہ یہ گھڑیاں واپس نہیں آئیں گی لیکن تم نے ہماری طرف ہی آنا ہے۔ اس وقت اللہ اور رسولﷺ کی طرف کیا منہ لے کر آوٴ گے؟اللہ کی ذات انسان کو نوازنے کیلئے اسباب پیداکر رہی ہوتی ہے ۔ گویا وہ رب کریم نہیں چاہتا کہ آخری نبی ﷺ کی امت بروزحشر رسوائی اور ذلت کا سامناکرے۔
جہاں پر بے شمار طریقوں سے وہ ذات ایک ایمان والے کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہاں پر رمضان المبارک جیسا ماہ مقدس دے کر مسلمانوں کو بہت بڑا موقع دیتی ہے کہ اپنے گناہوں کی بخشش کروالیں۔ آج ہم اگر اردگرد کی طرف نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ آج میرے جیسا گناہ گار مسلمان اس ماہ مقدس کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اس دکاندار کی نماز اور روزے کا کیا فائدہ کہ وہ زیادہ سے زیادہ قیمتیں اور منافع وصول کر کے اپنی آخرت خراب کر رہا ہے۔
رشوت اور چور بازاری اسی طرح اپنے عروج پر ہے کہ جیسے رمضان المبارک سے قبل تھی۔2008 میں قیامت صغرابرپا کر دینے والے زلزلے میں اس دنیا نے کیا کیا منظر نہیں دیکھا ۔ گناہوں میں لت پت اس دور کے انسانوں پر اللہ نے اچانک پکڑ کی۔ اسلام آباد کا ایک بلند و بالا ٹاور جب زمیں بوس ہوا تو مرد وں اور عورتوں کی بے پردہ نعشیں برآمد ہوئی ۔ وہ بھی آج کے دور کے مسلمان ہی تھے کہ جو اس ماہ مقدس میں بھی ذلت اور رسوائی کی دلدل میں اس قدر پھنس چکے تھے کہ ان کی واپسی ناممکن تھی۔
لیکن ہم نے اس اللہ کی عطا کردہ آزمائش کے دوران بہت سے نیک بندوں کو ہاتھوں میں قرآن تھامے ہوئے بھی دیکھا۔ وہ میتیں بھی دیکھی کہ جو ایمان کی حدت سے سرشار تھیں۔ یقینا وہ شہید کی موت مرے۔ ماہ رواں پکار پکار کر ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ رمضان المبارک آپ کی زندگی کا آخری رمضان ہو اور اس کے بعد اللہ کی عطا کردہ یہ مہلت ختم ہو جائے گی تو پھر ہم کیا منہ لے کر اللہ کے حضور حاضر ہو نگے۔
یاد رہے کہ جس شخص کو اللہ نے دعا کی تو فیق دی ہو وہ قبولیت سے محروم نہیں رہ سکتا ۔ جسے استغفار کی تو فیق دی ہووہ مغفرت سے محروم نہیں رہ سکتا۔اور جس کو اللہ شکر کی تو فیق عطا کر دے وہ نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتا۔قابلیت اور کردار زندگی میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔قابلیت آپ کو بلندی تک پہنچاتی ہے جبکہ اچھا کردار آپ کو ہمیشہ بلند رکھتا ہے۔
یا اللہ بے شک تو سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں صرف تیرے لئے ہیں۔تو ہی اول و آخر ہے۔ یا اللہ ہم پر اپنا رحم و کرم کردے۔ تو مالک ہے ہم تیرے بندے ہیں اور گناہوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ہمیں بخش دے ہم سے راضی ہوجا۔ میں آج سب کی مرادیں مانگتا ہوں اور میری مراد بھی پوری فرما ۔اے رحیم و مہربان بے شک تم جیسا معاف کرنے والا بھی کوئی نہیں ۔ تو ہم سب کو معاف کر کے سیدھے راستے پر چلا دے۔
(آمین )ہمیں ہر لمحہ کو شش کرنی چاہیے کہ کسی انسان کا دل نہ دکھے۔ اسلام میں کسی کو خود سے کمتر سمجھنے کی سخت ممانعت ہے۔دوسروں کے عیوب اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جو شخص کسی کو بے آبرو یا بے پردہ کرتا ہے اللہ اس کے عیبوں کو ساری دنیا کے سامنے ظاہر کر دیتا ہے۔ حتا کہ گھر کے اندر موجودرہ کر بھی انسان کو بے پردہ کر دیا جاتا ہے۔
عاجزی اور انکساری انسان کا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہیے۔ تکبر انسان کا وصف نہیں ہے۔ یہ اللہ کی ذات کو زیب دیتا ہے جس نے کل کائنات بنائی۔ یہ ماہ مقدس وہ سنہری ایام ہیں کہ جن کی برکت سے ہم تما م لغو باتوں اور دیگر برائیوں کا قلع قمع کر سکتے ہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
نگاہ عیب گیری سے جو دیکھا اہل عالم کو 
کوئی کافر کوئی فاسق کوئی زندیقِ اکبر تھا
مگر جب ہو گیا دل احتسابِ نفس پر مائل 
ہوا ثابت کہ ہر فرزندِ عالم مجھ سے بہترتھا

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas