Episode 7 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 7 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

سانحہٴ پشاور کے معصوم شہداء
آج لکھتے ہوے ٴیہ قلم لرز رہا ہے میں لکھوں تو کیسے لکھوں کہ وہ میرے اپنے ہی بچے تھے جن کو جاتے ہوے ٴ ماں نے سختی سے منع کیا ہو گا کہ بیٹا کپڑوں پر سیاہی مت لگانا یہ داغ صاف نہیں ہوتے۔لیکن انہیں کیا معلوم تھاکہ اُن کے لخت جگر خون کے ان مٹ داغ لے کر آئیں گے۔کل بھی سکول جاتے ہوے ٴ سینکروں ماوٴں کے راج دلاروں نے اپنے والدین سے کئی وعدے لیے ہو نگے کہ واپسی پر میں نے یہ کھلونا لینا ہے اور پارک بھی جانا ہے۔
میں لکھوں تو لکھوں کیسے کہ وہ میرے زازے اور ولی جیسے پیارے پھول تھے ۔ جب میں اپنے اِن بیٹوں کی طرف آج صبح دیکھ رہا تھا کہ یہ کتنے ہشاش بشاش ہیں کہ ایک دن بعد سکول سے چھٹی ملے گی۔اس لمحے میں نے سوچا کہ ان معصوم کلیوں کو کیا پتہ کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں امتحانات دینے والے کتنے بچے چھٹیوں کے انتظار میں تھے۔

(جاری ہے)

اور قدرت نے ان کو چھٹیوں سے پہلے ہی نہ ختم ہونے والی رخصت پر بھیج دیا ہے۔

آج میرے اس قلم کی روشنائی مجھے سرخ محسوس ہو رہی ہے کہ ان معصوموں کا اتنا خون بہا کہ اس ملک اور اس مظلوم پاکستان کا کونہ کونہ خون کی نمی سے پر نم ہے۔کل ہم بنگال کی علیحدگی پر رو رہے تھے اور آج میں اُن معماروں کی علیحدگی پر رو رہا ہوں کہ جنہوں نے اس پاکستان کو کئی بنگال بنا کر دینے تھے۔پہلے میرا قلم سوچ سوچ کر چلتا تھا اور آج نہ جانے کیوں بِنا سوچے سمجھے چلتا جا رہا ہے بلکل اس نیم پاگل باپ کی طرح جو بِنا سوچے بِنا سمجھے کمزور کمر کے ساتھ اپنے لخت جگر کے تابوت کو نہ چاہتے ہوئے بھی قبرستان کی طرف لے کر جا رہا ہے۔
آج اس جیسے کئی والدین کا نام ملکی تاریخ کے بدترین سانحہ اور عالمی تاریخ کے سب سے بڑے سفاک سانحہ کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔نہ جانے کتنی لمبی حیات خُدا ان کے مقدر میں لکھے کہ جن کے ہاتھوں میں چند دن پلنے والے معصوم بچے چند لمحوں کی حیات کے بعدان کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر آہ وزاری اور سسکیاں لیتے ہوئے بس ایک ہی ہچکی میں چل بسے۔ارے یہ تو وہ والدین ہیں کہ جو اولاد کو کانٹا چھبنے پر بھی خود کو خنجر سے زخمی کر دیا کرتے تھے۔
یہ تو وہ والدین ہیں کہ بارش کے وقت چھتری اور گرمی اور دھوپ میں اپنے بچوں کے سر پر ٹوپی رکھ کر انہیں رخصت کیا کرتے تھے۔آج ان کی حالت زار کیا ہو گی کہ ان کا لنچ باکس اسی طرح واپس آگیا۔اگر وہ زندہ ہوتے تو اپنی ماوْں سے ڈھیر ساری ڈانٹ کھاتے کہ تم ا سلیے کمزور ہو کہ وقت پر کھانا جو نہیں کھاتے۔لیکن اس دفعہ ان کی کوئی غلطی نہیں تھی ۔ وہ تو کھانا چاہتے تھے مگر موت ہے کہ سنھبلنے کا وقت ہی نہیں دیا۔
آج week endکی شام نہ جانے کیوں خاموش ہے۔آج پبلک پارک میں کیاریوں میں کھلے پھول ہنستے کھیلتے پھول جیسے بچوں کے منتظر ہیں ۔لیکن نہ جانے اِن کے دوست آج کیوں نہیں آئے۔پارک کے دروازے پر کھڑے نبدوق اُٹھائے ایک نوجوان نے اپنے بازو پر سیاہ رنگ کی پٹی پہن رکھی ہے۔اور وہ آنسوو ٴں کی لڑی پرو کر اس کی مالا بُن کر زمین پر گرا رہا ہے۔حالانکہ آنسو تو وہ قیمتی موتی ہوتے ہیں جن کے مقابلے میں ہیرے اور جواہرات بھی کم قیمت ہیں۔
میرا یہ قلم تیز رفتار چلتے چلتے نہ جانے کیوں اچانک رک جانے کی خواہش میں ہے۔ہم لکھنے والے بڑے حوصلے کے مالک ہوتے ہیں۔مگر آج میں خود پر حیران ہوں کہ میں بھی حوصلہ ہار بیٹھا ہوں ۔لیکن نااُمید نہیں کہ نااُمیدی کفر ہے۔آج میں خستہ حال ضرور ہوں اور سوچتا ہوں کہ اس دھرتی ماں کے ساتھ اس کے بعد اگر کچھ ہوا تو مجھ جیسے سینکڑوں اپنا حوصلہ ہار بیٹھیں گے۔
وہ مضبوط کمر اور دل کہاں سے لائیں کہ جو ہر لمحے معصوموں کی لاشیں اُٹھاسکیں۔سانحہ پشاور کی شام میں نے دیکھا کہ ایک ماں ایمبو لینسوں کے شیشوں سے جھانک کر اپنے بچوں کو تلاش کر رہی تھی،آج اس کے سر سے دوپٹہ بار بار سرک کر الگ ہو جاتا جو اپنی چادر کو ایک لمحے کے لیے سر سے جدا نہ ہونے دیتی تھی ۔ آج میری آنکھیں خون کے آنسو کیوں نہ بہائیں کہ وہ میری ہی بہن جیسی تھی ۔
ایک دوست نے بتایا کہ ایک گھر کے تین 3پھول دو بڑے بھائی اور ایک ننھی کلی صبح دوڑ دوڑ کر گاڑی میں بیٹھے کیونکہ انھوں نے چھٹی کے وقت دوڑ کر واپس آنا تھا۔لیکن وہ نہ آسکے۔آج سینکڑوں خاندان اپنی اولاد سے محروم ہو گئے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ اس ملک کی ایک نسل خون خوار درندوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئی ۔اس ملک کے معماروں کو اور مستقبل کے روشن ستاروں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔
اس موقع پر جنرل راحیل کے ایک جملے نے مجھے پُر نَم کر دیاکہ دہشت گردوں نے قوم کے قلب پر حملہ کیاہے۔ایک دس برس کے بچے کا عزم دیکھ کرمجھے اپنی قوم کے معمار پر رشک آیا۔وہ بچہ یہ کہہ رہا تھا کہ بڑا ہو کر ان بزدلوں کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ نہتے نوجوان پر حملے کو پوری دنیا میں بزدلی کا نام دیا جاتاہے۔یہ تو معصوم بچے تھے جو کرسیوں اور میز کے پیچھے چھپے ہوے ٴ تھے۔
ظالموں نے ان کو بھی نہ بخشا۔ آج ہم ایک روزہ سوگ کا اعلان کریں یا تین روزہ سوگ کا یا سو سالہ سوگ کا ارادہ کر لیں تو بھی کچھ نہیں بدل سکتا۔ اگر بدلنا ہے تو اپنے اندر کو بدلیں اس یقین کے ساتھ کہ اگر یہ معصوم بچے اور ان کے اساتذہ ایک لمحے میں اس دنیا کو چھوڑ گئے تو ہم نے بھی اسی طرح اچانک اس دنیاکو الوداع کہناہے۔ اس ظالم سانحہ میں دو افسراور پاک فوج کے سات جوان زخمی ہوے ٴ۔
بہادر فوج نے 960لوگوں کو بچایا۔ ظالموں نے ایک لیڈی ٹیچر کو ذندہ جلا دیا۔ اس قہر میں 141معصوم شہید ہوے ٴ ۔سات دہشت گرد وں نے عالم اسلام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔وہ عربی زبان بول رہے تھے اور بڑی تعداد میں اسلحہ ان کے پاس تھا۔دس سے پندرہ منٹ میں وہ پورے سکول پر قابض تھے۔ اس ملک کے حکمرانوں کو اپنی اولاد کو سامنے رکھ کر اس ملک سے وفاداری کا عہد کرنا ہو گا ورنہ سمندر کی لہریں یہ نہیں دیکھتیں کہ کوئی گورا ہے یا کالا۔
عربی ہے یا عجمی ۔کسی مزدور کا بچہ ہے یا کسی وزیر کا۔خدا کرے کہ اس ارضِ پاک پر اٹھنے والی ہر نگاہ تباہ و برباد ہو جائے۔اس ملک کو نیست ونابود کرنے کے منصوبے بنانے والے سن لیں کہ ان معصوم بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا کہ یہ ملک اللہ اور رسول ﷺکے نام پر بنا ہے۔لہذا اس کی حفاظت بھی میرا خدا ہی کرے گا۔
اور یہ کرسی کرسی کے کھیلنے والے ہماری ڈھال نہیں بن سکتے لہذا بقول شاعر 
شر پسندوں کو مارنے کے لیے 
پھر ابابیلیں بھیج دے مولا

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas