Episode 8 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 8 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

جب گلے ملے (نوازشریف ، آصف زرداری)
نواز شریف نے رضا ربانی کی حمایت کے ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ڈپٹی چےئرمین سینٹ کے لیے بھی ہم اُمیدوار نہیں لائیں گئے اور وعدہ نبھایا بھی ۔عام تاثریہی ہے کہ جمہوریت کی بقاء کے لیے رضا ربانی کی قربانیاں سر فہرست ہیں۔یہاں تک کہ عمران خان صاحب نے بھی فرما دیا کہ رضا ربانی موزوں ترین اُمیدوار ہے ۔
لیکن پی ٹی آئی ووٹ نہیں دے گی ۔شاید عمران خان صاحب کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ووٹ تو قوم کی امانت ہوتی ہے ۔شاید اسی لیے جمشید دستی نے فرمایا کہ خان صاحب نے قوم کو مایوس کیا اس لیے میں اپنی جماعت بناؤں گا ۔آصف زرداری صاحب کے عشائیہ میں پر تکلف کھانوں سے مہمانوں کی خاطر تواضع کی گئی مگر نہ جانے کیوں محترم نواز شریف نے کھانا نہیں کھایا اور چل دئیے۔

(جاری ہے)

شاید وہ ڈائٹنگ پرہوں چلیں خیر "دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے"۔وزیر اعظم نواز شریف نے pppکے نامزد اُمید وار برائے چئیرمین سینٹ رضا ربانی کو کھلے دل سے مبارک باد دی جو سب کو اچھی لگی لیکن ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کر دیا کہ کل کے اجلاس میں اگر مسلم لیگ ن کو بھی ُبلا لیا جاتا تو اچھا ہوتا۔مزیدار گپ شپ کے ساتھ شکوہ منسلک رہا ۔گفتگو کے دوران آصف زرداری نے بھی رضا ربانی کی حمایت کرنے پر نوازشریف کا کھلے دل سے شکریہ اداکر کے ماحول مزید خوشگوار بنا دیا ۔
شکوہ اور ضرورت گفتگو میں ایسے شامل تھے جیسے کھانے میں سلاد ۔ جو کسی کو پسند اور کسی کو اچھا نہیں لگتا ۔یعنی جاتے جاتے آصف زرداری صاحب نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ عام اراکین اور عوامی منصوبوں کے لیے فنڈ جاری کیے جائیں ۔اس سارے عمل کے دوران آصف زرداری ،اسفندیا رولی ،اسحاق ڈار اور دیگر چیدہ چیدہ لوگوں نے زیادہ گفتگو کی جبکہ معمول کی طرح وزیراعظم نواز شریف خاموش رہ کر اُنکے تجربات سے فائدہ اُٹھاتے رہے جسکا ثبوت وہ جلد ہی عملی طور پر دیکر قوم کو حیران وششدر کر دیں گے ۔
جیسا کہ خان صاحب آج کل اسی سوچ وبچار میں ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے ۔کیونکہ اس اجلاس میں PTIکے علاوہ سب سیاسی جماعتوں نے شرکت کی ۔آج وزیراعظم نے خود کو اکثریتی فیصلے کے سامنے سر نڈر کر دیا اور تمام جماعتوں کا اعتماد حاصل کر کے ہاری ہوئی جنگ جیت لی لیکن اتنے خوبصورت ماحول میں چوہدری نثار کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ۔اس بات سے آج پوری دنیا متفق ہے کہ جو ماحول اس ارض پاک پر اس موقع پر دیکھنے کو ملا وہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے قبل نہیں دیکھا گیاکہ دوبڑی سیاسی اور ایک دوسرے کی انتہائی مخالف جماعتیں باہم مل بیٹھی صرف اور صرف ملکی سا لمیت اور بقا کے لیے۔
وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری جب گلے ملے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ دو افراد نہیں بلکہ پوری قوم ایک دوسرے سے گلے مل رہی ہو ۔کاش یہ کام ہم نے بہت پہلے کر لیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی جسکا سامنا آجکا پاکستان کر رہا ہے ۔مگر کہا جاتا ہے کہ دیر آید دُرست آید" یقینادُشمن ممالک اور اندرون ملک کے دُشمنانِ پاکستان کو تشویش لا حق ہو گئی ہو گی کہ اُنکے تمام تر منفی پروپیگنڈے ناکام ہو گئے۔
عقل مندی اور حب الوطنی کا تقاضا یہی تھا کہ ملکی مفاد میں فیصلے کر کے ملک کو غربت وافلاس اور دشمنوں کے شکنجے سے آزاد کرایا جا سکے کیونکہ یہ ملک ہے تو ہماری سیاست ہے ۔اس ملک میں رہ کر جو عزت عوام اور حکمرانوں کو مل سکتی ہے وہ کسی دیار غیر میں ملنا نا ممکن سی بات ہے ۔صدر وزیراعظم اور وزراء حضرات کو ملنے والے پروٹوکول اِنکا حق ہے لیکن یہ حق اسی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہمارے حکمران ہر حال میں عرض پاک کی سا لمیت کو مدِ نظر رکھ کر ایسے ہی گلے ملتے رہیں جیسے نواز شریف اور آصف زرداری نے اتنے کڑے وقت میں عوام کو اِتحاد کا درس دیا ۔
اس وقت اس ملک کی معیشت کے تمام سیکٹرز کو حکمرانوں کے اِتحاد اور ملکی مفاد پرست فیصلوں کی اشد ضرورت ہے ۔موجودہ صورت حال کو اگر دیکھا جائے تو حکمرانوں کا آپس میں اِتحاد اور مل کر مسائل کو حل کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یہ نہیں چاہتی کہ جب کسی کا دل کر ے حکومتی کُرسی کو توڑنے کے لیے ہتھوڑے لے کر آجائے ۔سیاسی استحکام کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ چندماہ گزار کر حکومتوں کو بھگادیا جائے بلکہ سیاسی اِستحکام کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اپنے بہترین اقدامات کے ساتھ اپنے پانچ سال پورے کر یں۔
میرے خیال میں آج ہر پارٹی کے ہر رکن کو یہ باور ہو چکاہے کہ حکومتوں کا اپنی میعاد پوری کرنا بہت ضروری ہے ۔کیونکہ ترقی کے مراحل حکومتوں کے اِستحکام سے ہی طے پا سکتے ہیں۔ آج اس پاک سر زمین کے کونے کونے میں تباہی اور بربادی اپنے خیمے لگا چکی ہے جن کو جڑسے اُکھاڑنے کے لیے حکمرانوں کا مل بیٹھنا ضروری ہو گیا ہے۔ معیشت کو تقویت دینے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بنیادی شعبوں کے وزراء جیتے ہوئے اپنی پارٹی کی بندر بانٹ کی بجائے دیگر کامیاب اُمیدوار ان کو موقع دیں جنکا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہی کیوں نہ ہو لیکن شرط یہ ہے کہ یہ وزراء پڑھے لکھے اور بے داغ ماضی کے مالک ہوں ۔
آج رضا ربانی کا چناؤ جمہوریت پرست معاشرے کے تعارف کے لیے کافی ہے ورنہ چےئرمین سینٹ مسلم لیگ ن سے ہی ہوتا ہے ۔شاید یہ حکومت کے لیے وقت کی اہم ضرورت تھی لیکن ماضی میں اس ضرورت کے باجود کسی حاکم وقت نے اتنا حوصلہ افزافیصلہ کرنے کی جُرأت نہیں کی جو نواز شریف کے حصے میں آئی ہے ۔ اس سارے معاملے کو اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آصف زرداری اور وزیراعظم نوازشریف نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے ۔
ایک دوسرے کو شکوے اور شکایتیں اپنے پن کو ظاہر کیا کرتی ہیں ۔گونگی بہری حکومتوں سے بہتر ہے کہ اتحاد کے بندھن میں بندھی ہوئی با حوصلہ اور جفا کش قیادت سامنے آئے۔ اگر یہ فضا بحال رکھی جائے تو وہ وقت دور نہیں کہ اس ملک کے کونے کونے میں خوشحالی راج کرے گی۔غربت کا نام ونشان نہیں ہو گا ۔تعلیم عروج پر ہو گی ۔کشکول سے آزاد مملکت کا قیام آسان سے آسان تر ہوتا جائے گا ۔
زراعت وصنعت کو فروغ ملے گا جس سے بے روزگاری ختم کی جا سکتی ہے ۔یہ میری یا عوام کی خوش فہمی نہیں بلکہ یہ ہماری خواہش ہے جو کہ دعاکی شکل اختیار کر چکی ہے ۔اور مسلمانوں کا رب گناہگار ترین مسلمان کی دُعا کو بھی کبھی رد نہیں کرتا ۔بشرطیکہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی خوشی کے ناخن لیں اور آصف زرداری اور نواز شریف کی طرح گلے ملتے رہیں ۔

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas