Episode 41 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 41 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

تارا جو کبھی ٹوٹے تو ۔۔۔۔۔ڈاکٹر مجید نظامی
مجید نظامی ایک ایسے مرد مجاہد کا نام ہے کہ جس کا ازل سے یہ نعرہ تھا کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر بھارت سے دوستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ۔ آپ پاکستان کے بد ترین دشمن بھارت سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ ایک موقع پر پاکستان کے فوجی صدر ضیاء الحق نے انھیں اپنے ساتھ بھارت کے دورے پر جانے کی دعوت دی تو مجید نظامی کا خوبصورت جواب تاریخ میں سنہری حروف سے لکھ دیا گیا ” اگر آپ ٹینک پر سوار ہو کر میرے ساتھ بھارت جانے کی ہمت رکھتے ہیں تو میں تیار ہوں یعنی بلٹ پروف گاڑی میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا “ نظریہ پاکستان کے عملی مجاہد اور محافظ کا نام مجید نظامی ہے ۔
نبی ﷺکے شہر کی گلیوں اور روزہ رسول ﷺ کی بار بار زیارت کے باجود باتیں کرتے کرتے اپنی آنکھیں ایسے نم کر لیتے تھے کہ جیسے کبھی گئے ہی نہیں ۔

(جاری ہے)

آپ کے بڑے بڑے کارناموں میں ایک کارنامہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا قیام بھی ہے۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ لوگ نظریہ کے نام پر ہمارا مذاق بناتے ہیں کہ نظریہ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ میں ایسے بے عقل لو گوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نظریہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا ۔

اگر نظریہ تبدیل ہو سکتا تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔ اس میں ہندو اور مسلم دو الگ الگ نظریات کے حامل لوگ الگ ہو گئے ۔ اگر نظریہ تبدیل ہو سکتا تو یہ قو میں دوبارہ ایک ہو جاتیں جو سرا سر اسلامی روایات کو نیست و نا بود کر دیتیں۔ آپ کہا کرتے تھے کہ یہ نظریہ ہی تو ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوا کہ ہندو بتوں کے پجاری اور ہم مسلمان بت شکن ہیں،تھے اور رہتے دم تک رہیں گے۔
نظریہ پاکستان اور قائداعظم محمد علی جناح سے اتنا پیار کرتے تھے کہ ہر وقت ان کی باتیں ہوا کرتی تھیں ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کی سوچ سے بے پناہ محبت اور مظلوم کشمیروں سے لگاوٴ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ایک اور جگہ پر آپ نے فرمایا کہ قائداعظم کا فرمان ہے کہ ہمارا آئین 1947 کی پیدائش نہیں یہ تو 1400 سال پہلے آیا تھا۔مجید نظامی بات کرتے تو پھولوں کی لڑیاں پرویا کرتے تھے۔
ان کے پاس بیٹھنے والا پہلی ہی ملاقات میں ان کا گرویدہ ہو جایا کرتا تھا ۔ اللہ نے ان کو دنیا میں دولت عزت شہرت اور اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہوا تھا ۔ لیکن عاجزی اور انکساری اتنی کہ گاڑی رکوا کر چائے یا کافی پی لیتے۔ اکثر نان چنے خرید کر کھا لیتے تاکہ عام آدمی کی قوت خرید او ر رہن سہن کا پتہ چلتا رہے۔ بھارتی جارحیت کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بننے کے بعد آپ نے وہاں رہ جانے والے محب وطن مسلمان پاکستانیوں اور محصور ین بنگلہ دیش کے لئے ایک فنڈ قائم کیا اور ان کی بحالی کے لئے تا عمر اقدامات کرتے رہے۔
آپ نے مظلوم کشمیری بھائیوں کے لئے نوائے وقت کے پلیٹ فارم سے کروڑوں روپے کے فنڈ قائم کیے۔ چند دن قبل خالد بہزاد ہاشمی نے اپنے مضمون میں ایک بہت خوبصورت بات لکھی جو میں کوٹ کرنا چاہوں گا کہ” مجید نظامی اپنے کارکنوں کی عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ 1980 کی آخری دہائی میں جب میں سٹی انچارج تھا ۔ تو انھوں نے گمنام خط میں لگائے گئے ایک الزام پر مجھے آفس طلب کیا اتفاق سے وہاں پر ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال بھی تشریف فرما تھے انھوں نے کاغذ پر لکھ کر مجھ سے بات کی اور ساتھ یہ بھی تحریر کیا کہ چونکہ جسٹس صاحب میرے پاس تشریف رکھتے ہیں اس لئے تحریری شکل میں بات کر رہا ہوں چنا نچہ میں نے ان کے جواب میں تحریری بیان دیا جس پر وہ مطمئن ہو گئے۔
اس مادر وطن کو اقوام عالم میں بلند ترین رکھنے والی ہستی کا نام مجید نظامی ہے ۔ 28 مئی 1998 کو وزیر اعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کا اعلان بھی اس مرد مجاہد کے کہنے پر کیا۔ ان کا بیان تھا ۔” میاں صاحب دھماکہ کر دیں ورنہ یہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی“۔ اور پھر بعد میں میا ں صاحب نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ نظامی صاحب کے شور نے اس قوم کی عزت و ناموس اور میری ذاتی عزت و تو قیر کو چار چاند لگا دئیے۔
مجید نظامی مر حوم دراصل مدینے والے ایک بزرگ کا نام ہے جو سچ بولنے کی کو شش نہیں کرتا بس سچا ہے۔ معروف صحافی زاہد حسن چغتائی ان کی باتیں کرتے کرتے اکثر اپنی انکھیں نم کر لیا کرتے ہیں ۔ ان کے دست شفقت کی بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ”جب ایک سال پہلے میری پولیو ذدہ ٹانگ ایک حادثے میں دو لخت ہوئی تو ریذیڈنٹ ایڈیٹر صاحب کی سفارش پر مجید نظامی صاحب نے مجھے چار ماہ پوری تنخواہ کے ساتھ رخصت دی اور میری صحت کے لئے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا“بات پھر وہی ہے کہ نظامی صاحب اپنے کارکنان کا ایسے خیال رکھتے تھے جیسے گھر کا حقیقی سربرہ اپنے بچوں کا خیال رکھتا ہے۔
آپ کی وفات سے ہم پر ایک سانحہ گزر گیا ۔رمضان المبارک میں آپ کی بیماری کے بارے میں سنا تو بہت پریشانی ہوئی اور جی چاہا کہ ان کے گھر جا کر ان سے ملوں لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا ۔ آج غم اتنا گہرا ہے کہ کوئی شمار نہیں ۔ یہ نوئے وقت ہی ہے کہ جس نے مجھ جیسے نا چیز کے کمزور قلم کو تقویت دی اور ایک کالم نگار بنا ڈالا۔ مجھ جیسے سینکڑوں لکھاری محترم مجید نظامی کی انگلی پکڑ کر یہاں تک پہنچے ۔
حق دار کو حق دینے والی ہستی کا نام مجید نظامی ہے۔ قلم پکڑنے اور سچ بات لکھنے کی تربیت میں نے مجید نظامی جیسی ہستی سے حاصل کی ۔ اسی لیے الحمداللہ آج مجھے سچ سے بے پناہ لگاوٴ اور جھوٹ سے سخت نفرت ہے۔ اسلام آباد میں مجید نظامی کے اعزاز میں اعتراف خدمات سیمینار کا جب اہتمام کیا گیا تو مجید نظامی مر حوم کی تقریر میں یہ جملہ بھی شامل تھا کہ”جب تک میں زندہ رہوں گا جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرتا رہوں گا“فوج اور فوج کے کارناموں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ”جس کا کام اسی کو ساجھے یعنی فوج کا کام ازل سے ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر فوج کو دیگر کاموں میں الجھا دیا جائے تو وہ یقینا اپنا اصل کام احسن طریقے سے نہیں کر سکے گی“۔ پاکستان بننے کا خوبصورت لمحہ بھی 27 ویں رمضان المبارک کے دن ہی طلوع ہو ا تھا۔ڈاکٹر مجید نظامی کے لئے اللہ کہ طرف سے بلاوا بھی عین انھی ساعتوں میں آیا تو یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے کتنے قریب تھے۔
اس دن ملنے والی خبر نے دل ہلا کر رکھ دیا ۔ گپ اندھیری رات میں جلتا ہوا دیا اچانک بجھ گیا۔ لیکن یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس چراغ کی روشنی تا ابد سلامت رہے گی ۔مجیدنظامی مر حوم نے اس قوم کی تقدیر کو سنوارنے میں وہ کردار ادا کیا جس کی مثال نہیں ملتی ۔ ٍکل جب میں کالم لکھ رہا تھا تو میری ڈاکٹر جمال ناصر صاحب سے فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ مجید نظامی صاحب کے بارے میں ، میں اتنا کہوں گا کے تحریک پاکستان کی یادوں کو زندہ رکھنے والی اور آئین پاکستان کو سنبھالا دینے والی انسان دوست ہستی کے چلے جانے سے اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے فروغ کو بہت بڑا دھچکا لگا۔
سچ پو چھیے تو آج یہ قوم 27 رمضان المبارک کو یوم آذادی منانے والے بے باک صحافت کے بانی سے محروم ہو گئی ہے ۔ اور میں نے دیکھا وہ مجید نظامی مر حوم کو شدت غم میں یاد کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ آپکی 86 سالہ زندگی اقوام عالم اور خاص طور پر نسل پاکستان کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے۔ حق و سچ کاپیکر آج ہم سب سے بہت دور چلا گیا ہے اتنا دور کہ جہاں سے واپسی کا گمان محال ہے ۔
ہمارا ان سے جسمانی رابطہ تو یقینا ختم ہو چکا ہے لیکن روحانی طور پر وہ ہر اہل دل اور حساس انسان کے دل کے مکین تھے اور مرتے دم تک رہیں گے۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے میں اتنا کہوں گا کہ
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
تا را جو کبھی ٹوٹے تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا 
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas