Episode 17 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 17 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

پاکستان کا توازنِ ادائیگی
ایک سال کے عرصے کے دوران برآمدہ کردہ اور درآمد کردہ اشیاء و خدمات کی ذری مالیت کے ریکارڈ کو توازن ادائیگی کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ جسکی برآمدات زیادہ تر زرعی خام مال اور چند ایک مصنوعات پر مشتمل ہے۔ جنکی بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں بہت کم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نسبت و درآمد و برآمد بھی ہمارے حق میں نہیں ہے۔
پاکستان جو بھی شے یا خدمات باہر کے ملکوں کو برآمد کرتا ہے۔ اسکی قیمتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ اشیاء مکمل شکل میں فروخت نہیں کی جاتیں۔ اس کے برعکش ہماری درآمدات ہمیشہ تیار شدہ مال خاص طور پر مشینری پر مشتمل ہے۔ جس کے لئے ہمیں لاکھوں ڈالرز دینے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا توازن ادائیگی ہمیشہ ناموافق یا خسارے کا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان آزادی کے فوراً بعد ہی بحران کا شکار ہوگیا۔ یعنی غربت پاکستان کو ورثے میں ملی۔ 
تقسیم کے وقت ہمارے پاس صرف 35کارخانے تھے جنکو اس دور میں گھریلوں صنعتیں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ انگریز کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی کہ برصغیر پاک و ہند کے ان علاقوں کو صنعتی ورثے سے محروم رکھا جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پھر ایسا ہی ہوا۔
آزادی پاکستان کے وقت اس حصے میں صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے معاشی بدحالی انتہا تک پہنچ چکی تھی۔ 1949میں برطانیہ نے اپنی کرنسی کی بیرونی قدر کو کم کردیا مگر پاکستان ن نے ایسانہ کیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری برآمدات کم اور درآمدات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لہذا ہمارا توازن ادائیگی خراب رہا 1950میں جب کوریا کی جنگ ہوئی تو پاکستان کی پٹ سن کی مانگ بڑھ گئی اور برآمدات میں اضافہ ہوا لہذا ہمارا ادائیگیوں کا توازن ہمارے حق میں تھا۔
حکومت نے اس آسانی کا فائدہ اٹھایا اور درآمدات کی نرم پالیسی اختیار کی۔ ان سب باتوں کے باوجود 1952-53میں اور اسکے بعد دوسالوں تک ہمارا توازن ادائیگی خسارے کا تھا۔ یاد رہے کہ توازن ادائیگی کا بڑا حصہ توازن تجارت پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس میں صرف اشیاء کی درآمدات اور برآمدات کی قدر کو روپے کی شکل میں ماپا جاتا ہے۔ لہذا جب تک صنعتی ترقی نہیں ہوگی تب تک توازن تجارت اور خاص طور پر توازن ادائیگی ہمارے حق میں نہیں ہوسکتے ۔
پہلے 5سالہ منصوبے کے دوران 1955میں توازن ادائیگی درست رہا۔ 1958میں جب ملک میں مارشل لاء لگادیا گیا تو اس انتظامیہ نے 1959میں برآمدی بونس سکیم شروع کی۔ جسکی وجہ سے برآمدات تیزی سے بڑھیں۔ اور توازن ادائیگی پھر موافق ہوگیا۔ لیکن اگلے ہی سال درآمدات کے حوالے سے نرمی برتنے پر توازن بگڑتا چلا گیا۔ دوسرے 5سال منصوبے کے دوران پاکستان کی درآمدات میں کافی اضافہ ہوگیا۔
کیونکہ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا مقصود تھا۔ لہذا بھاری مشینری درآمدکی گئی۔ اور اسکے ساتھ ساتھ صنعتوں کے لئے خام مال تک باہر سے منگوایا گیا۔ اس منصوبے کے دوران برآمدات میں7%اضافہ ہوا۔ لیکن چونکہ ترقیاتی کاموں پر اخراجات بے تحاشہ ہوئے لہذا توازن ادائیگی مثبت ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ حتی کہ اس خسارے کو غیر ملکی امداد اور قرضے لے کر پورا کیا گیا۔
پاکستان کے تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے دوران بھی ادائیگیوں کا توازن ہمارے حق میں نہیں رہا۔ اس منصوبے کے دوران ترقیاتی منصوبوں پر 5200کروڑ روپے خرچ کرنے کا پروگرام بنایاگیا۔ لیکن منصوبے کے آغاز کے دوران ہی ہمیں بھارت سے جنگ لڑنا پڑی جسکی وجہ سے ہمارے تمام تر ذرائع ترقیاتی کاموں سے ہٹ کر دفاع کی نذر ہوگئے۔ لہذا ادائیگیوں کا توازن خراب ہوا۔
جنگ کے نتیجے میں امداد دینے والے اداروں نے جنگ کا بہانہ بنا کر پاکستان کو امدا د دینے سے انکار کردیا۔ ملک میں سیاسی عدم ستحکام پیدا ہوا۔ جلاؤ اور گھیروں کی تحریکوں نے زور پکڑا۔ جب 1971میں مشرق پاکستان الگ ہوا تو صنعتی پیداوار جو کہ زراعت کی مرہون منت تھی۔ بہت کم ہوگئی جو ادائیگیوں کے توازن کو خراب کرنے کا سبب بنی۔ اس کے علاوہ جب 1970میں پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تو معاشی ترقی پر نظر رکھنے کی بجائے ساری توجہ سیاسی سرگرمیوں پر دی گئی جسکی وجہ سے ملک پاکستان کے معاشی اور اقتصادی حالات خراب ہوگئے جو کہ ادائیگیوں کے توازن کو خسارے میں رکھنے کا سبب بنا الیکشن کے بعد ملک میں خانہ جنگی کے سے حالات پید اہوگئے ۔
جسکا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا۔ جسکے نتیجے میں ہمارا ایک بازو ہم سے کٹ کر جدا ہوگیا۔ جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ چونکہ ہماری بڑی برآمدات چائے اور پٹ سن ختم ہوکر رہ گئی۔ کیونکہ اللہ نے مشرقی پاکستان کو اس دولت سے نوازہ ہے۔ ہماری تمام تر قی کا انحصار چاول اور کپاس پر ہوگیا۔ جسکے لئے ہمیں پوری دنیا میں گھومنا پڑا۔
اللہ اللہ کر کے کچھ نئی منڈیاں میسر آئیں لیکن صرف یہ اقدام با اثر ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔ لہذا حکومت نے مئی1972میں اپنے روپے کی بیرونی قدر میں131%کمی کر کے عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ یاد رہے کہ بیرونی قدر میں کمی سے وقتی طور پر حالات پر قابو پایا جاسکتا ہے جو کہ کسی ملک کو تباہی سے بچاسکتا ہے۔ لیکن عرصہ طویل میں اسکی مثال کینسر جیسے مہلک مرض کی سی ہے۔
جو کہ کسی ملک کی کرنسی کو دنیا کی نظر میں ناقابل قبول بنا دیتی ہے۔ بحر حال بیرونی قدر میں کمی ادائیگیوں کے توازن کو کم از کم اس عرصے میں درست رکھنے کا سبب بنی۔ 1973میں جب تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تو جاپان اوربرطانیہ میں توانائی کا بحران پیدا ہوگا۔ جسکا اثر پاکستان کی برآمدات پر بھی پڑا اس طرح توازن ادائیگی غیر موافق رہا اور تجارتی خسارہ بڑھتا چلا گیا۔
1999میں جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کی وجہ سے غیر یقینی صورت حال نے ملک پاکستان کی برآمدات کو بڑھنے نہ دیا۔ جبکہ درآمدات بڑھتی رہی لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کی زندگی کے 66 سالمیں توازن ادائیگی کو خسارے کا سامنا ہی کرنا پڑا2011-2012 کے شماریاتی اندازوں کے مطابق پاکستان کا توازن تجارت منفی 11618ملین ڈالر تھا۔ پاکستان کی برآمدات 18323ملین ڈالر اور درآمدات 29941رہی۔
غیر ملکی ترسیلات9736 ملین ڈالر تھی۔ جو کہ پاکستان کی معاشی بدحالی کی عکاسی کرتی ہے۔ 
جب اس توازن کو درست کرنے کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے پورا انفراسٹریکچر تبدیل کرنے کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جسکے بغیر ادائیگیوں کا توازن اور توازن ادائیگی حتی کہ صنعتی ورثہ اور زراعت کے شعبے تک ترقی نہیں پاکستے۔ اسکے لئے سب سے پہلا قدم ملکی درآمدات میں کمی ہے۔
جو کہ غریب اور پسماندہ ممالک کے لئے تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے اشیائے خوردنی تک باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ درآمدات کو کم کیے بغیر اور برآمدات کو بڑھائے بغیر مقاصد کا حصول ناممکن ہے۔ خدمات کی برآمدات میں اضافہ توازن ادائیگی کو تیزی کے ساتھ درست کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئیے ہمارے ملک کے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو اپنا ملک چھوڑ کر جانا پڑے گا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں انجنئیرز ، ڈاکٹر ز، قابل اساتذہ اور ماہرین کی شدت سے کمی محسوس کی جاتی ہے۔ اب ہم جائیں تو جائیں کدھر۔ سیاسی عدم استحکام اور دہشتگردی کی وجہ سے ہمارے ہاتھ پاؤں تک باندھ دیے گئے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یا تو ہماری برآمدات مکمل تیار شدہ مال ہو یا پڑھے لکھے لوگوں کو ملک پاکستان کو خیر آباد کہنا ہوگا۔
ہر دوصورتوں میں ہم مجبور و بے کس نظر آتے ہیں۔ کیونکہ جب تک ماہرین نہیں ہونگے تب تک کوالٹی ، پروڈکشن کا حصول ناممن ہے۔ اور جب تک پیدوار میں جان نہیں ہوگی تب تک غیر ملکی منڈی میں مانگ نہیں ہوگی۔ اور جب شیا کی طلب رک جائے گی تو ملک کا نظام اور توزن ادائیگی تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ لہذا ان اقدامات پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کو زرمبادلہ کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔
جسکا مقصد یہ ہو کہ برآمد کنندگان جتنا زرمبادلہ کمائیں وہ ملک کے سنٹرل بنک یعنی اسٹیٹ بینک میں جمع کروادیں۔ اور اسکے بدلے میں ملکی کرنسی حاصل کریں ۔ لیکن ضرورت کازر مبادلہ حاصل کرسکیں۔ اس طرح اسٹیٹ بنک کو زرمبادلہ کے استعمال پر مکمل کنٹرول حاصل ہوسکتا ہے۔ جسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ غیر ضروری مقاصد کے لئے اسکا اجراء رک جاتا ہے۔ جو کہ ایک ٹھوس تجارتی پالیسی اختیار کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ کرپشن سے پاک انتظامیہ وجود میں لائی جائے جو کہ کم از کم ملک پاکستان میں چند ایک سالوں کے علاوہ نظر نہیں آئی۔ گزشتہ پانچ برس اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ عرصہ طویل میں ادائیگیوں کے توازن کو موافق رکھنے کے لئے ضروری ہے ایک اقدام یہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ کہ روپے کی کل مقدار میں کم کردی جائے۔ معروف پروفیسر فشر کے تاریخی بیان کے مطابق صورت حال کچھ یو بنتی ہے۔
 
”اگر کسی ملک میں پیسے کی مقدار کو دوگنا کردیا جائے تو قیمتیں بھی دوگنا ہوجاتی ہیں۔ لیکن زرکی قدر نصف رہ جاتی ہے۔ اور اس کے برعکس اگر پیسے کی مقدار نصف کردی جائے تو قیمتیں بھی نصف ہوجاتی ہیں ۔ یعنی چیزیں سستی ہوجاتی ہیں اور زرکی قدر دوگنا ہوجاتی ہے۔ ان حالات و اقعات کی روشنی میں افراط زر اور تفریط زر دونوں کنٹرول کرنا مقصود ہے۔
جو کہ جوئے شیر الانے کے مترادف ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے باہر نکل کر ان حالا ت کو سدھارنے کی پالیسیاں وضع کرنی ہونگی ورنہ آج ہم جیسے بجلی اور سوئی گیس کو ترس رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہوملک تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ جائے۔ 
بین الاقوامی زرعی فند اس سلسلے میں معاونت کرسکتا ہے۔ لیکن ملک کے اندرونی حالات کو سب سے پہلے درست کرنا ہوگا۔
جب توجہ بٹ جاتی ہے تو تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ملک میں امن و سلامتی ترقی کی پہلی کرن ہے۔ آبادی پر کنٹرول بھی غیر ضروری درآمدات کو کم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ بچت شدہ رقوم کو پیداوار میں اضافے کے لئے استعمال کر کے زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت ایشیا میں بلند ترین شرح افزائش رکھنے والے ملک کا نام پاکستان ہے۔ یہ بھی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
برآمدات میں اضافہ درآمدات میں کمی آبادی پر کنٹرول ، دہشتگردی کا خاتمہ ، کوالٹی اور پروڈکشن اور ایکسچینج کنٹرول یہ سب اقدامات ایک ساتھ کر کے مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ ورنہ سیاستدان آپس میں پاکستان پاکستان کھیلتے رہیں گے۔ ہمیں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نیں دے پائیں گے۔ موجودہ حکومت سے عوام کی بہت مثبت توقعات وابسطہ ہیں امید ہے اللہ کی ذات بہتر کرے گی۔ 

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas