Episode 11 - Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas

قسط نمبر 11 - آبروئے ما - شاہد جمیل منہاس

رشتوں کی لڑی
ابو کہتے تھے کہ بیٹاکھبی مت بھولنا کہ بہنیں ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہیں ۔ اگر بھائی سے عمر میں برسوں بڑی ہوں تب بھی ۔یہ بات اُس وقت مجھے سمجھ نہیںآ ئی ۔آج اچانک یہ بات میری سمجھ میں آگئی جب چھوٹا بھائی بڑی بہن کے لیے ایسے فکر مند ہو ا جیسے کوئی اپنی اولاد کے لیے تڑپتا ہے۔ آج پتہ چلا کہ بھائی بہنوں سے بڑے کیوں ہوتے ہیں ۔اس لئے کے وہ مرد ہیں اور اللہ نے مرد کو مظبوط اعصاب کا مالک بنایا ہے ۔
جو بڑی سے بڑی تباہی اور آزمائش سہہ لینے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت ایک کمزور جسم یا حوصلے کی مالک ہوتی ہے۔ ان کو صنفِ نازک اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کے لیے زبان کی سختی تک اسلام میں منع کر دی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت جوکہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی شکل میں موجود ہے ۔

(جاری ہے)

چوڑیوں کی حیثیت رکھتی ہیں جوکہ اپنی موجودگی کا احساس دلا کر معاشرے میں خوبصورتی پیداکرکے رشتوں کومضبوط کرنے اور تقویت دینے میں اہم کردار اد کرتی ہیں ۔

بھائی بہنوں کا سرمایہ اور کُل کائنات ہوتے ہیں ۔ بھائی کی موجودگی سے بہت سے مسائل بغیر محنت کے حل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جن گھروں میں بھائی نہیں ہوتے وہاں پر یہ عمل سُست اور مشکل لگتا ہے ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بات 100% درست ہو ۔جہاں ماؤں کا کردار مثبت اور باپ باکردار اور خوب سیرت انسان ہو وہاں بیٹیاں گھر کی دہلیز بغیر سوچے سمجھے پار نہیں کرتیں ۔
بلکہ ہمارے معاشرے میں ماں باپ کی عزت کو محفوظ رکھنے کے لیے دن رات ایک کر دیتی ہیں ۔
یہاں پر ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ والدین کا کردار بذاتِ خود اولاد کی بناوٹ اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ تعلیم کے بغیر انسان حیوان سے بدتر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن تربیت کے بغیر تعلیم ایسے ہی ہے جیسے وضو کے بغیر نماز جو ثواب کی بجائے گناہ کا سبب بنتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اگر گدھے پر کتابیں لاد دی جائیں تو وہ پڑھا لکھا نہیں ہو سکتا ۔ ہم نے اور آپ نے بے شمار تعلیم یافتہ لوگ زندگی میں دیکھے ہوں گے جنہوں نے اپنے بوڑھے والدین کو Old Houses میں بھجوا دیا کہ یہ بیمار ہیں اور بیماری سے جراثیم کا سبب بنتے ہیں ۔ استغفراللہ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ایک وقت آئے گا کہ وہ بھی بڑھاپے کی دہلیز پر ہونگے اور دیواروں سے باتیں کرنا ان کا مقدر بن جائے گا ۔
کیونکہ یہ دنیا مکافابِ عمل ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔نبی کریم ﷺ کُل کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔ جنکا سکو ل اور یونیورسٹی غارِ حرا تھی ۔ آج دنیا بھر کے پڑھے لکھوں کو جوکہ زیادہ تر غیر مسلم ہیں ۔ اس وقت احساس ہوتا ہے کہ ہمارے آخری نبی ﷺ کی تعلیمات واقعی مشعل راہ ہیں ۔ جب کوئی ڈاکٹر تحقیق کے بعد ہزاروں ڈالر کی کتاب میں یہ لکھتا ہے کہ ناک میں روز تین چار مرتبہ پانی ڈالنے سے فلاں بیماری نہیں ہوگی ۔
تو اس وقت وہ کمبخت یہ کیوں بھو ل جاتے ہیں کہ یہ بات تو ہمارے نبی نے آج سے ہزاروں سال پہلے بتادی تھی ۔کہ ناک میں پانی ڈالنے سے اور سر کا مسح کرنے سے یہ ، یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں اور بیماریاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ جب ہم ان سب باتوں کا اقرار کرتے ہیں تو رشتوں کو پامال کیوں کرتے ہیں ۔ کیونکہ آپ ﷺ نے سب سے زیادہ ذوراسی بات پر دیا اور خاص کرکے عورت کے حقوُق کی بار بار تنبیہ کی۔
اُسی بات کو جوڑتے ہوئے کہ والدین کے احسانات کا بدلہ دینا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ زمانہء قدیم میں ایک شخص بیمار ہوا اور اس کے پانچ بیٹے تھے ۔ بیماری کی یہ حالت تھی کہ وہ زندوں میں او ر نا ہی مُردوں میں تھا ۔ روح قبص ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اُسکی جاہل اُولاد اُس کی خدمت کرنے سے قاصر تھی ۔کیونکہ اُس نے اپنی اولاد کی تربیت اچھے طریقے سے نہیں کی تھی اور وہ خُود گناہ گار اور اپنے وقت کو بُرے کاموں میں ضائع کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔
اولاد نے یہ سوچا کہ اس کو پہاڑی سے نیچے گرا دیتے ہیں ۔ وہ اسکی چارپائی کولے کر پہاڑی کی چوٹی پر جاتے ہیں ۔ کہ یہاں سے نیچے پھینکیں ۔ والد نے جوکہ موت کے منہ میں جا چکا تھا ۔ اپنے ہاتھ کے اشارے سے بیٹے سے کہا کہ میری بات سنو۔ بیٹے نے کان لگا کر باپ کی بات سُنی تو باپ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اُس اوپر والی پہاڑی سے نیچے پھینکو ۔ اولاد نے وجہ پوچھی تو کہاکہ کسی دور میں میں نے اپنے باپ کو وہاں سے پھینکا تھا۔
دنیامکافاتِ عمل ہے۔ اور پھر اُس کے ساتھ وہ ہوا جو اُس نے اپنے والد کے ساتھ کیا تھا ۔ رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے اور بُرا سلوک کرنے کی سزا جہنم تو ہے ہی لیکن دنیا کو عبرت دکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ اکثر یوں بھی کرتا ہے ۔ اگر خدانخواستہ کسی کی جوان اولاد کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے وفات پا جائے جوکہ اٹل حقیقت ہے تو کہا جاتا ہے کہ والدین کی کمر توڑ گیا یہ صرف محاورہ نہیں بلکہ یہ وہ تلخ حقیقت ہے۔
کہ جسکی وضاحت وہی کر سکتا ہے ۔ جس پر یہ وقت گزرا ہو۔ جہاں پر ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے ۔ وہا ں پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنت کا دروازہ اس وقت تک نہیں کھُلتا جب تک باپ راضی نہ ہو ۔ والدین کی فریاد اولادکے نام کچھ یوں بیان کی جاسکتی ہے۔
جس دن تم ہمیں بوڑھا دیکھو تو صبر کرنا اور ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنا۔جب ہم کھاتے ہوئے گندگی پھیلائیں اور گندے کپڑے بدل نہ سکیں تو وہ وقت یاد کرنا جب ہم تمھارے گندے کپڑے بدلتے تھے ۔
جب ہم کوئی بات بھول جائیں تو ہم پر طنز نہ کرنا اور اپنا بچپن یاد کرنا۔ جب ہم بوڑھے ہو کر چل نہ سکیں تو ہمارا سھارا بننا اور اپنا پہلا قدم یاد کرنا 
ہمارے معاشرے میں عورت کا مقام دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے ۔ انسانی اقدار کو پس پشت ڈال کر عورت پر تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں ۔ عورت کو ایک بھیڑ اور بکری کی سی حیثیت دی جاتی ہے۔
ہمارے سامنے ہزاروں واقعات آئے ہیں ۔ کہ آج ماں اپنے کم سِن بچوں سمیت کنویں میں چھلانگ لگا گئی ۔ باپ نے اپنی اولاد سمیت اپنی بیوی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے ۔ کہ ایک جاہل بیٹے نے اپنی ماں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ایسے ایسے واقعات کے دل خُون کے آنسُو روتا ہے ۔ ہمیں زمانہ جاہلیت کی مثالیں دیتے ہوئے شرم آنی چاہئے ۔
اُس وقت تو بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔آج صرف بچیوں کو نہیں بلکہ ماں ، بہن، بیٹی، بیوی الغرض ہر رشتہ ظلم وستم کی چکی میں پس رہا ہے۔ آج ساری دنیا عورت کو تحفظ دینے میں سرگرم عمل ہے۔اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہے ۔کیونکہ تعلیم بحرحال تربیت کو آسان کردیتی ہے ۔ صحابہ ء کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان نازک رشتوں کے احترام کو فرض سمجھتے تھے ۔
خاص طور پر ماں کے سامنے اُف تک نہیں کہا جاتا تھا ۔گستاخی اور بدتمیزی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ہو سکتا ہے بیٹا پانی کا پیالا لیے ساری رات ماں کے قدموں کے پاس کھڑا رہے کہ پچھلے سال کی طرح کہیں دوبارہ میری ماں پانی نہ مانگ بیٹھے اور میں گناہ گارسویا رہوں ۔
وہ ماں کہ جب بچے نے پہلا لفظ زبان سے نکالا تو پورے محلے میں پھِر گئی کہ آج بیٹے نے بولنا شروع کر دیا ہے۔
اور جس دن پہلا قدم اٹھایا اس دن رات خوشی کے مارے ماں کو بھوک وپیاس تک نہ چھُو سکی یہ وہ رشتہ ہے کہ جو بغیر لالچ کے ساتھ دیتا ہے۔
عورت کا ایک اور خوبصورت رُوپ بیٹی ہے جسکے بارے میں کہا گیا ہے کہ بیٹیاں اللہ کی طرف سے رحمت بن کر آتی ہیں ۔لیکن افسوس صدا افسوص کہ ہمارے معاشرے میں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔بیٹے سے زیادہ بیٹی کو اہمیت دی جاتی ہے ۔
جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹی والدین کی دوست ہوتی ہے خاص طور پر ماں کی۔ سب رشتے چھوڑ کے جاتے ہوئے پائے گئے ہیں ۔ لیکن بیٹی ایک واحد رشتہ ہے۔ کہ جو ہر حال میں والدین کا ساتھ نبھاتی ہے۔شادی کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا خیال رکھنا اسلامی معاشرے کا ایک طئرہ امتیاز ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان رشتوں کی ناقدری عام ہوتی چلی جارہی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ایسی خواتیں موجود ہیں ۔ جنکو شوہر نے اس لئے چھوڑ دیا کہ وہ بیٹے کی نعمت سے محروم ہیں ۔ جبکہ یہی بیٹے والدین کے لیے آسانی اور آسائش کی بجائے تباہی اور بربادی کا سبب بن جایا کرتے ہیں ۔حدیث قدسی کا مفہوم ہے۔کہ اے انسان ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے پس اگر تونے سُپرد کیا خود کواُسکے جومیری چاہت ہے تو میں تجھے بخش دوں گااور وہ بھی جو تیری چاہت ہے ۔
اور اگر تم نے نا فرمانی کی اس کی جو میری چاہت ہے تو میں تجھے تھکا دونگا اس میں جو تیری چاہت ہے پس ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔
اکثر والدین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے بیٹی نہیں یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک بیٹی کے بارے میں اس کے والدین کے منہ سے اچانک نکلتے ہیں ایسی بیٹیاں یقینا جنت کی حقدار ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو ایسی اولاد عطا کرے بیٹے والدین کا سہارا ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ بری تربیت کی وجہ سے اور اپنی چاہت کو اللہ سے ضد کر کے منوانے کی وجہ سے ذلت کا سبب بھی بنتے ہوئے دیکھے ہیں با کردار بیٹا اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے لیکن ناخلق بے ادب بیٹوں سے ایک تربیت یافتہ اور با عمل بیٹی ہزار گنا بہتر ہے بڑہاپا جو کہ انسان کی زندگی کا سب سے کھٹن مرحلہ ہوتا ہے اس کو تقویت اور حوصلہ دینے والی ہستی کا نام ،بیٹی،ہے حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ شخص بد بخت ہے کہ جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور جنت حاصل نہ کر سکا بیٹی کے نام سے لرز جانے والے اور ہر دم بیٹو کی خواہش کرنے والے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اللہ جو بھی دے دے اسی میں انسان کی بھلائی ہے معاشرے کی تنہائیوں میں شور و غل اور چہچہاہٹ کا نام بیٹی ہے انسانیت کی زندہ مثال بیٹی ہے جس نے عملی زندگی میں ایک بہترین ماں کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے موت کی تکلیف کو آسانیوں میں تبدیل کرنے والی ہستی کا نام بیٹی ہے کہ جب وہ والدین کی چارپائی کے کونے پر بیٹھ کر کلام پاک کی تلاوت کر کے موت کی تنگی کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے المختصر عورت کا ہر روپ اپنی منفرد اہمیت رکھتا ہے کہا جاتا ہے کہ کامیاب مرد کے پیچھے ایک کامیاب عورت کا ہاتھ ہوتا ہے یہاں پر ہمیں ایک زہر کا پیالہ بھی پینا ہو گا وہ یہ کہ ایک ایسی عورت جو بے راہ روی کا شکار ہے ایک نسل کو بے راہ روی پر لگا سکتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک با کردار عورت پوری قوم کو گمراہی سے بچا سکتی ہے خدا نہ کرے کسی کی ماں بہن بیٹی ایسے گھناونے کردار کی مالک ہو کہ شرمندگی اس کا مقدر ٹھہرے حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو،بے حیائی ہمیں آج اس مقام پر لے آئی ہے کہ ایڈوانس ہونے کی دوڑ میں نہ تو مغرب ہمیں کچھ دے سکا اور نہ ہی اقوام عالم میں عزت ملی بلکہ الٹا اللہ کی نظر میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں بے پردہ عورت کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کسی پہاڑ کی چوٹی پر گناہ کبیرہ ہو یہ جو زمین آج زلزلے کی صورت میں پھٹ رہی ہے یہ بے حیائی کا ہی تو نتیجہ ہے جب زمین شدت سے ناراض ہوتی ہے تو شرم کے مارے پھٹ جاتی ہے اس سرزمین پاک پر اتنے ظلم کیے گئے کہ زمین نے لاوا اگلنا شروع کر دیا اللہ کو تھوڑا سا ناراض کرنے سے کھبی تباہی ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ وہ ستر ماؤں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے ناراضگی جب حد سے بڑھتی ہے تو بارشیں رک جایا کرتی ہیں لیکن جب رب زوالجلال کی ناراضگی ہمارے گناہوں کی وجہ سے سیک حد کو چھو لیتی ہے تو پھر زلزلے آتے ہیں اور پھر ہم سب نے یہ منظر دیکھا یہ حالات اس بات کی یقین دہانے کرواتے ہیں کہ قوم گناہگار ہو چکی ہے اور گناہ بھی ایسے کہ جس کی مثال زمانہ جاہلیت سے بھی بد تر ہے آج ہم رشتوں کا تقدس بھلا چکے ہیں جس کا ثبوت آج عورت کی بے حرمتی اور بزات خود اس کی بے حیائی نے وہ قیامت برپا کر دی ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن یاد رہے کہ پرہیزگار عورتوں کی وجہ سے آج یہ معاشرہ قائم ہے اور ہم سب کسی نہ کسی صورت میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

Chapters / Baab of Abroye Maa By Shahid Jameel Minhas