امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی تعیناتی

وائٹ ہاوٴس میں جوبائیڈن کی میڈیا ٹیم خواتین پر مشتمل ہے

بدھ 16 دسمبر 2020

Americi Tareekh Main Pehli Martaba Aala Ohdoon Per Khawateen Ki Tayenati
بشریٰ شیخ
امریکی تاریخ میں پہلی بار وائٹ ہاوٴس کے شعبہ پریس میں نو منتخب صدر جوبائیڈن نے تمام عہدوں پر خواتین کو تعینات کرکے متعدد حلقوں کو ششدر کر دیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ نئی انتظامیہ کی کمیونیکیشن ٹیم کی قیادت کے لئے اوباما انتظامیہ کے بعض تجربہ کار ماہرین کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا،”مجھے آج یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی سینیئر کمیونیکیشن ٹیم پہلی بار پوری طرح سے خواتین پر مشتمل ہے۔

کمیونیکیشن کی یہ قابل اور تجربہ کار شخصیات اپنے کام کے تئیں مختلف نقطہ نظر کی حامل ہیں اور اس ملک کی تعمیر نو کے لئے ان کے عزائم بھی مشترک ہیں۔“بائیڈن کی اقتدار کی منتقلی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس کے لئے جس ٹیم کا انتخاب ہوا ہے وہ متنوع،تجربہ کار اور باصلاحیت خواتین پر مشتمل ہے اور اس سے آنے والے صدر کے اس عزم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ،”ایسی انتظامیہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جو امریکا کی طرح نظر آتی ہو اور کام کرنے والے خاندانوں کے لئے روز اول سے ہی نتیجہ خیز ثابت ہونے کے تیار بھی ہو۔

(جاری ہے)


تاہم نامزد کی گئی ان سات خواتین میں سے چار کا تعلق سیاہ فام برادری سے ہے۔اوباما کی انتظامیہ میں جنیفر پساکی وائٹ ہاوٴس میں کمیونیکیشن کی ڈائریکٹر ہوا کرتی تھیں اور جوبائیڈن نے انہیں پریس سیکرٹری کے عہدے کے لئے نامزد کیا ہے وہ طویل عرصے سے ڈیمو کریٹک پارٹی کی ترجمان رہیں۔جنیفر پساکی نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا،”یہ ٹیم بعض بہترین صلاحیت مندوں پر مشتمل ہے، اس میں آزمائی ہوئی تجربہ کار ماہر ابلاغیات شامل ہیں،جو سب کی سب خواتین ہیں۔

سب سے متنوع ٹیم جس میں سے چھ کم عمر بچوں کی مائیں ہیں۔“بائیڈن اور کملا ہیرس کی انتخابی مہم کی ترجمان کیٹ بیڈنگ فیلڈ کو وائٹ ہاوٴس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر کے عہدے کے لئے متعین کیا گیا ہے۔جب بائیڈن نائب صدر تھے تب بھی ان کے ساتھ کیٹ اسی عہدے پر کام کر چکی ہیں۔بائیڈن ٹیم کی سینیئر مشیر سیمون سینڈرز نو منتخب نائب صدر کملا ہیرس کی چیف ترجمان کے طور پر کام کریں گی۔

بائیڈن کی سابق پریس سیکرٹری ایلزبتھ الیگزینڈر آئندہ امریکی خاتون اول جل بائیڈن کی کمیونیکیٹر ڈائریکٹر ہوں گی۔
اس کے علاوہ اس ٹیم میں کارین ڑاں پرئیر اور ایشلی ایٹیئن کی بھی اعلیٰ عہدے پر تقریر کی گئی ہے ۔کارین ڑاں پرئیر وائٹ ہاؤس میں پرنسپل نائب پریس سیکرٹری کے طور پر کام کریں گی جبکہ ایشلی نو منتخب نائب صدر کملاہیرس کی کمیونیکیٹر ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوں گی۔

بائیڈن ٹیم کی انتخابی مہم کی کمیونیکیٹر ڈائریکٹر پیلی ٹوبر کو وائٹ ہاوٴس میں نائب کمیونیکیٹر ڈائریکٹر کے عہدے پر مقرر کیا گیا ہے۔کابینہ کے ارکان کی سینیٹ سے منظوری لینا پڑتی ہے تاہم ان تقریریوں کے لئے صدر کی ٹیم خود مجاز ہوتی ہے اور اس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ کی انتظامیہ میں بھی پریس سیکرٹری اور پریس ڈائریکٹر سمیت کئی خواتین شامل تھیں لیکن بائیڈن کی ٹیم نے تنوع کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاوٴس میں پریس کو ماضی کی روایات کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے پریس کے لئے لڑنے والا انداز اختیار کر رکھا تھا،جس میں پریس بریفنگ کے دوران اکثر میڈیا کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔اس کے برعکس بائیڈن کی میڈیا ٹیم پریس کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ تعلقات قائم کرنے کے لئے بھی پر امید ہے۔
 جبکہ صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں یہی محسوس ہوتا رہا کہ شاید انہیں خواتین کے ساتھ کوئی مسئلہ ضرور رہا ہے۔

نہ صرف مضافاتی خواتین کے ساتھ بلکہ ہر عمر،نسل اور ہر تعلیمی معیار کی خواتین کے ساتھ انہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ تھا۔حالیہ پولز سے پتا چلتا ہے کہ خواتین کے تمام گروپس اب ٹرمپ کے اتنے حامی نہیں رہے جتنے وہ 2016ء کے الیکشن میں تھے۔خواتین کئی دہائیاں پہلے یعنی 1980ء کے عشرے سے ہی ریپبلکن صدارتی امیدواروں سے ایک فاصلہ رکھ رہی ہیں۔اس لئے اس وقت صنفی طور پر ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘2020ء کے الیکشن بھی اسی دیرینہ تحریک کا تسلسل ہے۔

مردوں اور خواتین کا عدم توازن تمام سیاسی جماعتوں میں نظر آیا۔سیاسی پہچان میں پائی جانے والی صنفی خلیج اس صدارتی الیکشن میں بھی صدر ٹرمپ پر اثر انداز ہوتی محسوس ہوتی رہی مگر یہ رجحان ان کے صدر بننے سے پہلے بھی موجود تھا۔2008ء کے الیکشن میں 56 فیصد خواتین اور 49 فیصد مردوں نے براک اوباما کو ووٹ دیا تھا مگر 2012ء کے الیکشن میں براک اوباما کے حق میں یہ صنفی خلیج 10 فیصد بڑھ گئی تھی یعنی 55 فیصد خواتین کے مقابلے میں 45 فیصد مردوں نے انہیں ووٹ دیا تھا۔

2016ء کے الیکشن میں پولز کے مطابق ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے مابین یہ صنفی فرق 13 پوائنٹس تھا۔
ڈیمو کریسی فنڈ اور UCLA نیشن سپیس پروجیکٹ نے جون 2020ء سے 22 اکتوبر کے درمیان ایک لاکھ سے زائد امریکی لوگوں کے انٹرویوز کئے تھے۔اوسطاً رجسٹرڈ ووٹوں کے تناظر میں دونوں سیاسی جماعتوں میں یہ صنفی خلا 13 پوائنٹس رہا۔حالیہ پولز میں بھی یہی انداز نظر آیا جو کم سے کم 8 پوائنٹس اور زیادہ سے زیادہ 16 پوائنٹس رہا۔

اس فرق کی سادہ سی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ زیادہ تر مرد ریپبلکنز ہیں اور زیادہ تر خواتین ڈیمو کریٹس ہیں۔یہ جاننے کے لئے کہ 2020ء کی انتخابی مہم کیسی رہی؟کسی بھی الیکٹورل گروپ کو دیکھ سکتے ہیں۔مرد اور خواتین،آزاد،مضافاتی مرد و خواتین،65 سال سے زائد عمر کے لوگ‘2016ء کے مقابلے میں ٹرمپ کے کم حامی نظر آئے۔امریکا کے دیہات میں بسنے والے ووٹرز میں بھی یہ رجحان دکھائی دیا۔

نیشن سپیس ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ دیہات میں بسنے والے امریکی چھ پوائنٹس کے فرق سے ٹرمپ سے دور ہو گئے تھے 66 فیصد سے 60 فیصد رہ گئے تھے ،خواتین میں یہ حمایت 54 فیصد سے کم ہو کر 50 فیصد رہ گئی تھی ۔یہ ڈیٹا ریپبلکنز میں بھی انتخابی فرق دکھاتا ہے۔ڈیمو کریٹس کی جوبائیڈن کی شرح کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی جماعت کے اندر بھی وہ حمایت نہیں رہی جو 2016ء کے الیکشن کے موقع پر تھی۔

نیشن سپیس کے ساتھ انٹرویو میں 94 فیصد ریپبلکنز کہتے سنے گئے کہ انہوں نے 2016ء کے الیکشن میں ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔ 2020ء میں یہ شرح کم ہو کر 91 فیصد رہ گئی۔ریپبلکنز خواتین میں یہ شرح 92 فیصد سے کم ہو کر 90 فیصد رہ گئی تھی۔اندازہ لگائیے کہ کس طرح خواتین‘مردوں کے مقابلے میں ریکارڈ تعداد میں جوبائیڈن کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے نکلی تھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Americi Tareekh Main Pehli Martaba Aala Ohdoon Per Khawateen Ki Tayenati is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.