
بچوں پر جنسی تشدد کی وجوہات اور روک تھام
دو روز قبل اخبار پڑھتے ہوئے ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک کمسن بچی کو اغواء کے بعد قتل کر دیا گیا. روزانہ اخبارات میں ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ننھے بچوں اور بچیوں کی عزت کو نہ صرف تار تار کیا جاتا ہے
چوہدری عامر عباس
بدھ 27 نومبر 2019

ہم کس قدر پتھر دل قوم ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئے دن بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات سن سن کر اب ہم مکمل طور پر بے حس ہو چکے ہیں. چند دن سوشل میڈیا پر ہا ہا کار مچاتے ہیں. پھر جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں ہمارا حافظہ بھی ماند پڑتا جاتا ہے. لہٰذا چند دن بعد پھر کوئی ایسا واقعہ ہماری سوچ کو جلا بخشتا ہے اور ہمارا مردہ ضمیر وقتی طور پر پھر زندہ ہو جاتا ہے.
گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں ہونے والے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات اور ان میں بڑھتی ہوئی شرح میں افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
(جاری ہے)
ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ان کے والدین کسی مجبوری کے تحت کسی جگہ کام کاج کے لیے چھوڑ آتے ہیں۔ اب بات آجاتی ہے والدین کی اور فیملی پلاننگ کی.
بعض دوست کہتے ہیں کہ بچے پیدا کرنا سنت نبوی ہے. بےشک جتنے مرضی پیدا کیجئے. کون آپ کو روکتا ہے. لیکن بچوں کی مناسب دیکھ بھال اور اچھی تربیت کرنا بھی سنت نبوی ہے. لہٰذا کیوں نہ یہ کوشش کی جائے کہ اتنے بچے ہی پیدا کر لیے جائیں جتنے بچوں کی پرورش و تربیت اچھے طریقے سے ہو سکے. بچے بھلے جتنے مرضی پیدا کریں لیکن اس کے بعد انکی تربیت اور فرسٹ سٹیپ پر نگہبانی کا سوچنا بھی آپ ہی کا کام ہے. اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا. جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے کیسز میں ملوث مجرم ذیادہ تر بچے کے قریبی رشتہ دار یا جاننے والے ہی پائے گئے ہیں. یہاں ایک بات توجہ طلب ہے کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں ان کے نزدیک اچھے برے یا بڑے چھوٹے کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو اپنا سمجھنا ان معصوموں کی فطرت میں شامل ھوتا ہے. اب یہاں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا کردار محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے.بعض بچوں کے والدین بیمار ہوتے ہیں اور مجبوراً بچے کو گھر کا کفیل بننا پڑتا ہے لہٰذا باہر جا کر کام کرنا انکی مجبوری ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ بچے بھی اس معاشرے کے درندہ صفت لوگوں سے محفوظ نہیں۔ یہی بچے جب کسی ورکشاپ یا ہوٹل پہ جاکے کام کرتے ہیں تو ان کا حلیہ اور چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ وہ یہاں کتنی تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں۔
اکثر بچوں کوبھیک مانگتے دیکھا ہے۔ اکثر والدین نکمے،کاہل اور نشہ کے عادی ہوتے ھیں وہ نہ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرتے ہیں نہ وہ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں۔میری اکثر ایسے بچوں سے بات ہوئی تو وہ بولے کہ ہم دو وقت کی روٹی کھا لیتے ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ معاشرہ ہمارے بارے میں کیا سوچتا ھے۔ ایسے بچے جنسی درندوں کا آسان شکار ہوتے ہیں.
خیر اگر بات کی جائے ان مالکوں کی جن کے پاس یہ بچے کام کرتے ہیں۔ چاہے وہ کسی گھر میں نوکرانی ہو، یا کسی ہوٹل پہ کام کرنے والا چھوٹا، بعض گھروں میں ان کے ساتھ غیر انسانی اور غیر مہذب سلوک عام دیکھنے کو ملتا ہے۔
بچوں پر تشدد کے واقعات جو رپورٹ ہوئے ہیں ان میں جنسی زیادتی کے واقعات نمایاں ہیں۔ گزشتہ سال سے قصور، چونیاں اور ملک کے طول و عرض میں ہونے والے دیگر ایسے واقعات درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان واقعات میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار شامل ہوتے ہیں جو اس بچے کے ساتھ زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں والدین کو زیادہ محتاط رہنا چاہئے بالخصوص بچہ جس رشتہ دار سے خوف کھا رہا ہوں یا ڈر رہا ہوں ان پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ آپ کے انکل ہیں، آپ کی آنٹی ھے کہہ کر بچے کو کسی بھی ذہنی دباؤ کا شکار کرنا چاہیے۔
یہاں پر زیادہ ضرورت ایسے رشتہ داروں سے محتاط رہنے کی ہے جو آپ کے بچے کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جنسی واقعات میں مجرموں کی اکثریت بچے کے قریبی رشتہ دار، محلے دار یا والدین کے تعلق والوں کی پائی گئی ہے۔ زیادہ تر یہ بچے کسی کام والی جگہ، خالی گھر، فصل یا کھیت وغیرہ میں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
ان واقعات سے مکمل طور پر نمٹنے کے لیے والدین اور حکومت دونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا. والدین کا کام ہے کہ بچوں اور گھر میں اکثر آنے والے قریبی رشتہ داروں پر نظر رکھیں اور فاصلے پر رہنے کی تلقین کیجئے. عمر کے حساب سے اپنے بچے کی خود جنسی تربیت کرنا لازم ہے کہ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے. بچیوں کے لباس کے بارے میں احتیاط کیجئے. بچوں کو ازراہ محبت رشتہ داروں کی جھولی میں ڈالنے سے گریز کریں. بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا بتائیں. اپنی اور بچے کی ہچکچاہٹ کو دور کیجئے کیونکہ اگر آپ خود اپنے بچے کی جنسی تربیت نہیں کریں گے تو پھر بچہ فطری تجسس سے مجبور ہو کر وہی سوالات دیگر لوگوں سے پوچھے گا جو خدانخواستہ آپکے بچے سے جنسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں. والدین اپنے اور بچے کے درمیان فاصلے کو ختم کریں. بچوں کو دوست بنائیں اور انکو اعتماد دیں. بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں نہ صرف بچے کی اخلاقیات تباہ کرتی ہیں بلکہ یہ رویے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں. ایسے بچے جنسی استحصال کا آسان شکار ہوتے ہیں. بچوں کی جنسی تربیت کا موضوع ایک الگ اور مکمل کالم کا متقاضی ہے جس کو پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں.
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے اور حکومت مزید ایسے ادارے تشکیل دے جو باہر کام کرنے والے بچوں پر نظر رکھیں اور ایسی کسی صورتحال میں ملوث ہونے والے مجرمان کو قرار واقعی اور عبرتناک سزا دلوائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Bachoon Per Jinsi Tashadud is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 November 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.