
چیلنجوں سے نبردآزما حکومت کا امتحان
گذشتہ ہفتے قومی افق پر اہم واقعات ہوئے ہیں جو ملکی سیاسی منظر پر اثرات مرتب کر رہے ہیں نواز شریف حکومت قائم ہوئے 11ماہ ہونے کو ہیں لیکن وہ پچھلی حکومتوں کی پیدا کردہ دلدل سے نکل پا نہیں رہی
جمعہ 25 اپریل 2014

گذشتہ ہفتے قومی افق پر اہم واقعات ہوئے ہیں جو ملکی سیاسی منظر پر اثرات مرتب کر رہے ہیں نواز شریف حکومت قائم ہوئے 11ماہ ہونے کو ہیں لیکن وہ پچھلی حکومتوں کی پیدا کردہ دلدل سے نکل پا نہیں رہی۔ اس دوران وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی پر اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹنینٹ جنرل ظہیرالاسلام نے شرکت کی یہ اجلاس تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد منعقد ہوا یہ اجلاس بظاہر حکومت اور فوج کے درمیان ”تناؤ“کے ماحول میں ہوا لیکن ملک کو درپیش چیلنجوں نے سیاسی و عسکری قیادت کو مل بیٹھنے کاموقع فراہم کر دیااس اجلاس میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی ہے دونوں اطراف” برف“ پگھل رہی ہے جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے اس بات کی وضاحت کہ” وہ فوج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں“ اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان ”فاصلے اور دوریاں “ ختم ہو رہی ہیں۔
(جاری ہے)
نواز شریف حکومت کو قائم ہوئے 11ماہ ہونے کو ہیں ابھی تک کئی وزارتوں کے قلمدان وزیر اعظم کے پاس ہیں یا دیگر وزراء کو ان کا اضافی چارج دیا گیا ہے حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف)کے دو وزراء نے”پسندیدہ“ وزارتیں نہ ملنے پر احتجاجاً اپنے استعفے دے رکھے ہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف اپنے وزراء سے بھی بہت کم ملتے ہیں 10،11 وزراء اور اہم عہدیدار کے لئے وزیر اعطم ہاؤس کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں جب کہ دیگرکیلئے ”اپوائنٹمنٹ “لینا ضروری ہے۔ وزرائے مملکت بے چاروں کو تو وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں مدعو ہی نہیں کیا جاتا۔وفاقی کابینہ کے اجلاس بھی بہت کم ہوتے ہیں اور جو اجلاس ہوتے ہیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے بریفنگ دینے کی روایت ختم کر دی ہے۔ حکومت وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے بارے میں ”ہینڈ آؤٹ “ جاری کرنے پر اکتفا کر رہی ہے۔ کئی ہفتوں سے’حج پالیسی2014ء“ وفاقی کابینہ کے ایجنڈے پر تھی لیکن اجلاس نہ ہونے کے باعث وزیر اعظم سے منظوری لے کر وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف خان کو حج پالیسی کا اعلان کرنا پڑا۔ لہٰذا خدا خدا کر کے وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں ایران سے بجلی درآمد کرنے کی منظوری حاصل کی گئی ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت جب پچھلے 5،6ماہ سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کوشش کر رہی ہے بالآخر اسے جزوی کامیابی تو ہو ئی ہے لیکن طالبان کی قیادت نے فوری طور پر تمام مطالبات منظور نہ ہونے پرجنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرکے حکومت کے لئے ایک نئی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو حکومت میں طالبان سے مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ہیں کی کوششیں رائیگاں ہوتی نظر آرہی ہیں تاہم وہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے طالبان کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ انہیں اپنی ان کوششوں میں کس حد تک کامیابی ہوتی ہے اس بات کا انحصارطالبان کے مطالبات کی منظوری پر منحصر ہے طالبان نے اپنے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اسے سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اسی طرح فوج طالبان کے لئے ”پیس زون“ بنانے کے لئے تیار ہے اور وہ اس علاقے سے نہیں نکلنا چاہتی جو اس نے بڑی تگ و دو کے بعد طالبان سے خالی کرایا ہے۔
گذشتہ ہفتے سابق صدر آصف علی زرداری کی وزیر اعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے تاثر دیا گیا تھا کہ وہ سیینٹ میں قانون سازی میں تعاون کرے گی لیکن سردست صورت حال یہ ہے کہ جب حکومت نے سینیٹ میں ”تحفظ پاکستان ا?رڈننس2014ء پیش کیا تو اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور اس بل کو سرد خانے میں ڈالنے کے لئے مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کو بھجوا دیا جہاں پہلے ہی قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے بل التوا میں پڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان بظاہر نواز شریف آصف زرداری ملاقات کو غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ”اکٹھ“ کا تاثر دے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری ،جو اپنے دور حکومت میں جنرل(ر) پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں تو قرار واقعی سزا نہ دلوا سکے اب وہ موجودہ حکومت سے توقعات باندھ رہے ہیں۔دوسری طرف ان کی جماعت 12اکتوبر 1999ء کے اقدام سے کارروائی شروع کرنے کی بات کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتی ہے۔ سیاست کے اس باب میں جنرل پرویز مشرف کا موقف ہے آصف علی زرداری ” وزیر اعظم محمد نواز شریف کو قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں “ کا نعرہ لگا کر انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ شائدیہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ”عقابوں“ کی جانب سے پیپلز پارٹی سے ”رومانس“ بڑھانے پر ” تحفظات “ کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ اسی لئے آصف علی زرداری کی وزیر اعظم محمد نوازشریف سے ملاقات میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان شریک ہوئے اور نہ ہی دونوں آصف علی زرداری سے سیاسی امور پر بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Challengo Se Nabaradazma Hakomat Ka Imtehan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 April 2014 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.