دریاوٴں کی دھرتی صحراوٴں میں بدلنے لگی.....

پاکستان کو ایھتوپیابنانے کیلئے بھارت کی آبی جارحیت ! ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے سے اوسطاَ َسالانہ 20 ملین ایکڑفٹ پانی ضائع ہوتا ہے

منگل 17 جولائی 2018

daryaaon ki dharti sehraoon mein badalny lagi
 پاکستان میں پانی و تو انائی کا شدت سے بڑھتا ہوابحران لمحہ فکریہ سے کم نہیں کیونکہ بڑی تیزی کے ساتھ دریاوٴں کی دھرتی صحراوٴں میں بدل رہی ہے ۔پاکستان اس وقت مختلف النوع سنگین تر ین بحرانوں سے دور چار ہے جن میں بد امنی ،توانائی بحران اور دیگر در پیش چیلنجز کے بعد سب سے بڑا مسئلہ پانی کاہے جو شروع دن ہی سے پاکستان کو لاحق ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں پانی کے بحران میں شدت آنے کاخد شہ بھی ظاہر کیاجا رہا ہے ،اب تو الٹی میٹم بھی دے دیاگیا ہے کہ آئندہ 10برس کے دوران پانی کے ذخائر کے نئے وسائل پیدانہ کئے گئے تو2025ء تک پاکستان عالمی فہرست میں ان ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا جن کوپانی کاشدید بحران در پیش ہے ۔

سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کے دوران کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کو سماعت کیلئے مقرر کر تے ہوئے چیف جسٹس کااس عزم کا اظہار کہ پاکستان کی بقاپانی پر منصحر ہے ،پانی کے مسئلے پرجو بھی ہو سکا کروں گا ،48سال سے کوئی ڈیم نہیں بنالہٰذا اولین تر جیح پانی کے مسئلے کاحل ہے جو قابل تحسین ہے ۔

(جاری ہے)

اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ پانی کی قلت وطن عزیز کے لئے سب سے بڑا ناسور بن چکا ہے ۔

ایک انداز ے کے مطابق 1950ء میں پانی کی فی کس مقدار 5830کیو بک میٹر تھی اور اب یہ صرف ایک ہزار کیو بک میٹر ہے او ر اب خدشہ یہی ظا ہر کیا جارہا ہے کہ 2025ء تک یہ 550کیوبک میٹر رہ جائے گی ،اس وقت قو می سطح پر جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں ان میں سب سے بڑا ایشو بھارت کی آبی جارحیت ہے ۔ بھارت کے پاس 1947میں صرف 300ڈیمز تھے جن کی ا س وقت تعداد 4ہزارتک پہنچ چکی ہے اوران ڈیمزکو 20لاکھ8ہزار مر بع کلو میٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37ہزار 367میگاواٹ بجلی پیداکرنے والے 36پاور سٹیشن کے لئے بھی استعمال کیاجاتاہے ،اس کے بر عکس اگر دیکھا جائے تو زراعت ،توا نائی کے شعبے میں بحران اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے مسائل کے شکار پاکستان میں صرف 18ڈیم ہیں ، پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1974ء کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا جو دنیا بھر کے 10لاکھ ڈیمز کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں ۔

بھارت پاکستان کو ایتھو پیا بنانے کے لئے آبی جنگ کا آغاز کئے ہوئے ہے ۔ پانی کی عدم دستیابی سے بلو چستان ،سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہزاروں انسانی جا نیں ضائع ہو رہی ہیں ،لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں ۔ عالمی سطح پر پانی کے اوسطا َ َ ذ خیر ہ کو اگر دیکھا جائے تو بھارت میں 54جبکہ پاکستان میں صرف 9فیصد ہے ۔ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیر ہ کرنے کے انتظامات درست نہ ہونے کی وجہ سے اوسطََا سالانہ 20ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے اور پانی کی کمی سے پاکستان میں ہر سال سینکڑوں ایکڑ پرمشتمل زمین پر کاشت نہیں کی جاسکتی ۔

دنیا بھر میں چھو ٹے بڑے ڈیموں کی تعداد 10لاکھ ہے جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8300ہزار کیو بک کلو میٹر ہے ، جبکہ عالمی سطح پر دنیا کے کل ڈیموں کا 59.7فیصد ایشیامیں ،21.1فیصد شمالی امریکہ 12.6فیصد افر یقہ ،2فیصد جنوبی افریقہ اور 1.3فیصد آسٹر یلیامیں ہیں ۔ دنیا بھر میں 50ہزار ایسے بڑے ڈیم ہیں جن کی اونچائی 200فٹ سے زائد ہے ۔ بڑے ڈیم کے رکھنے کے حوالے سے 19ہزار ڈیمز کے ساتھ چین پہلے نمبر پر، 8100ڈیمزکے ساتھ امریکہ دوسرے اور بھارت 4ہزار ڈیمز کے ساتھ تیسر ے نمبر پرہے ۔

ڈیموں کی تعمیر سے کوئی بھی انکاری نہیں ،موجودہ حالات میں تو ان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے لیکن یہاں یہ سمجھ سے با لاتر ہے کہ ان ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جارہی ہیں ۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ کام 1953ء میں شروع ہواتھا ،اس ڈیم کی خصو صیت یہ ہے کہ اس میں دریائے سندھ کے علاوہ دریائے کابل ،دریائے کنٹر ،دریائے سوات ،دریائے دیر اور دریائے سوان کاپانی بھی جمع ہو سکتاہے کیونکہ یہ وہ مناسب جگہ ہے جہاں ان دریاوٴں کا اتصال ہو تا ہے ، یادر ہے کہ اس ڈیم کی بالائی سطح کی اونچائی سطح سمندر سے925فٹ رکھی گئی تھی ۔

1991ء میں چار وں صو بائی وزرائے اعلیٰ پانی کی تقسیم کے معاہدہ پر متفق ہوئے اور کالاباغ ڈیم کے لئے گرین سگنل دے دیاگیا ۔پانی کے اس معاہدے کو مشترکہ مفادات کو نسل نے بھی 21مارچ 1991ء کو منظور کیا، اس معاہدے میں یہ بھی طے پایاکہ دریائے سندھ اور دیگر دریاوٴں پر جتنے بھی ممکنہ ڈیم اور واٹر سٹو ریج بنائے جا سکتے ہیں اس کی اجازت دی گئی لیکن ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کی بناء پر اس منصوبے کی تکمیل میں تا حال رکاوٹ بنے ہوئے ہیں،باربار خبردار کرنے کے باوجود اس اہم ایشو پر عالمی عدالت سے اس طرح رجوع نہیں کیاگیا جس طرح ہماری قیادت کو کرنا چاہئے تھا ۔

پانی کے مسئلے کے حل کے لئے اب تک بھارتی قیادت کے ساتھ پاکستان میں حکو متی سطح پر بارہامذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے باوجود باہمی اختلافات بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب بہتر ہونے کی بجائے مزیدکشیدگی کی طرف بڑھتے رہے ہیں، یہاں تک کہ بھارت نے تمامعاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میںآ نے والے پانی کا زبر دستی استعمال شروع کر رکھا ہے ،وہیں پاکستان کی ملکیت کے دریاوٴں پر ڈیموں کی تعمیر کاسلسلہ شروع کرکے ایک ایسے تنازع کو ہوادی ہے جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ کا پیش خیمہ بنتا جارہا ہے ۔

بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پربھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہاہے ،جہلم سے پاکستان رائٹر ز گلڈ ایک معتبرادارہ ہے جوہرسال کتابوں پر ایوارڈ دیتا ہے ۔ گلڈکے تحت 35سال قبل بچوں کو کتابوں پربھی ایوارڈ دئیے جاتے تھے جو بو جوہ بند کر دئیے گئے تھے ۔ اکادمی ادبیات اطفال کے سیکرٹری محمد وسیم اور صدر پاکستان چلڈرن میگزین سو سائٹی و ایڈ یٹر پھول محمد شعیب مرزا نے سیکر ٹری گلڈ جا وید طفیل سے گزارش کی کہ پہلے کی طرح بچوں کے ادب پربھی ایوارڈ زدئیے جائیں ۔

انہوں نے اس تجویز کو منظور کر لیااور 2016ء ایک اور بگیہار سے دونہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اورراوی کاپانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایاجارہاہے ۔جہلم پر12اور چناب پر مزید 20چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصو بوں پر بھی کام جاری ہے اور ہے تمام آبی تجاوزات ان دریائے پر ہو رہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میںآ تے ہیں، معاہدے کے مطابق ان دریاوٴں کاپانی روکنے اور ان پر ڈیم بنانے کابھارت کو کوئی حق نہیں ہے ۔

پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا میں بچوں کے لئے شائع ہونے والی کتابوں پر ایوارڈ ز دینے کا اعلان کیاگیا۔ جس کے نتیجے میں 13کتابیں مقابلے کے لئے آئیں ۔ منصفین نے جائزے کے بعد تین کتابوں کو ایوارڈکا حقدار قرار دیا ۔ان میں ڈاکٹر طاہرہ ارشد کی انگریزی کتاب STORIES FROM LIFE OF MUHAMMAD،نذیر انبالوی کی اردو کتاب میرے ابو ، اچھے ابو اور محمد شعیب مرزا کی پنجابی کتاب شرارتی گلہری امن داوٴپر لگا ہواہے ، وہیں پاکستانی معیشت کی بنیاد زراعت تباہی کی طرف گامزن ہے ، زرعی لحاظ سے دنیا کا زرخیز ترین تصو ر کیاجانے والا خطہ پانی کی کمی کے سبب بنجر ہو تا جارہاہے ۔

بھارت کی طرف سے آبی جارحیت کی حکمت عملی اور اس پر عملدر آمد دنوں نہیں سالوں کی بات ہے،گزشتہ کئی برس سے بھارت نے پاکستانی دریاوٴں پر بھی ڈیم بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ،لہٰذا یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ پاکستانی قیادت مجرمانہ کو تاہی کو ترک کرتے ہوئے ازلی دشمن بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر تے ہوئے ڈیموں کی تعمیر یقینی بنائے تاکہ تو انائی او رپانی کے بحران پر مکمل کنٹرول کیاجاسکے ۔

شامل ہیں۔ محمد شعیب مرزا کی اس کتاب کو حکو مت پنجاب نے شفقت تنویر مرزا ایوارڈ سے نواز اتھا ۔ ایوارڈ پرل کانٹی نینٹل ہو ٹل لاہور میں پُر وقار تقر یب میں دئیے گئے معروف ادیبہ وناول نگار بشریٰ رحمن نے ایوارڈ تقسیم کئے ۔اکادمی ادیبات اطفال کی طرف سے اظہار تشکر کے طور پر سیکرٹری گلڈ جاوید طفیل اور منصفین پرو فیسر امجد شاکر عبدالعلی اور امتیاز عارف کو خصو صی شیلڈ زپیش کی گئیں ۔بچوں کے ادیبوں نے ادب اطفال ایوارڈ کے دوبارہ اجراء کو خوش آئند قراردیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی ہو گئی ا مو قع پر سیکر ٹری گلڈکا شکریہ بھی ادا کیاگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

daryaaon ki dharti sehraoon mein badalny lagi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 July 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.