ارطغرل غازی سیزن 3 اور4 ، مہم کاراچائیسار !!!

قحط زدہ اور خستہ حال " کائی قبیلہ " اس امید پر بازنطینی سرحدوں پر آباد ہوتاہے کہ ایک دن یہ علاقہ ان کا اپنا وطن بنے گا۔ کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے , اسی وجہ سے " کائیوں " کی امید بھی زندہ تھی ۔

عائشہ نور منگل 9 جون 2020

ertugrul ghazi 3 - 4
قحط زدہ اور خستہ حال  " کائی قبیلہ " اس امید پر بازنطینی سرحدوں پر آباد ہوتاہے کہ ایک دن یہ علاقہ ان کا اپنا وطن بنے گا۔ کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے , اسی وجہ سے " کائیوں " کی امید بھی زندہ تھی ۔ حالات کا جبر اس حد تک گیا کہ ان کا ہم مذہب " چاودار " قبیلہ بھی علاقے میں اپنی تجارتی مہارتوں کی بالادستی برقرار رکھنے کےلیے " کائی " قبیلہ کو سخت وقت دیتاہے۔

" یہ معاملہ سیمون کے " ہانلی بازار " میں ایک نئ کشمکش کو جنم دینے کا باعث بنا۔ جوکہ دراصل " نائٹ ٹمپلرز " یعنی صلیبی جانبازوں کا استاد " بتسمہ یحییٰ "تھا۔ چنانچہ صورتحال کو سمجھنےکےلیے " نائٹ  ٹمپلرز " کاتاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ یہ مذہبی رحجانات کی حامل  تنظیم " پاپائے روم " کےزیراثرتھی , جن کا مقصد امور سلطنت و سیاست  پر  مذہبی چھاپ ڈالناتھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے فوجی سرگرمیوں کا عیسائیوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ / دفاع     کےلیےکیاتھا۔ ان کے خاص مقاصد میں بیت المقدس کو مسلمانوں سے واپس لینا , بیت المقدس / مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر  اور اس کےلیے آل موسیٰ   و ہارون علیہ السلام کےچھوڑے ہوئےتبرکات پر   مشتمل " تابوت سکینہ " کی تلاش شامل تھی ۔ بیت المقدس کو  مسلمانوں سے واپس لینےکی اسی خواہش کے پیشِ نظر " نائٹ ٹمپلرز" ننے ہمیشہ مسلمان  سلاطین کےخلاف " صلیبی جنگوں میں بھرپورحصہ  لیا۔

اپنی جنگی ضروریات کے پیش نظر وہ " تجارتی برتری " کی تگ ودو میں ہمیشہ مصروف رہتے۔ " ہانلی بازار " کا مالک " سیمون " بھی اسی وجہ سے دولت جمع کرنے میں دلچسپی لیتاتھا جبکہ اس کی بہن " ماریہ " ان  کاروباری عزائم کی راہ میں رکاوٹ  ڈالنےوالوں سےنمٹنےکےلیے      مختلف قسم کے " نباتاتی زہر " تیار کرنےمیں خاص مہارت رکھتی تھی۔ جبکہ " ہانلی بازار" کےاردگردکے علاقوں کےمسلم و غیرمسلم عوام " سیمون " کےغیرمنصفانہ نظام سے   سخت ناخوش تھے۔

ایسی صورتحال میں " ارطغرل  غازی " نے " ہانلی بازار " کو فتح کرنا ضروری سمجھا تاکہ سودی نظام , ظالمانہ محصولات کےبوجھ اور غلاموں کی بےرحمانہ تجارت کا خاتمہ  ہوسکے ۔ اس کے بعد وہ سلجوقی سلطان علاووالدین کیکوباد کی ہدایات کےمطابق " کاراچائیسار " قلعےپر حملہ آور ہوئے تاکہ ملحقہ علاقوں اور ہانلی بازار کو   بازنطینی گورنر کی سازشوں سے محفوظ بنایاجاسکے ۔

اس مرحلے پر غدار سلجوقی امیر " سعدتین کوپیک " نے بازنطینی گورنر اور ڈاکوؤں کی مددسے " کائی قبیلے اور ہانلی بازار کی تجارت " دونوں کو حتی المقدور نقصان پہنچایا ۔ اور اس مقصد کےلیے " چاوودار قبیلے " کو بھی بھرپور طورپر استعمال کرنےکی کوشش کی ۔ مگر " ارطغرل غازی " چاوودار کو اتحادی بناکر" کاراچائیسارقلعہ " فتح کرنے میں کامیاب رہے۔ جس سے خوش ہوکر  " سلطان علاووالدین کیکوباد نے" ارطغرل غازی " کو سردار اعلیٰ کا عہدہ  دےدیااور " سوگوت و دومانچ " کےعلاقےبھی " ارطغرل غازی کو سونپ دئیےگئے ۔


اس دوران مخالفین کو زہر دینے کے واقعات تسلسل سے جاری رہے۔ "ارطغرل غازی , ترگت , اصلاحان خاتون حتٰی کہ سلطان علاووالدین بھی اس کا نشانہ بنے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ عمل انسان کے جذبۂ انتقام , حسد , کینہ , بغض و عداوت کے منفی رحجانات کو تقویت دینے کےلیے کیاجاتاہے ۔ اور جب اس میں حصولِ اقتدار کی ہوس شامل ہوجائے , تو تخت و تاج کےلیے انسان کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا۔

" تخت نشینی " کےلیے مختلف سلطنتوں کے شہزادوں کے درمیان خون ریز جنگیں تاریخ کا ایک سیاہ باب سمجھی جاتی ہیں ۔ ایسی ہی بے شمار کوششوں نے اسلامی دنیا کی کئ عظیم الشان سلطنتوں کی بنیادوں کو کمزور کردیا۔ کیونکہ ایسی باہم لڑائیوں میں شاہی خاندان کے افراد نے ایک دوسرے کی جان لینے کےلیے درباری امراء اور ریاستی فوج کے وسائل خانہ جنگیوں میں جھونک دئیے۔

تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ تر ریاستوں کے زوال کی بنیادی وجہ حصولِ اقتدار کی دوڑ ہی تھی ۔ ارطغرل غازی کے دور میں بھی سلجوقی سلطان علاوالدین کیکوباد کی اپنی بیوی ماہ پری خاتون نے سعدتین کوپیک کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو زہر دے کر قتل کرنے سازش میں شرکت کی اور ساتھ ہی منگول وحشیوں کے خلاف ایوبی سلطنت کے ساتھ اتحاد کو تقویت دینے کی غرض سلطان علاووالدین کےنامزدکردہ     شہزادے " قلیج ارسلان اور اس کی ماں ایوبی ملکہ عدیلے خاتون کو بھی قتل کروا دیا۔

جس سے سلجوقی سلطنت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئ اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ امیر سعدتین کوپیک نے تخت و تاج کی وراثت کا دعویٰ کردیا۔ اگرچہ بچ جانے والے شہزادے غیاث الدین نے " کائی قبیلے " میں پناہ لے کر " ارطغرل غازی " کی مدد سے " سعدتین کوپیک " کو قتل کروا دیا مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ سلجوق سلطنت پھر کبھی نہ سنبھل پائی ۔ منگول وحشیوں کے خلاف ایوبی اور سلجوقی اتحاد کا خواب پورا نہ ہوسکا۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منگول کالی آندھی کی طرح اناطولیہ میں سرائیت کرتے چلے گئے اور وہاں ایک طویل اور تاریک خون ریزی کے بھیانک دور کا آغاز ہوگیا , جس کے نتیجے میں سلجوق سلطنت کے زوال پر تصدیق کی مہر ثبت ہوگئ۔
اگر ہندوستان کے عہدِ مغلیہ کا جائزہ لیا جائے تو سلجوقی سلطنت کی طرح مغلیہ سلطنت کے زوال کا اہم سبب بھی شہزادوں کے درمیان تخت نشینی کےلیے ہونے والی خونریز جنگیں تھیں ۔

جنہوں نے مغلیہ طاقت کا صفایا کردیا ۔ جس کے نتیجے میں جاٹ ,  مرہٹے , ہندو راجا , مسلم امراء اور سکھ بغاوتیں کرنےلگے ۔ اورمغلیہ سلطنت کی انتظامی , مالی اورعسکری حالت خراب ہوتی چلی گئ اور بالاآخر 1857 کی  جنگ آزادی میں شکست کےبعد ہندوستان مکمل طورپرتاج برطانیہ کےماتحت چلاگیا اور مغلیہ سلطنت کا سورج ہمیشہ کےلیےغروب ہوگیا اور آخری مغل فرمانروا " بہادرشاہ ظفر " اپنی موت 7 نومبر1862 تک " رنگون , برما" میں انتہائی کسمپرسی اور لاچاری کی حالت میں قیدرہے -

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ertugrul ghazi 3 - 4 is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 June 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.