ہماری قابل فخر خواتین

پاکستانی اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ اس کی تاریخ کے صفحات پرخواتین کا کردار سنہری حرفوں میں درج ہے ۔تحریک پاکستان میں خواتین کا مثالی کردار کس سے پوشیدہ ہے ؟

Shazia Anwar شازیہ انوار جمعہ 19 مارچ 2021

Hamari Qabil e Fakhar Khawateen
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیدا ہونے والوں کو جوڑوں کی صورت میں پیدا کیا ہے یعنی مذکر اور موئنث‘ مرد اور عورت ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کی پسلی سے عورت کو پیدا کیا اور اسے ایک خاص مرتبہ و مقام عطا کردیا۔ دین کامل نے عورت کو اہمیت اور عزت دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا لیکن بشری کمزوریوں نے مرد کو برتر اور عورت کو کم تر گرداننا شروع کردیاجبکہ عورتوں نے ہر میدان میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے خودکو منوایا ‘باوجود اس کے عورتوں سے ہونے والی زیادتیوں کا سلسلہ گزرتے وقت کیساتھ دراز ہوتا چلا گیا ۔

ایک ایسا موقع آیا جب امریکہ میں خواتین نے اپنی تنخواہ کے مسائل سے متعلق احتجاج کیا جسے گھڑسوار دستوں کے ذریعے کچل دیا گیا۔اس کے بعد دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور 1908ء میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے ”ویمن نیشنل کمیشن“ بنایا اور بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔

(جاری ہے)

یہ دن سب سے پہلے 28 فروری کو 1909ء میں امریکہ میں منایا گیا‘ پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910ء میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی۔ 8 مارچ 1913ء کو پورے یورپ میں خواتین کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں اور آگاہی پروگرام منعقد کئے گئے ۔اس کے بعد سے ہر سال مارچ کی 8 تاریخ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ چین‘روس‘ نیپال‘کیوبا اور کئی دیگر ممالک میں اس دن خواتین کارکنان کی چھٹی بھی ہوتی ہے ۔


اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کو سیاسی معاشی اور سماجی شعبے میں برابری ‘اچھی صحت و تعلیم‘ جائیداد میں حصہ‘مساوی معاوضہ‘ نان نفقہ‘ پبلک ٹرانسپورٹ میں بڑا یا مساوی پورشن اور اہم عہدوں پر تقرری اور آگاہی ہے۔
پاکستانی اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ اس کی تاریخ کے صفحات پرخواتین کا کردار سنہری حرفوں میں درج ہے ۔تحریک پاکستان میں خواتین کا مثالی کردار کس سے پوشیدہ ہے ؟بی اماں (مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ )‘ مادر ملت فاطمہ جناح‘بیگم رعنا لیاقت علی خان‘بیگم جہاں آراشاہنواز‘ بیگم شائستہ اکرام اللہ اور ایسے کئی روشن نام ہمارے دلوں پر نقش ہیں جنہوں نے تحریک آزادی میں اپنا موثر اور بھرپور کردار ادا کیا۔

تھوڑاآگے بڑھیں تو بے نظیر بھٹو جیسا روشن ستارہ بھی پاکستان کے ہی نصیب میں آیا جو دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم تھیں اور اس وقت مریم نواز شریف نامی ستارہ بھی پاکستانی سیاست کے میدان میں پوری آب و تاب سے جگمگارہا ہے۔
آج ایک جانب جہاں ہماری مائیں گھروں میں اپنی اولاد کو اچھا دینی اور تعلیمی ماحول فراہم کرنے کیساتھ ساتھ بہتر زندگی گزارنے کی تربیت دے رہی ہیں‘وہیں بے شمار خواتین معاشی مسائل کے حل کیلئے گھروں سے باہر نکل کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہیں۔

کوئی ایسا شعبہ حیات نہیں جس میں پاکستانی عورت نے اپنا مقام نہ منوایا ہو۔آئی ٹی کی دنیا میں ارفہ کریم ‘ کھیلوں کے میدان میں نسیم حمید‘ ادبی دنیا میں فاطمہ ثریا بجیا‘بانو قدسیہ‘بشریٰ رحمان‘فہمیدہ ریاض‘ حسینہ معین‘ میڈیا انڈسٹری میں سلطانہ صدیقی ‘شارمین عبید چنائے‘ مومنہ درید‘ مہرین جبار ‘شاعری کی سلطنت میں زہرہ نگاہ‘پروین شاکر‘ فاطمہ حسن ‘ سماجی خدمات میں عاصمہ جہانگیر‘ طاہرہ عبداللہ‘ مہناز رفیع‘حنا جیلانی‘ بلقیس ایدھی‘ شاہین عتیق الرحمان ‘زہرہ سجاد زیدی‘ زبیدہ جلال‘ملالہ یوسف زئی‘صادقہ صلاح الدین‘سسٹر نسیم جارج‘ زاہدہ قریشی ‘ یاسمین لاری‘ سبین محمود اورشازیہ شاہین‘ صحافت کے میدان میں نسیم زہرہ‘شیری رحمان ‘ شیریں مزاری‘ڈاکٹر عائشہ صدیقہ‘زاہدہ حنا‘عاصمہ شیرازی ‘عاصمہ چوہدری ‘ مہربخاری ‘ ریحانہ حاکم ‘ سیاسی ایوانوں میں زرتاج گل ‘ حنا ربانی کھر‘فہمیدہ مرزا‘عطیہ عنایت اللہ‘شیری رحمان‘شرمیلا فاروقی ‘ فردوس عاشق اعوان‘شمیلہ اسلم‘شازیہ مری‘ماروی میمن‘ تہمینہ دولتانہ‘ شیریں مزاری‘راحیلہ قاضی‘ خولہ امجد‘ذکیہ شاہنواز ‘ فخرالنساء کھوکھر‘ نسرین جلیل‘مسرت ہلالی ‘حمیدہ کھوڑو‘ جمیلہ رزاق ‘ فریال تالپور‘فوزیہ وہاب‘مریم نواز‘غنوی بھٹو‘مہنازرفیع‘بشری رحمان‘فریال گوہر‘ماجدہ رضوی‘ خوش بخت شجاعت‘ شمیلہ اسلم ‘ ڈاکٹر نوشین حامد‘راحیلہ خادم‘ حنا بٹ‘بشری انجم‘کنول لیاقت‘سبین گل خان‘سعدیہ سہیل رانا‘عظمی کاردار‘ ساجدہ بیگم‘ ذکیہ شاہنواز ‘ اداکاری و گلوکاری کے شعبے میں بشری انصاری ‘ عابدہ پروین‘ خالدہ ریاست ‘شعبہ پولیس شہزادی گلفام ‘ جانوروں کے حقوق کے حوالے سے عائشہ چندریگر ‘تاریخ کے میدان میں عائشہ جلال ‘شعبہ سائنس میں آصفہ اختر‘ آرمی میں پہلی لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر ‘ماہر فلکیات نرگس مالوالہ ‘چترال سے تعلق رکھنے والی فٹ بالر کرشمہ علی ‘ طب کی دنیا میں ڈاکٹر و محقق حنا چوہدری سمیت دیگر بے شمار خواتین اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھارہی ہیں۔


چترال سے تعلق رکھنے والی آئی سرجن ڈاکٹر زبیدہ سرانگ کا نام بھی قابل فخر ہے جن کی آنکھ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتاب کو دنیا کی آل ٹائم بیسٹ کتاب قرار دیا گیا‘یاد رہے آنکھ پر سب سے پہلے کام مسلمان سائنسدان ابن الہیثیم نے کیا تھا۔
ہماری قابل فخر خواتین میں زارا نعیم کا نام بھی شامل ہے جس نے ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاوٴنٹنٹس (اے سی سی اے) کے فنانشل رپورٹنگ کے امتحان میں 179 ملکوں کے لاکھوں طلبہ میں سے سب سے زیادہ نمبرحاصل کئے۔


ہر گزرتا ہوا دن ثابت کررہا ہے کہ ہماری عورت ہر میدان میں نمایاں اور کامیاب ہے اور اس کی کامیابی کے یقینا اثررات دوررس ہو ں گے۔ عورت کے ساتھ غیر مساوی سلوک کی ذمہ دار حکومت‘ قانون یا مذہب نہیں ہے بلکہ معاشرے کی فرسودہ روایات اور بوسیدہ نظام ہے‘ باوجود اس کے پاکستانی معاشرے میں عورت کیلئے ترقی کے تمام مواقع موجود ہیں۔ عورتوں کے مسائل کے سدباب کیلئے ہردورمیں حکومتیں قانون سازی کرتی رہی ہیں تاہم بہت سی قانونی پیچیدگیوں‘ معاشرتی و سماجی رکاوٹوں کے باعث ان قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

عورتوں کے تحفظ ‘ حقوق نسو اں اور ان پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کیلئے قانونی شقیں موجود ہیں جن کے مطابق خواتین اپنے تحفظ کے خاطر عدالتوں سے فوری رجوع کرسکتی ہیں مگر صرف قانون ہی کسی کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتابلکہ سماجی رویئے اور اجتماعی سوچ میں تبدیلی بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ باصلاحیت اور کچھ کر دکھانے کا عزم رکھنے و الی خواتین کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے ۔

پاکستان میں خواتین کیلئے آگے بڑھنے کے مواقع محدود جبکہ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں لامحدود ۔خواتین کا عالمی دن متقاضی ہے کہ ایک جانب حکومت حساس معاملات پر قانون سازی کرکے مسائل کو حل کرے ‘غیر سرکاری ادارے آگاہی اور معلومات کی فراہمی کی ذمہ داری ادا کریں جبکہ صوبائی ‘قومی اور علاقائی سطح پر موجود اداروں کو خواتین کی حالت بہتر بنانے کیلئے مزید کام کیا جائے ‘ دوسری جانب معاشرہ عورتوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کے حوالے سے اپنے رویئے میں مثبت تبدیلی لائے تاکہ ہم اپنی آدھی آبادی کو ترقی کے عمل کا حصہ بنانے کامیاب ہوسکیں۔ یاد رکھیں کہ تعلیم صحت‘روزگار ‘ سیاست‘ہر میدان میں خواتین کو آگے لاکرہی پائیدارترقی کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hamari Qabil e Fakhar Khawateen is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.