ہم کو اپنی جان سے بھی پیارا پاکستان ہے

796096 مربع کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ دراصل توحید اور ایمان کی تربیت گاہ ہے، اسلام کی اس قدر وسیع و عریض تربیت گاہ دنیا میں کہیں بھی تو نہیں، اسی لیے یہ وطن ہمیں بہاروں اور لالہ زاروں سے بھی زیادہ پیارا ہے، اس وطن پر ہم قربان، اس پر ہمارے بیٹے نچھاور

Hayat abdullah حیات عبداللہ بدھ 27 مارچ 2019

hum ko apni jaan se bhi pyara Pakistan hai
موسم گل چہار سو رنگوں اور خوشبوؤں کی سحر انگیزی بکھیر چکا ہے، آپ کسی گل کدے میں چلے جائیں اور لالہ و گل کا جوبن دیکھ لیں، آپ موتیے اور چنبیلی کی مسحور کن خوشبوؤں سے لطف اندوز ہو لیں، آپ کسی بھی گلشن کے رنگوں، روشنیوں اور تتلیوں کی زیبائی کا مشاہدہ کر لیں، ہمہ قسم کے حسن و جمال سے مرصع یہ تمام تر مناظر ملک پاکستان کی محبت سے ہیچ تر دکھائی دیں گے۔

 پاکستان کی محبت کا لمس کسی سرخ گلاب کی پنکھڑیوں پر پڑنے والی روپہلی کرنوں سے زیادہ لطف آمیز محسوس ہو گا، اس وطن سے منسوب یہ محبت محض رشحات قلم اور شتابیِ فکر تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، یہ ملک ہمیں اپنی سانسوں اور دھڑکنوں سے بھی زیادہ پیارا ہے، واللہ! یہ آشفتہ سری نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اس لیے کہ یہ ملک صرف اور صرف کلمے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، جو لال بجھکڑ آج تک بھارت کی محبت کے دھوکے سے باہر نہیں آئے، وہ بابائے قوم محمد علی جناح کے فرمودات کو پڑھ کر دیکھ لیں۔

(جاری ہے)

ان کے لفظ لفظ میں دو قومی نظریے کی ایمان افروز لَپٹیں، جو عین اسلام سے عبارت ہیں، آ کر ان لوگوں کے دل و دماغ پر چڑھے دھندلکوں کو ختم کر ڈالیں گی۔
مسلم لیگ کا ستائیس واں اجلاس تھا، جگہ منٹو پارک تھی جہاں آج منار پاکستان قائم ہے، تاریخ 23 مارچ 1940ء تھی، اس تاریخی اجلاس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی، خطبہء صدارت بابائے قوم نے دیا، محمد علی جناح کی زبان سے ادا ہونے والے لفظوں کی سوغاتیں دو قومی نظریے کی بنیاد پر اسلامی مملکت کے قیام کے لیے تھیں، آپ نے فرمایا کہ ”ہندو اور مسلمان مذہب کے ہر معاملے میں دو جداگانہ فلسفے رکھتے ہیں دونوں کی معاشرت ایک دوسرے سے مختلف ہے، یہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر ہیں، دو ایسی قوموں کو ایک نظام مملکت میں یکجا کر دینا باہمی مناقشت کو بڑھائے گا اور بالآخر اس نظام کو پاش پاش کر دے گا جو اس مملکت کی حکومت کے لیے وضع کیا گیا ہو'' بھارتی سیاہ زلفوں کے اسیر لوگوں کو بابائے قوم کا وہ خطاب بھی ضرور پڑھ لینا چاہیے، جو انھوں نے 27 نومبر 1945ء کو ایڈورڈ کالج پشاور کے طلبہ سے کیا تھا۔

 آپ کے الفاظ گھی شکر کی مانند تھے کہ ”ہم دونوں قوموں (مسلمان اور ہندو) میں صرف مذہب کا فرق نہیں، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ، ہمارا دین ہمیں ایک ایسا ضابطہء حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے، ہم اس ضابطے کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔“ قرارداد پاکستان درحقیقت ایک عزم تھا، اپنا حق چھین لینے کے لیے تمام باطل قوتوں سے ٹکرا جانے کا عزم، آج کے دانش ور بھی حیران ہیں کہ ایک ناممکن سپنا اور خواب محض سات سالوں میں کس طرح حقیقت کا روپ دھار گیا؟ ان سات سالوں میں کیسی کیسی برق کوندیں؟ کتنی بجلیاں لپکیں؟ اور کیسے کیسے طوفان بادوباراں نے ر اہیں مسدود کیں؟ مگر عزم عالی شان تھا، سو قدم بڑھتے گئے، قربانیوں کا لہو پھول اگاتا چلا گیا۔

ہم صلیبوں پہ چڑھے، زندہ گڑے، پھر بھی بڑھے
وادی مرگ بھی منزل گہ امید بنی
اگر ہم ایمان داری کے ساتھ غور کریں تو انتہائی قلیل عرصے میں دنیا کی سب سے مضبوط اسلامی مملکت کا قیام محض اس لیے ممکن ہوا کہ اس وقت ہم نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اس مملکت میں اللہ کے احکام کو نافذ کریں گے اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔

ہمارے آباؤ اجداد اس مقصد میں اس حد تک مخلص تھے کہ انھوں نے تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا۔
گونج اٹھا تھا نعرہء تکبیر شرق و غرب میں
چھا گیا تھا آسماں پر چاند تارے کا علم
23 مارچ کا بنیادی سبق دو قومی نظریہ ہے دیکھ لیں مودی آج بھی ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے باز نہیں آیا، وہ ہر محاذ پر ہمارے خلاف ایک جنگ چھیڑے بیٹھا ہے، بھارت اور عالم کفر کے بڑے بڑے سردار، پاکستان کو علاقائی فتنوں، لسانی تضادات اور مذہبی منافرت کے بھنور میں دھکیل کراس کو کمزور کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کیے ہوئے ہیں، ہمیں نہ صرف ان سازشوں کو سمجھنا ہے بلکہ اس ادھورے پاکستان کو مکمل بھی کرنا ہے۔

جب تک یہ مکمل نہیں ہو گا ہماری روحوں کو قرار نہیں ملے گا، سب جانتے ہیں کہ جغرافیائی اور مسلم اکثریتی آبادی کے لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ تھی، اس کی اسّی فیصد آبادی مسلمان تھی مگر ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف نے اسے بھارت کے ساتھ شامل کر دیا۔ اس کے علاوہ گورداس پور، ہوشیارپور، جالندھر اور فیروز پور بھی مسلم اکثریتی علاقے تھے، انھیں بھی سازش کے تحت بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا، اس حقیقت کو بھارت بھی بخوبی جانتا ہے، اس لیے وہ یہاں شرارتیں کر کے ان حقائق کو پس منظر میں لے جانا چاہتا ہے، بھارتی جارحیت کے عقب میں چھپا مقصد یہ ہے کہ اگر پاکستان میں یہ شرارتیں نہ کی گئیں تو پاکستان کا باقی ماندہ حصہ جو بھارت کے زیر تسلط ہے، لینے کے لیے پاکستان اپنی کوششیں تیز کر دے گااسی لیے بھارت کروڑوں ڈالر محض ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کر رہا ہے کہ کسی طرح پاکستان پر برتری قائم رکھی جائے مگر بھارت یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ہم سے بہت پیچھے ہے۔

 امریکا میں شکاگو یونیورسٹی سے منسلک سائنس دانوں نے کچھ عرصہ قبل یہ رپورٹ جاری کی تھی کہ پاکستان کے پاس 120 جوہری ہتھیار ہیں جب کہ بھارت کے پاس 100 تا 110 ایٹمی ہتھیار ہیں، سو پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہے، یہ عددی تقابل تو محض حساب کتاب کرنے والوں کے لیے ہے ورنہ ہماری اصل طاقت ایمان، توحید اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ 796096 مربع کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ دراصل توحید اور ایمان کی تربیت گاہ ہے، اسلام کی اس قدر وسیع و عریض تربیت گاہ دنیا میں کہیں بھی تو نہیں، اسی لیے یہ وطن ہمیں بہاروں اور لالہ زاروں سے بھی زیادہ پیارا ہے، اس وطن پر ہم قربان، اس پر ہمارے بیٹے نچھاور۔
رفعتیں اس کے سبب، یہ عظمتوں کی شان ہے
ہم کو اپنی جان سے بھی پیارا پاکستان ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

hum ko apni jaan se bhi pyara Pakistan hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.