انعام کے لالچ میں کشمیری نوجوانوں کا قتل عام

قابض افواج کے جعلی مقابلوں میں 1 لاکھ کشمیریوں کی شہادت کا انکشاف

پیر 25 جنوری 2021

Inaam K Lalach Main Kashmiri Nojwanoon Ka Qatal e Aam
رابعہ عظمت
بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں نام نہاد یوم جمہوریہ منانے سے قبل کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے بہت سے نوجوانوں کو بغیر وجہ کہ گرفتار کیا جا رہا ہے۔وادی میں شدید برف باری سے نظام زندگی متاثر ہے۔عوام جب نان نفقے کے لئے گھروں سے باہر نکلتی ہیں تو انہیں یا تو قتل کر دیا جا رہا ہے یا پھر گرفتار کر لیا جا رہا ہے۔

15 اگست 2019ء آرٹیکل 35 اے،370 کے خاتمے اور کشمیر ہڑپ کرنے کے بعد کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے اٹھانا اور ماورائے عدالت قتل کر دینا بھارتی سیکیورٹی فورسز نے معمول بنا لیا ہے۔کشمیر کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔اس وقت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کشمیریوں کی نوجوان نسل کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

جب ہر تھکنڈہ آزمانے کے بعد بھی بھارت کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ناکام رہا تو اب سیکیورٹی اہلکاروں کو نوجوانوں کا قتل عام کرنے کیلئے انہیں انعامات و مراعات کی لالچ دی گئی ہے۔

شوپیاں انکاؤنٹر بھارتی غاصب افواج کی بربریت و درندگی کی تازہ مثال ہے۔
تحقیقات کے مطابق کہ بھارتی راشٹریہ رائفلز 62 ویں بٹالین کمانڈر کے افسر کیپٹن بھوپیندر سنگھ کو کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے پر ڈالروں سے نوازا گیا۔جبکہ جعلی مقابلوں کی خبریں منظر عام پر لانے کی پاداش ہیں کشمیری صحافیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ کشمیری صحافی قاضی شبلی کو شوپیاں واقعے کی خبر منظر عام پر لانے کی پاداش میں ڈرایا دھمکایا گیا اور مذکورہ خبر واپس لینے کے لئے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا۔

بھارتی فوج کی شکایت پر انہیں 17 روز جیل میں بھی رہنا پڑا۔جہاں انہیں روزانہ تفتیش کے نام پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے پر 27 ہزار ڈالرز کا انعام دیا جاتا ہے۔نیوز ایجنسی اے ایف پی اور کشمیری صحافیوں نے بھارتی پولیس اور مسلح افواج کی تفتیشی دستاویزات میں ہزاروں جعلی انکاؤنٹر کا انکشاف کیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ بھارتی مسلح افواج کے کمانڈرز حکومتی ایماء پر ان فوجی افسران کے لئے کیش ایوارڈز کا اہتمام ڈالرز کی نقد ادائیگیوں اور بہادری کی اسناد کی صورت کرتے ہیں۔جینو سائیڈ واش ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس سمیت کشمیری میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک ایک لاکھ کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا جا رہا ہے۔
جبکہ جعلی مقابلوں کی خبریں منظر عام پر لانے کی پاداش ہیں کشمیری صحافیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری نوجوانوں کے غیر قانونی قتل کے پس پردہ بھارتی فوج کو دیئے گئے خصوصی اختیارات میں جن کی بناء پر انہیں سزا سے استثنیٰ حاصل ہے۔شوپیاں جعلی مقابلے میں تین بے گناہ کشمیریوں کی شہادت پر کشمیری صحافی مزمل جلیل نے بتایا کہ بھارتی قابض افواج نے ان کا قتل کیا۔جو کچھ آج شوپیاں میں کیا گیا یہی پتھری بل،کنن پوش پورہ،مڑھل،گاؤ کدل،بجبہاڑہ،ہندوارہ،زکورہ،بٹہ مالو،سوپور، ہانڈی پورہ میں دہرایا جا چکا ہے اور یہ قتل عام اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔

نہ ہی چھٹی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کے قتل عام میں ملوث اصل مجرموں کو پکڑا جا سکا ہے اور نہ اس واقعہ کے فقط چار روز بعد پتھری بل میں ایک جعلی مقابلے میں شہید کئے گئے پانچ کشمیریوں کے قاتلوں کو سزا دی گئی ہے اور نہ ہی براک پورہ ہلاکتوں کے ملوث سیکیورٹی اہلکاروں اور افسروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔
غیر سرکاری بھارتی تنظیم سینٹر فارپیس اینڈ پروگریس کے چیئرمین او پی شاہ نے بھارتی وزیراعظم مودی کے نام خط میں لکھا ہے کہ دسمبر 2020ء کو سری نگر کے نواح میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے تین کشمیری نوجوانوں کے قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کرائیں۔

بھارتی فوج کی 02 راشٹریہ رائفلز نے مقبول وانی،اطہر مشتاق دانی اور زبیر احمد لون کی سری نگر کے لاوی پورہ علاقے میں قتل کیا تھا۔ نوجوانوں کے لواحقین کے مطابق مارے جانے والے بے گناہ تھے۔او پی شاہ نے کہا اگر ہم کشمیریوں کے دل و دماغ کو جیتنا چاہتے ہیں تو ”جعلی مقابلوں“ کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔لہٰذا،بھارتی حکومت اور اس کی فورسز پر یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک مقابلے کی مکمل تحقیقات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان معاملات میں جہاں فورسز نے غیر قانونی ہلاکتوں کا ارتکاب کیا ہے،وہاں انصاف بروقت انجام دیا جاتا ہے۔

جموں و کشمیر انٹرنیشنل فورم برائے جسٹس اینڈ ہیومن رائٹس،انسانی حقوق کے کارکن محمد احسن ادنتو نے انکشاف کیا ہے کہ سیرت الحسن سمیت 19 کشمیری طلبا جعلی مقدمات میں گزشتہ 4 سال سے جیل میں بند ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بالخصوص،ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیا واچ ان طلبا کی رہائی کے لئے کردار ادا کریں۔گزشتہ سال 2020ء میں بھارتی افواج کے ہاتھوں تین سو نہتے کشمیری بہیمانہ طریقے سے قتل ہوئے جن میں کم عمر نوخیز بچے بھی شامل ہیں۔

بھارتی حکومت نے ان سفاکانہ واقعات کی کوریج کے لئے آنے والے غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کے مقبوضہ وادی میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی افواج کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں جبکہ وادی میں مکمل طور پر کرفیو نافذ ہے۔جبکہ مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا حالیہ انکشاف اقوام متحدہ اور مہذب دنیا کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔


”کشمیر ریڈر“کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں جعلی مقابلوں کی ایک لمبی داستان ہے۔جو 1980ء کے آخر میں اس وقت اپنائی گئی جب کشمیریوں نے آزادی کے لئے تحریک کا آغاز کیا تھا۔اس تحریک کے فوری بعد مقبوضہ کشمیر میں اسپیشل پاورز ایکٹ کی مدد سے بھارتی فوج کو جعلی انکاؤنٹر سمیت دیگر ظالمانہ کارروائیوں کے لئے خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے۔

”ہندوستان ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے مختلف اداروں نے مقبوضہ کشمیر میں 25,000نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی فہرست جاری کی ہے۔بھارتی میڈیا کا کہنا ہے دنیا”پتھری بل“کا واقعہ کیسے فراموش کر سکتی ہے۔جب بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو حراست میں لے کر جعلی مقابلے میں مروا دیا تھا۔اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ نوجوان 20 مارچ 2000ء میں 35 سکھ باشندوں کے قتل میں ملوث تھے۔

یاد رہے کہ اس وقت امریکی صدر بل کلنٹن بھارتی دورہ کرنے والے تھے۔2010ء میں بھی ایک واقعے میں بھارتی فوج نے ایک پستول رکھنے کے معمولی کیس میں تین کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اس واقعے میں ملوث فوجی افسروں میں سے صرف دو کو معطل کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے مختلف اداروں نے جن دس ہزار افراد کے لاپتہ ہونے کی فہرست کئی بار جاری کی ہے اور جو ساڑھے سات سو سے زائد نامعلوم قبریں کشمیر کے اطراف میں ہیں ان میں بیشتر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ بھارتی فوج کے جعلی انکاؤنٹر‘میں مارے گئے ہیں اور ان کو خفیہ طریقے سے پھر دفنایا گیا ہے۔

سابق مقامی حکومتوں نے بھی ان کی ایک دو فہرستیں جاری کر دی تھیں لیکن اس پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ کرفیو،شٹ ڈاؤن اور دیکھتے ہی گولی مار دینے کی بھارتی افواج کی پالیسی کی وجہ سے ہزاروں کشمیری زیر زمین مدفون ہو چکے ہیں۔
سانحہ پتھری بل کی کہانی 20 مارچ2000ء سے شروع ہوتی ہے جب مقبوضہ کشمیر کے ضلع اسلام آباد(اننت ناگ) کے علاقہ چھٹی سنگھ پورہ میں بھارتی فوج نے رات کے اندھیرے میں حملہ کرکے 36 سکھوں کو قتل کر دیا تھا اور اس الزام لشکر طیبہ پر عائد کر دیا تھا۔

امریکی صدر بل کلنٹن کی بھارت آمد پر اس کے خون آشام واردات کا مقصد واضح تھا کہ ایسا کرنے والے خفیہ لیکن بھارتی ہاتھ چاہتے تھے کہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد برائے حق خود ارادیت کو دہشت گردی کے طور پر امریکی صدر سمیت ساری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔قتل عام کے بعد جس طرح پروپیگنڈہ کیا گیا،اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ انہیں مذموم مقاصد کے لئے چھٹی سنگھ پورہ میں انسانیت کا قتل عام کا المناک ڈرامہ رچایا گیا۔

قتل عام کے خلاف زبردست عوامی احتجاج اور ہر روز بڑھتے عوامی رد عمل اور غصے کو دیکھ کر واقعہ کے ٹھیک پانچ دن بعد یعنی 25 مارچ 2000ء کو اسی ضلع میں بھارتی فوج نے 5 نوجوانوں کو شہید کیا اور ساتھ ہی ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ سکھوں کو قتل کرنے والے پانچوں غیر ملکی مجاہدین قتل کر دیئے گئے ہیں۔پھر پانچوں لاشیں لوگوں کو دکھائے اور پوسٹ مارٹم کے بغیر فوج کی جانب سے خود ہی دفنا دی گئیں۔


بھارتی فوج نے اس کے حوالے سے کہا کہ ”مجاہدین“ کو ایک مکان میں بارود سے اڑا کر نشانہ بنایا گیا جس کے باعث ان سب کی لاشیں مکمل طور پر ناقابل شناخت ہوئی گئی تھیں۔اس کے ساتھ ہی مقامی لوگوں نے بتایا کہ قتل کئے جانے والے افراد مقامی نوجوان تھے جنہیں 21 سے24 مارچ کے درمیان 17 افراد کے ساتھ گرفتار کرکے لاپتہ قرار دیا گیا تھا۔ان شہادتوں کیخلاف الگ سے جب زبردست مظاہرے شروع ہوئے تو مقامی انتظامیہ نے 30 مارچ کو قبریں کھولنے اور نئے سرے سے تحقیقات کا اعلان کیا۔

اس دوران یہ ثابت بھی ہو گیا کہ قتل ہونے والے سبھی نوجوان مقامی مزدور تھے۔اس کی تصدیق ہیومن رائٹس واچ نے بھی کی۔قبروں سے نکالی لاشوں کے ڈی این اے سے بھی ثابت ہوا کہ شہداء مقامی بے گناہ نوجوان تھے۔پھر معاملہ آگے پڑھا تو مزید ثابت ہوا کہ بھارتی فوج کی 7 راشٹریہ رائفلز کے بریگیڈئیر اجے سکسینہ،لیفٹیننٹ کرنل براہیندرا،کرنل پرتاپ سنگھ،میجر سوبھر شرما،میجر امیت سکسینہ و دیگر قتل عام میں شامل تھے۔

اس پر فوج کے خلاف مقدمہ شروع ہوا۔
تحقیقات ہوتی رہیں لیکن کسی کو سزا نہ ملی۔3 اپریل2000ء کو سانحہ پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر کھلے عام گولیاں برسائی گئیں جس کے نتیجے میں مزید 7 کشمیری شہید ہوئے لیکن شہداء کے قاتلوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔براک پورہ واقعہ کا براہ راست تعلق پتھری بل سانحے سے جڑتا ہے ۔براک پورہ احتجاج میں 10 کشمیری شہید جو پتھری بل جعلی مقابلے میں مارے گئے شہداء کے رشتہ دار تھے اور اس قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے تاہم ریاستی و مرکزی،دونوں سرکاروں نے براک پورہ ہلاکتوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کیا اور یوں اس کیس میں بھی انصاف کا خون کر دیا گیا۔

کشمیریوں کی نسل کشی اگرچہ 1947ء سے کی جا رہی ہے،جموں کے مسلمانوں کا ایک بہت گہری سازش کے تحت صفایا کیا گیا لیکن گزشتہ 30 کے دوران جموں اور کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں اور وادی کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مہیب سلسلہ بدستور جاری ہے اور بھارتی فوج اور ظالم ریاستی پولیس مقبوضہ جموں و کشمیر میں نوجوانوں کو ایک ایک کرکے منصوبہ بند طریقے پر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔

دراصل بھارت کی طرف سے قابض فوج اور ریاستی پولیس کو افسپا(AFSPA) جیسے انسانیت کش کالے قانون کے ذریعے سے اس امر کی کھلی چھوٹ دی گئی اور بھارتی فوج اور ظالم ریاستی پولیس اہلکاروں کو یہ حق مل چکا ہے کہ جب چاہیں،جس وقت چاہیں اور جہاں چاہیں کشمیریوں کو ذبح کر دے ۔کشمیری عوام پچھلے 73 برس سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ وہاں تعینات 10 لاکھ بھارتی افواج کے مظالم کا شکار ہیں۔کشمیریوں کی اس آزادی کا وعدہ اور یقین دہانی اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کڑائی گئی ہے جسے بھارت نظر انداز کرتے ہوئے مسلسل عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے ۔بھارت جان لے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد قابض بھارتی افواج کچل نہیں سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Inaam K Lalach Main Kashmiri Nojwanoon Ka Qatal e Aam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.