کامیاب ایرانی سیٹلائٹ اور امریکی ردِ عمل

12اپریل کو خلیج فارس میں ایران کی سپاہِ پاسداران کے جوانوں اور امریکی فوجیوں کا آمنا سامنا ہوا۔ امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کی 12جنگی کشتیوں نے شمالی خلیج فارس میں امریکی بحری جنگی جہازوں کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں

Naeem Kandwal نعیم کندوال ہفتہ 25 اپریل 2020

kaamyaab irani satellite aur Amrici radd e amal
ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ انقلابِ ایران 1979ء سے لے کر آج تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں اور پنجہ آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ ایران 1979ء سے نہ صرف عالمی پابندیوں کا شکار ہے بلکہ 1980ء سے 1988ء تک امریکہ سابق عراقی صدر صدام حسین کے ذریعے ایران پر جنگ بھی مسلط کر چکا ہے ۔ اس 8 سالہ جنگ میں کسی حد تک ایران نے امریکہ کے حمایت یافتہ صدام حسین کو شکست دی تھی۔

کیونکہ آج بھی عراق کا کچھ علاقہ ایران کے قبضے میں ہے جو ایران عراق جنگ میں ایران نے قبضے میں لیاتھا۔ 
 12اپریل کو خلیج فارس میں ایران کی سپاہِ پاسداران کے جوانوں اور امریکی فوجیوں کا آمنا سامنا ہوا۔ امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کی 12جنگی کشتیوں نے شمالی خلیج فارس میں امریکی بحری جنگی جہازوں کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں ۔

(جاری ہے)

امریکی حکام کے اس دعوے کے جواب میں سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے اتوار کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ امریکی بحریہ نے 6 اور 7 اپریل کو خلیج فارس میں ابتدائی انتباہات کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی خطرناک اور غیر پیشہ وارانہ طریقے سے ایرانی کشتیوں کا راستہ روکا لیکن پھر سامنے سے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ میں نے امریکی بحریہ کو ہدایت دی ہے کہ ایسی ایرانی کشتیوں کو نشانہ بنائیں جو ہمارے بحری جہازوں کو ہراساں کریں۔

جس کے جواب میں سپاہ پاسداران انقلاب جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ امریکہ کے کسی بھی ایسے اقدام کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ 
اتوار19اپریل کو ایران نے خلیج فارس اور مراقب نامی جدید ترین اسٹریٹجک ریڈار سسٹمز کی رونمائی کی جس پرایرانی جنرل آقا محمدی نے کہا کہ ایران دفاعی نوعیت کے ریڈار سسٹمز کی تیاری میں خود کفیل ہے ۔ بدھ کے روز ایران کی پاسدارانِ انقلاب اسلامی نے ملک کا پہلا دفاعی سیٹلائٹ خلا میں روانہ کیا۔

جس میں ایران کو کامیابی حاصل ہوئی ۔” نور “نامی دفاعی سیٹلائٹ کو خلا میں پہنچانے کے لیے دو مرحلے والے قاصد نامی راکٹ کا استعمال کیا گیا ۔ جس نے سیٹلائٹ کو 425کلومیٹر کی بلندی پر زمین کے مدار میں کامیابی کے ساتھ پہنچایا ۔ زمین کے مدار میں پہنچنے کے 90منٹ بعد ہی زاہدان اور چابہا رسٹیشنوں سے سگنل ملنا شروع ہو گئے۔ جسے ایرانی فوج کے کمانڈر حسین سلامی نے ایران کی دفاعی طاقت میں اضافہ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ نور سیٹلائٹ کا خلا میں بھیجا جاناایران کے عالمی طاقت بننے کا نقطہ آغاز ہے۔ آج ہم آسمان سے زمین کو دیکھ رہے ہیں جو اس بات کوثابت کررتا ہے کہ ایران عالمی طاقت بنتا جارہا ہے۔ اس کامیاب تجربے پر پورے ایران میں جشن منائے گئے اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سپاہ پاسداران کی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ” سپاہ تجھے سلام“ ۔

۔۔۔
 امریکی صدر ٹرمپ نے ایرانی دفاعی سیٹلائٹ ”نور“ کی کامیابی پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن قریب سے ایران پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ امریکی ایرو اسپیس اسکاڈرن نے ایران کی اس کامیابی کا اعتراف کیا ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایران کو چالیس سال سے عالمی طاقتوں کی طرف سے ہر قسم کی پابندیوں کا سامنا ہے۔

چونکہ اس کی مخالفت دنیا کے طاقتور ترین ملک ، سپر پاور امریکہ سے ہے ۔ اس لیے ایران کی سب سے بڑی ترجیح دفاعی تیاری ہے ۔ جس میں وہ کسی حد تک کامیا ب دکھائی دیتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے دی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایران مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی میزائلی طاقت ہے۔ امریکی حکام کے اس اعتراف کی بہت سی وجوہات ہیں۔

جیسا کہ جون 2019ء میں ایران نے ایک امریکی جاسوس ڈرون آبنائے ہرمز کے اوپر ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا دعویٰ کرتے ہوئے مار گرایا۔ امریکی ریسرچ سینٹر سی ایس آئی ایس نے اپنی ایک کتاب میں خلیج فارس میں طاقت کے توازن اور ایران کی فوجی و میزائلی توانائی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان سب کی وجہ سے ایران کو اس علاقے میں امریکہ او ر اس کے اتحادیوں سے زیادہ طاقت حاصل ہے ۔

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی جانب سے ایران کی غیر معمولی طاقت کا اعتراف کیا گیا ہے ۔اگر ایران کے ہیکنگ سسٹم کی بات کی جائے تو ایران نے 8جنوری 2020 ء کوایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کے لیے امریکی زیر استعمال عراقی فوجی اڈوں پر میزائل برسائے ۔ایرنی ہیکرز نے اس حملے سے پہلے امریکہ کے دفاعی سسٹم کو ہیک کیا۔ ایران کی طرف سے یہ اقدام حیران کن تھا جس پر ایک امریکی دفاعی عہدے دار نے کہا کہ ” ہمارا دشمن بہت چالاک ہے ۔

“ 
جہاں تک موجودہ کشیدگی کی بات ہے تواس کو اتنا سنجیدہ نہیں لینا چاہیے ۔ کیونکہ امریکہ ہو یا ایران ، دونوں جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ ہی جنگ کسی مسئلے کا حل ہے۔ دونوں ملک کرونا وائرس کا شکار ہیں۔ ایران پہلے سے ہی پابندیوں کا شکار ہے جس کی وجہ سے اسے معاشی مشکلات کا سامنا ہے ۔ جبکہ امریکہ کرونا وائرس سے پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہے ۔

امریکہ کو کافی عرصے سے غربت اور بے روزگاری کا سامنا ہے ۔ اور اب کرونا نے تو امریکی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ وائٹ ہاؤس کے مشیر اقتصادیات کوئن ہاسٹ نے کہا ہے کہ ہمیں ملکی معیشت کو پہنچنے والے کسی بڑے دھچکے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ کوئن ہاسٹ کے مطابق رواں سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران امریکہ کی شرح نمو میں غیر معمولی کمی کا امکان پایا جاتاہے ۔ اب جب کہ ایران اور امریکہ مشکل صورتحال سے دو چار ہیں، میرے خیال میں ایسے حالات میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kaamyaab irani satellite aur Amrici radd e amal is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 April 2020 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.