کراچی میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر

موجودہ حکومت کے قیام سے قبل کراچی میں ایسا دور گزرا ہے جب کراچی میں روزانہ درجنوں لاشیں گرتی تھیں اور ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں معمول کا حصہ تھیں اور کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ میں اس بات کا اعتراف کرچکی ہیں کہ کراچی میں کئی نوگو ایریاز تھے

منگل 28 جون 2016

Karachi main Aik Bar Phir DehshaatGardi Ki Leher
رحمت خان وردگ:
موجودہ حکومت کے قیام سے قبل کراچی میں ایسا دور گزرا ہے جب کراچی میں روزانہ درجنوں لاشیں گرتی تھیں اور ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں معمول کا حصہ تھیں اور کراچی کی تمام سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ میں اس بات کا اعتراف کرچکی ہیں کہ کراچی میں کئی نوگو ایریاز تھے۔ 2013ء میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے تمام سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومتوں کو ایک پیج پر جمع کیا اور تمام سیاسی و عسکری قوتوں کے اتفاق رائے سے کراچی آپریشن کا آغاز ہوا لیکن اس آپریشن میں اس وقت تیزی آئی جب جنرل راحیل شریف نے بطور آرمی چیف اور جنرل رضوان اخترنے بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور انہوں نے اعلانیہ کہا کہ کراچی کو دہشت و خوف سے نجات دلائیں گے۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں رینجرز کو مکمل اختیارات دیکر آپریشن کا آغاز کیا گیا اور بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز و اغواء کاروں کیخلاف گھیرا تنگ کردیا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ آپریشن میں لینڈ و قبضہ مافیاکیخلاف بھی آپریشن کا آغاز ہوا جس میں کرپشن و دہشتگردی کے باہمی تعلق کو توڑنے کیلئے بھرپور ایکشن کا آغاز کیا گیا۔
کراچی میں رینجرز کے اختیارات کے باعث انقلابی طور پر امن و سکون کی فضاء پیدا ہوئی اور لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔

کراچی میں گزشتہ یوم آزادی، عیدیں اور تہوار ایک آزاد فضاء میں منائے گئے اور گزشتہ عیدالفطرپر کئی عشروں کے بعد ریکارڈ خریداری کی گئی۔ عام عوام اور تاجروں نے جرائم پیشہ افراد میں کمی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ آپریشن میں مزید تیزی کا مطالبہ سامنے آتا رہا۔ میرے خیال میں رینجرز نے تو پوری ایمانداری کے ساتھ ایکشن کیا اور آپریشن کو جاری رکھا ہوا ہے لیکن اسکے مقابلے میں سول اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ عام عوام میں یہ تاثر عام ہے جوکہ بالکل حقیقت بھی ہے کہ کراچی میں امن و سکون میں واحد کردار رینجرز کا ہے اور اسکے مقابلے میں پولیس و دیگر سول اداروں کی کوئی بھی تعریف نہیں کررہا کیونکہ پولیس کو ایک سازش کے تحت مرحلہ وار طریقے سے سیاسی، راشی اور سفارشی افسران و اہلکاروں سے بھر دیا گیا ہے اور جب تک اس ادارے کی سائنسی بنیادوں پر تطہیر نہیں کردی جاتی‘ اس وقت تک ان اداروں کی کارکردگی میں بہتری کا خواب شاید پورا نہ ہوسکے۔


کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں 90 فیصد کمی آئی ہے لیکن اس کا مکمل خاتمہ تو شاید اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک پولیس و دیگر سول ادارے میں تطہیر کرکے ان کو راشی، سیاسی و سفارشی نااہل و کرپٹ افراد سے پاک نہیں کردیا جاتا۔ پولیس کی تطہیر کی ذمہ داری رینجرز پر نہیں بلکہ وفاقی و سندھ حکومت اور سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جس میں اب تک کوئی نمایاں پیشرفت سامنے نہیں آرہی اور نہ ہی اس طرح کی کسی مناسب منصوبہ بندی کی کوئی خبر سامنے آئی ہے البتہ پولیس میں نئی بھرتی میرٹ پر کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں جس کی مانیٹرنگ مسلح افواج اور رینجرز کے افسران کرینگے۔

میرٹ پر نئی بھرتی کی باتیں خوش آئند ہیں لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے پولیس میں جو اکثریت میں کالی بھیڑیں بٹھائی گئی ہیں، انکی موجودگی میں آخر کس طرح سے دائمی امن قائم ہوسکتا ہے؟
کراچی میں رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلرز اور اغواء کار فعال ہوگئے جنہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے کو اغواء کرلیا اور اسکے 2-3 روز بعد ہی کراچی میں عالمی شہرت یافتہ اور پاکستان کی پہچان بننے والے قوال امجد صابری کو دن دہاڑے شہید کردیا گیا۔

امجد صابری کی شہادت ایسے وقت ہوئی ہے جب کچھ دنوں بعد یوم علی رضی اللہ عنہ کے ملک گیر اجتماعات ہونے جارہے ہیں اور دہشت گردوں نے دن دہاڑے درندگی کا مظاہرہ کرکے کراچی کی سیکورٹی صورتحال پر سنگین سوالات اٹھادیئے ہیں۔ ہمارے تحقیقاتی اداروں نے اس پہلو پر پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کر رکھا ہے کہ کراچی میں زیادہ تر دانشوروں‘ اساتذہ، علماء کرام، صحافیوں اور نامور افراد کی خصوصاً اہل علم و دانش، پروفیشنلز کو چن چن کر مارنے کا ٹاسک غیر ملکی دشمنوں نے دیا ہے اور اس پر کاربند اندرونی طاقتیں اس لئے یہ سب کچھ کر رہی ہیں کہ پاکستان کی معاشی شہہ رگ کراچی پر کاری وار کرکے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاسکے۔

چیف جسٹس کے صاحبزادے کا اغواء اور امجد صابری کی شہادت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ غیر ملکی قوتیں ایک بار پھر شدت سے فعال ہوگئی ہیں جنہیں کراچی کا امن گوارہ نہیں۔
وفاقی و سندھ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے صاحبزادے کو فوری طور پر بازیاب کرانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں اور اسی طرح امجد صابری کی شہادت کے ذمہ داران اور قاتلوں کی فوری گرفتاری بہت ضروری ہے اور یوم علی رضی اللہ عنہ پر سیکورٹی کے مزید سخت ترین اقدامات کرنے ہونگے کیونکہ امن دشمنوں نے یہ دو وارداتیں کرکے سیکورٹی انتظامات کا پول کھول دیا ہے اور رینجرز کے علاوہ دیگر اداروں اور اعلٰی حکام کی سیکورٹی کے معاملات میں سنجیدگی کا پول کھل گیا ہے۔

خبروں میں تو یہ بھی آیا ہے کہ چیف جسٹس کے صاحبزادے کے اغواء پر پولیس ہیلپ لائن پر کال کی گئی تو کال اٹینڈ کرنے والے اہلکار معاملہ سمجھ ہی نہ سکے اور کال کرنیوالے کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اسی طرح امجد صابری کے بارے میں بھی یہ خبریں آرہی ہیں کہ انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں جس کے بارے میں انہوں نے متعلقہ پولیس حکام کو مطلع کردیا تھا مگرانہیں سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔


اگر اب بھی وفاقی و سندھ حکومت پولیس اور سول اداروں میں تیز رفتار تطہیر کیلئے تیار نہیں اور راشی، سفارشی، سیاسی کرپٹ اور نااہل افسران و اہلکاروں سے صوبے کی جان نہیں چھڑائی جاتی تو اس سے بڑے واقعات بھی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ صرف تنہا رینجرز کا ادارہ ہی قیام امن کا ذمہ دار نہیں۔ یہ دونوں واقعات شاید رینجرز کی ساکھ خراب کرنے کی بھی گھناؤنی سازش ہے جس سے عام آدمی میں یہ پروپیگنڈہ کیا جائیگا کہ رینجرز قیام امن میں ناکام ہوگئی ہے حالانکہ حقیقت اسکے برعکس ہے اور سول ادارے و اعلیٰ حکام اپنی نااہلی، سست روی اور سیاسی بھرتیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بے بنیاد پروپیگنڈے کا سہارا لیں گے۔

بہرحال عوام کو حقائق سے اچھی طرح آگاہ رہنا چاہئے اور نااہلی کے اصل ذمہ داران کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے۔ نیشنل ایکشن پلان پر کس قدر عملدرآمد ہوا ہے؟ کس رفتار سے عملدرآمد ہو رہا ہے اور اگر کہیں پر سست رفتاری کا مظاہرہ ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات دینے کی ذمہ داری وفاقی و صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اور یہ تاثر عام ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ہماری حکومتیں شاید نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں اس قدر سنجیدہ نہیں ہیں جس قدر موجودہ حالات میں اسکی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Karachi main Aik Bar Phir DehshaatGardi Ki Leher is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 June 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.