خواتین کے عالمی دن پر سلوگن میرا جسم میری مرضی

حقیقت کے برعکس اس مارچ میں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا ایسی کوئی مظلوم عورت اس مارچ میں نظر نہیں آتی اگر نظر آتی ہیں تو صرف فحاشی میں مبتلا وہ عورتیں جن کو دیکھ کر انسانیت بھی شرما جاتی ہے اورواحیات الفاظ میں لکھے ہوئے وہ بینرز جو ان کی اصلیت ظاہر کر رہے ہوتے ہیں

ہفتہ 7 مارچ 2020

khawateen ke aalmi din par slogan mera jism meri marzi
کالم نگار: نجمہ ظہور

دنیا کی تاریخ کے صفحات عورت کے رنگا رنگ کردار سے بھرے پڑے ہیں۔ اگر ماں کے کردار میں ہو تو جنت اس کے قدموں میں ہے، بیوی کے کردار میں ہو تو شوہر کے لئے باعث سکون، بہن ہو تو بھائی کے لئے ڈھال اور بیٹی ہو تو والدین کے لیے رحمت اور ان کی آخرت کا حصہ ہوتی ہے۔الغرض اس دنیا نے عورت کے سینکڑوں کردار دیکھے ہیں۔

عورت کی حیثیت کا تعین دنیا میں اُسی وقت ہوگیا تھا جب حضرت حوّا کی تخلیق بطور حضرت آدم کی شریک سفر کی گئی۔ یعنی حضرت آدم کے ساتھ کسی مرد کا سفر نہیں شروع کیا گیا بلکہ وہ عورت ہی تھی اس پر ہی بس نہیں ہوا جنت میں بھی حضرت آدم اور حوا علیہ سلام کو اکھٹا رکھا گیا۔ 
اصل میں یہی مرد و زن کا خوبصورت رشتہ ہے جو سب سے پہلے تخلیق پایا۔

(جاری ہے)

اسکے بعد باقی رشتے بنتے چلے گئے۔قرآن جس طرح عورت کی تصویر کشی کرتا ہے وہ عورت کا کردار زندگی میں متعین کرتا چلا جاتا ہے جب سورة آل عمران میں حضرت مریم کی ماں کا ذکر آتا ہے تو ہمارے سامنے ایک ایسی عورت کا روپ آتا ہے جس کا ایمان اور اپنے رب کیلئے محبت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے کام کیلئے وقف کر دیتی ہے کہ اے اللہ اگر تو نے مجھے بیٹا عطا فرمایا تو اسے تیرے لیے نذر کر دوں گی۔

اتنا بڑا فیصلہ ایک عور ت سے کروایا گیا پھر آگے سے اسی عورت نے اپنی بیٹی کو شیطان کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں دیا تھا جو حضرت مریم کے نام سے جانی جاتی ہے اور وہ اس قدر مضبوط اور متوکل شخصیت کے روپ میں سامنے آئی کہ حضرت زکریا جیسے پیغمبر اس سے پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ بے موسمی پھل تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے اور اس کا جواب پا کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ میرے پاس اللہ کے پاس سے آتا ہے پھر اس لڑکی کو فرشتے خوشخبری دیتے ہے کہ اے مریم اللہ نے تجھے برگزیدہ کہا اور پاکیزگی عطا کی کیا شان ہے اس عورت کی جس کو اللہ نے اتنے بڑے کام کیلئے چن لیا آپ کے ہاں حضرت عیسی علیہ سلام کی ولادت ہوئی جبکہ آپ کو کسی بشر نے کبھی نہیں چھوا تھا یہ اللہ کا بہت بڑا معجزہ تھا جس کے اظہار کیلئے آپکا انتخاب کیا گیا-
اسکے بعد فرعون کی بیوی کا جو ذکر قرآن میں آیا ہے وہ عورت کی عظمت کا مزید اظہار ہے کس طرح وہ پیار محبت سے حضرت موسی کی پرورش کرتی ہے کس طرح وہ دنیا وی شان و شوکت سے منہ موڑ کر اللہ تعالی سے جنت میں اپنے لئے گھر بنانے کی آرزو کا اظہارکرتی ہے پھر اگر ہم حج کے ارکان کی طرف آتے ہیں تو مفادعامہ کی سعی کو حج کے ارکان میں اس لئے شامل کر دیا گیا یہ ایک ماں کی سعی تھی اپنی اولاد کی جان بچانے کیلئے پانی کی تلاش میں اللہ کو ماں کی یہ سعی اتنی پسند آئی کہ وہ حج کا مستقل رکن قرار پائی -جب معاشرے میں عورت کا مقام متعین کرنے کا وقت آیا تو اس کو اس قدر رتبہ دیا گیا کہ مردوں کو حکم دیا کہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھو اپنی نظروں سے بھی عورت کو ہراساں کرنے کی کوشش نہ کرو۔

اپنے آپکو ڈھانپ کر باہر نکلنا اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا یہی عزت دار عورتوں کی اصل پہچان ہے۔ خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میرا جنازہ گھر سے رات کی تاریکی میں نکالنا تاکہ غیر محرم کی نگاہ نہ پڑے۔حضور اکرم نے فرمایا کہ اگر میں نماز میں امامت کروا رہا ہوں اور میری ماں مجھے آواز دے تو سلام پھیر کر اسی وقت ان کو جواب دوں۔

یہ تمام عزت و ابرو اسلام نے عورت کو دی ہے جو کسی اور مذہب نے آج تک نہیں دی ہو گی۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت کو زندگی دی اس کو تمام حقوق عطا کیے لیکن بد قسمتی سے اج کل یہ صورتحال ہے کہ اسلام کے نام پر ہی عورت کو متنفر کیا جاتا ہے۔ مسلم خواتین اسلام میں خود کو محفوظ سمجھنے کے بجائے قید سمجھنے لگی ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایک واویلا مچا ہوا ہے عورت مارچ کے حوالے سے اور اس کے لیے ایک سلوگن استعمال ہو رہا ہے میرا جسم میری مرضی۔

حالانکہ عورتوں کا دن تو بہت پہلے سے منایا جا رہا ہے جس میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ان کی خدمات کو سراہا جاتا تھا۔ لیکن اج عورت مارچ کے لیے جو نعرے اور سلوگن استعمال ہو رہے ہیں یہ تو کچھ اور ہی سمت کی طرف لیکر جا رہے ہیں میرا جسم میری مرضی یہ الفاظ بولتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے یہ ٹائٹل کسی مہذب معاشرے میں ادا نہیں ہوتے۔

مہذب معاشرے کے لوگ کھبی بھی اپنی عورتوں کے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں ہونے دیتے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ مارچ خواتین کے حقوق کے لیے کیا جا رہا ہے ان کی آزادی کے لیے کیا جا رہا ان پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف کیا جا رہا ہے جو ان عورتوں پر کیا جاتا ہے۔حقیقت کے برعکس اس مارچ میں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا ایسی کوئی مظلوم عورت اس مارچ میں نظر نہیں آتی اگر نظر آتی ہیں تو صرف فحاشی میں مبتلا وہ عورتیں جن کو دیکھ کر انسانیت بھی شرما جاتی ہے اورواحیات الفاظ میں لکھے ہوئے وہ بینرز جو ان کی اصلیت ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مارچ میں وہ خواتین شامل ہیں جو ظلم و جبر اور زیادتی کا شکار ہیں اور پچھلے سال عورت مارچ کی آڑ میں جو طوفان بدتمیزی برپا ہواان مظلوم عورتوں کو اس مارچ سے کتنا انصاف ملا ہے؟ میرے نزدیک تو اس مارچ سے ان کے لیے اور مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں کوئی بھی شریف گھرانے والے اپنی خواتین کو باہر نکلنے نہیں دیں گے۔

لبرل مخلوق جو ایسی مارچ سپورٹ کر رہے ہیں کہتے ہیں جس کا جسم ہوتا ہے مرضی بھی اسی کی ہوتی ہے تو ان سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جب انسان مرتا ہے تو اس وقت اکڑ کر کھڑے ہو جایا کرو کہ ہمارا جسم ہماری مرضی ہم نے نہیں مرنا بے پھر دیکھنا اپ کے جسم پر اپ کی کتنی مرضی چلتی ہے۔
عورت ایک ماں،بہن، بیٹی ہے جن کی وجہ سے قوموں کی عزت ہوتی ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت دی ہوئی ہے اس کے لیے سڑکوں پر غیر اخلاقی بینرز اٹھا کر آزادی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایسے بیہودہ اور غیر اخلاقی بینرز اٹھا کر آزادی نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی ایسے آزادی دے گا۔ پتہ نہیں ایسی لبرل عورتیں کون سی آزادی کی بات کر رہی ہیں کون ایسا شعبہ ہے جس میں عورتیں مردوں کے برابر نہیں ہیں۔ اگر عورتوں کا دن منانا ہی ہے تو خداراہ ان عورتوں کے لیے آواز بلند کریں جو جہیز کم لانے پر قتل ہوتیں ہیں جن پر تیزاب پھینک کر ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے، جن کو عزت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے جن کا بھری پنچائیت میں ریپ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بہت بڑا فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے ہتکھنڈوں کو بے نقاب کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو اس فتنے سے پاک کیا جا سکے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

khawateen ke aalmi din par slogan mera jism meri marzi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.