
”لو جہاد“ کی آڑ میں مسلمانوں کے گرد گھرا تنگ
اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی سرپرستی نئے مسلمان مخالف قانون کی منظوری
منگل 15 دسمبر 2020

ان دنوں ”لو جہاد“ آرڈیننس کا بہت شور اٹھا ہوا ہے اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ نے اس پر پابندی لگاتے ہوئے نئے آرڈیننس کی منظوری دے دی ہے۔لو جہاد مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس کا زہریلا پروپیگنڈہ بی جے پی کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے اور یوگی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس کے خلاف نیا قانون لانے کا اعلان بھی کیا تھا۔مذکورہ قانون کی خلاف ورزی پر کم از کم دس سال قید اور پندرہ ہزار سے پچاس ہزار تک جرمانے کی سزا عائد کی گئی ہے۔اس قانون کو ”اترپردیش ودھی ویرودھ دھرم سمیر پورتن پرتیش ادیش دیشن 2020 “ سے موسوم کیا گیا ہے۔غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس کے پس پردہ اصل مقصد ”مسلم نوجوانوں کا مستقبل تاریک کرنا ہے،جب کہ آرڈیننس میں بین مذہبی شادی کے لئے اجازت طلب کرنے کی غرض سے درخواست فارم کے ساتھ ایک ڈرافٹ بھی شامل کیا گیا ہے، جس کی رو سے شادی سے دو مہینے قبل ڈسٹرک مجسٹریٹ کو اس کی اطلاع دینی ہو گی،بغیر اس اجازت کے 6 ماہ سے لے کر 3 سال تک کی جیل اور 10 ہزار روپے جرمانہ کی سزا کا مستحق ہو گا۔
(جاری ہے)
دوسری جانب کبھی ”پریم یدھ“ کی بات نہیں کی:حالانکہ اس وقت باقاعدہ ہندو فرقہ پرست تنظیمیں اس پر عمل پیرا ہیں اور مسلم تعلیم یافتہ بچیاں اس کی شکار ہو کر ارتداد کے راستے پر چل پڑی ہیں۔جنوبی بھارت اس کا زیادہ کا شکار ہے،جس کی وجہ وہاں مخلوط ایجوکیشن میں مسلمان لڑکیوں کا تناسب زیادہ ہے اور وہ اس وقت ہندو فرقہ پرستوں کا آسان ٹارگٹ ہیں۔اگر کوئی غیر مسلم لڑکی اپنی خوشی سے مذہبی تبدیل کرے گی تو اسے بھی لو جہاد میں شامل کر لیا جائے گا اور اگر کوئی مسلم لڑکی ڈر و خوف کی وجہ سے بھی کسی غیرمسلم لڑکے کے ساتھ جانے پرمجبور ہو گی تو اسے پریم یدھ میں شامل نہیں کیا جائے گا،ایسے بہت سارے واقعات پیش آچکے ہیں،بے چاری ہادیہ کو کورٹ کے ذریعہ سے لڑائی لڑنی پڑی،ثنا خان اور زائرہ وسیم نے صرف پردہ سیمیں سے توبہ کیا تو ان کے خلاف ٹرینڈ چلائے گئے اور انتہاء تو اس وقت ہو گئی،جب ثنا خان نے ایک مفتی سے شادی رچا لی تو گویا آسمان سر پر اٹھا لیا،جب ایک مسلم لڑکی کے سدھرنے اور توبہ کرنے سے یہ حالت ہو سکتی ہے تو ایک غیر مسلم لڑکی کے اسلام میں داخل ہونے سے کیا نہیں ہو سکتا؟‘بی جے پی لیڈر الوک کمار نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ’لو جہاد‘ کی مخالفت صرف ہم نے شروع نہیں کی ہے،بلکہ اسے کیرالہ میں کی عیسائی آبادی نے اٹھایا تھا۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں سب کو اپنے مذہب میں لانے کیلئے جہاد ایک آلہ ہے۔لو جہاد کا اصل مقصد مسلمانوں کا اپنی آبادی میں اضافہ ہے،اس رویہ کا مقابلہ کرنا ہو گا۔قانون میں’لو جہاد‘لفظ نہیں ہے۔ہمیں شک ہے کہ اس کے لئے پوری دنیا سے پیسہ آتا ہے اور یہ ایک منظم سرگرمی ہے۔’لو جہاد‘کی اصطلاح اس مکاری سے وضع کی گئی ہے کہ جس میں ایک بھولی بھالی ہندو لڑکی کو کسی شاطر مسلمان نے زور زبردستی کرکے ورغلا کر شادی کر لیتا ہے۔یوگی حکومت اس قانون کا سہارا لے کر مسلم طبقے کے نوجوانوں کو نشانہ بنانے کی ایک سازش ہے ساتھ ہی دلت سمیت دیگر اقلیتوں کے نوجوانوں کو ہدف بنانے کی تیاری بھی ہے۔نئے آرڈیننس کی منظوری کے پیچھے بالخصوص اسلام اور مسلمان کو ہی ہدف بنانے کا ناپاک منصوبہ ہے جبکہ ریاست اترپردیش میں بڑھتے جرائم اور خاص طور پر عصمت دری اور قتل کی وارداتوں کو روکنے کے بجائے یوگی نے مسلمان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔اور اب ہریانہ اور کرناٹک کے بعد بی جے پی کی زیر قیادت مدھیہ پردیشن حکومت نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ جلد ہی ’لو جہاد‘ کے خلاف ایک قانون لائیں گے اور تعجب نہیں ہو گا کہ مستقبل میں بی جے پی کی زیر اقتدار دیگر ریاستیں کرناٹک اور گجرات بھی اسی طرح کی قانون سازی کا اعلان کریں گی۔بلاشبہ جب سے بی جے پی مرکز میں اقتدار میں آئی ہے مسلم اقلیت مخالف قانون سازی کا ایک سلسلہ جاری ہے جو بھی قانون بنائے جا رہے ہیں ان کا راست بالراست نشانہ مسلمان ہی ہوتے ہیں چاہے وہ طلاق ثلاثہ کا قانون ہو یا گاو ذبیحہ یا پھر گائے کی حفاظت پر بننے والے قانون،ان کے علاوہ دفعہ 370 کی تنسیخ ،سی اے اے کے نفاذ کے پس پردہ عزائم اور پھر غیر قانونی لین دین کے نام پر بنائے گئے قانون کا اطلاق بھی مسلم اداروں کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دیگر اداروں اور سیاسی جماعتوں کے معاملات آزادانہ عملی اختیار کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔اسی طرح کئی ریاستوں میں جبری مذہب تبدیلی پر امتناع کا قانون ہے لیکن یہاں بھی کسی دوسرے مذہب کا شخص اپنی مرضی اور رغبت سے اسلام قبول کرتا ہے تو اس کو بھی اس قانون کا سہارا لے کر ہراساں کیا جاتا ہے۔
تاہم آغاز میں ”لو جہاد“ کی اصطلاح کا استعمال کرناٹک،منگلور اور کیرالا سے ہوا تھا۔آر ایس ایس کے تربیت یافتہ سویم سیوک پر مود متالک کی قائم کردہ شری رام سینا نے اسی لفظ کا استعمال کرتے ہوئے ایسے میاں بیوی جوڑے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا جس میں لڑکی کا تعلق ہندو مذہب سے ہو۔حتیٰ کہ ہندو انتہا پسند تنظیم ایسے معاملوں کو عدالت میں لے گئی اور جواز یہ پیش کیا جاتا کہ مسلم لڑکے نے جبراً ہندو لڑکی سے شادی کی ہے حالانکہ پولیس تفتیش میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ”لو جہاد“ کا ایسی شادیوں سے کوئی لینا دینا نہیں اور جو باتیں پھیلائی گئی تھیں وہ زہر افشانی کے سوا کچھ نہیں۔گجرات فسادات کے دوران بھی ایسا ہی پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ مسلم نوجوان غریب قبائلی ہندو لڑکیوں کو بہا پھسلا کر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں اور ان کا مذہب بھی تبدیل کروا لیتے ہیں۔مظفر نگر فسادات میں اس لفظ کے غلط استعمال سے حالات کو اشتعال انگیز بنایا گیا اور فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کے لئے من گھڑت کہانیاں بنائیں گئیں۔آج”لو جہاد“ ہندو فرقہ پرست قوتوں کا مسلمانوں کیخلاف مضبوط ہتھیار بن چکا ہے۔
بھارت میں ”لو جہاد“ کے نام سے ایک انتہائی قابل اعتراض اور نفرت انگیز کتاب بھی شائع کی گئی ہے جس کے ذریعہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ سکھ،عیسائی،پارسی اور دیگر طبقوں کو بھی مسلمانوں کیخلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔کچھ عرصہ قبل آر ایس ایس باقاعدہ طور پر اپنے کارکنوں کو تربیت دے کر مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجتی تھیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں سے دوستی کرنے کے بعد ان سے شادی کر لیں۔اس دوران اگر وہ ہندو مذہب قبول کر لیں تو ٹھیک وگرنہ ایسے ہی ان کے ساتھ تعلقات قائم کرکے شادی شدہ زندگی گزاریں۔اس عمل کو پروان چڑھانے کیلئے سرکاری سرپرستی میں منصوبہ بندی کے تحت ایسی فلمیں بنائی گئیں جن میں فرضی کرداروں کے ذریعہ دکھایا جاتا رہا کہ کسی برقعہ پوش لڑکی نے ایک ہندو لڑکے سے شادی کر لی اور پھر گھر سے بھاگ کر نامعلوم مقام پر شادی شدہ زندگی گزارتی رہی۔ہندو انتہا پسندوں یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محبت کے جال میں پھانستے ہیں ان سے شادی کرکے بچے پیدا کرتے ہیں اور پھر ان بچوں کو ہندوؤں کیخلاف تربیت دیتے ہیں تاکہ مستقبل میں بھارت کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کیا جا سکے۔ اسی طرح ٹی وی چینلز اور اخبارات کو بھی مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور عام عورتوں کو گمراہ کرنے کیلئے خواتین کو برقعے پہنا کر اپنی مرضی کی باتیں کہلوا کر سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے۔
وشوا ہندو پریشد نے ”درگاواہنی“ کے نام سے خواتین سیل بھی قائم کر رکھا ہے۔جس کے ارکان ہندوؤں کے گھر میں جا کر عوامی رابطہ مہم کے بہانے لوگوں کو مسلمانوں کیخلاف بھڑکانے میں مصروف ہیں اور نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم نوجوانوں کیخلاف یہ پروپیگنڈہ سرکاری سرپرستی میں جاری ہے۔”ورلڈ ہندو کانفرنس“ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس کا بنیادی ایجنڈا یہی ”لو جہاد“ رکھا گیا تھا۔ ”لو جہاد“ کی اصطلاح دراصل اصل جہاد کو بدنام کرنے کیلئے گھڑی گئی ہے تاکہ دنیا بھر میں اسلامی شعائر کے خلاف متعصب اور منافرت میں اضافہ ہو۔بھارتی متعصب میڈیا مسلسل اشتعال انگیزی میں مصروف ہے کہ مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ان سے شادی کرکے مسلم آبادی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔اس موقع پر ہندوستان کے سابق سالیسٹر جنرل ہریش سالوے کی حالیہ شادی کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ہریش سالوے بی جے پی کو بہت عزیز ہیں۔سچن پائلٹ سے لے کر ارنب تک کو بچانے کے لئے ان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ ان کی عمر 65 سال ہے اور انہوں نے 56 سالہ کیرولن سے بیاہ رچایا۔وہ دونوں طلاق شدہ ہیں۔ہریش سالوے نے اسی سال اپنی پہلی بیوی میناکشی کو طلاق دے دی تھی۔ہریش سالوے کی میناکشی سے دو بیٹیاں اور کیرولن کی اپنے سابقہ شوہر سے ایک بیٹی ہے۔اپنا آبائی مذہب ترک کرکے عیسائی مذہب اختیار کرنے والے ہریش سالوے کی کیرولن سے شادی عیسائی مذہب کے مطابق چرچ میں ہوئی۔اب اگر سالوے کی بیٹی ساکشی الہ باد ہائی کورٹ سے رجوع کرکے دہائی دے کہ ان کے والد نے شادی کرنے کے لئے اول تو اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے بعد اپنا مذہب تبدیل کر دیا ہے تو الہ باد کی عدالت کیا فیصلہ کرے گی؟نیز یوگی جی شادی کے لئے ہندو دھرم کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے والے ہریش سالویکا’رام نام ستیہ ہے‘کریں گے یا ان کے سامنے دبک کر بیٹھ جائیں گے؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Love Jihad Ki Aar Main Musalmanoon K Gird Gheera Taang is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.