”مزری غر ایک عظیم سیرگاہ“

پاکستان کے وسط میں یہ نامعلوم، پراسرا مقام کوہ سلیمان رینج کی تیسری بڑی بلند چوٹی ہے۔ اس چوٹی کی بلندی سطح سمندر سے قریباؔؔ ۳۱۱۱ میٹر (۱۰۲۰۷ فٹ) ہے۔

پیر 17 اگست 2020

Mazri Gar Aik Azeem Darsgah
عبدالبصیر
یوں تو پاکستان سیرگاہوں سے بھراپڑا ھے۔ ہر علاقہ ایک عجیب کشش رکھتا ھے - ہر علاقہ میں مخصوص سیاحتی مقام ، تاریخی حکایتیں، قدرتی وسائل، مختلف انواع و اقسام کے پودے، درخت، جانور، خوبصورت پرندے، نہ صرف ملکی بلکہ غیرملکی سیاحوں کو اپنی جادوئی کشش سے کھینچتے ہیں بلکہ پاکستان کے ان مقاموں کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی سیاحت کے شعبے میں ید طولی' رکھتا ھے-
پاکستان میں بہت سے خوبصورت مقام پہلے ہی حکومتی توجہ حاصل کر چکے ہیں اور سیاحت کا مرکز بن چکے ہیں۔

تاھم ابھی بھی بے شمار صحت افزا ٹھنڈے اور دلکش مقام ایسے بھی ہیں جو ابھی تک حکومتی اور سیاحتی توجہ کے منتظر ہیں۔ انہیں پرکشش، حسیں و جمیل علاقوں میں ایک علاقہ “ مزری غر” ھے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے وسط میں  یہ نامعلوم، پراسرا مقام کوہ سلیمان رینج کی تیسری بڑی بلند چوٹی ہے۔ اس چوٹی کی بلندی سطح سمندر سے قریباؔؔ ۳۱۱۱ میٹر (۱۰۲۰۷ فٹ) ہے۔
یاد رہے کوہ سلیمان پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی “قیس غر” جوکہ ۳۴۴۴ میٹر(۱۱۲۹۹فٹ) بلند ہے اور دوسری بڑی چوٹی ۳۳۷۸ میٹر (۱۱۰۸۳فٹ) بلند تخت سلیمان ہے۔

تاھم بلندی کے حوالے سے کچھ لوگ ابھی بھی شکوک و شبہاب میں مبتلاء ہیں-
کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ بظاہر تو خشک معلوم ہوتا ہے مگر “ مزری غر” انتہائی سرسبز اور تر علاقہ ہے۔ اس علاقے کی خاص بات جس نے مجھے اور پروفیسر منظور احمد لکھانی کو “ مزری غر ہیلتھ ریزورٹ موومنٹ” کی تحریک چلانے پہ مجبور کیا وہ اس علاقے کا استثنائی کم (ٹھنڈا) ٹمپریچر ہے۔

گزشتہ دوماہ کے مسلسل ٹمپریچر گراف سے یہ ظاھر ھوا کہ یہ مقام فورٹ منرو، مری، ایوبیہ، نتھیاگلی، کاغان،کالام، وادی نیلم، زیارت، قلات، چترال، گلگت بلتستان، وادی ہنزہ، اور اسکردو سے بھی ٹھنڈا ھے۔ تاھم مزری غر، ناران، اور سوات کا درجہ حرارت ایک جیسا ھے۔ ایک اور پراسرار چوٹی جو مزری غر، سوات اور ناران سے بھی ٹھنڈی ھے وہ ہے “اوباستہ سوکہ”  جو کہ تخت سلیمان کے شمال مغرب میں ۸-۱۰ کلومیٹر کے فضائی فاصلے پہ ہے۔


سارے سیاح حضرات تخت سلیمان تک تو جاتے ہیں مگر مزری غر اور اوباستہ سوکہ(پشتو نام) سے زیادتی کرتے ہیں۔
محترم قارئین!  مزری غر صرف ایک چوٹی نہیں بلکہ شمالاؔؔ جنوباؔؔ ۱۸ سے ۲۰ کلومیٹر رقبے پہ محیط رقبہ ہے۔ یوں تو  چوٹی کو ایک دن میں دیکھا جاسکتا ھے مگر ایکسپلور کرنا ھو تو شمالاؔؔ جنوباؔؔؔ چلنے کے لئے آپکو چار سے پانچ دن درکار ہوں گے۔


اسی طرح مزری غر کا پہاڑ اور وادیوں کے لئے دو ماہ درکار ہوں گے۔
مزری غر یوں تو بلوچستان کے ضلع موسی' خیل اور سب تحصیل پلاسین میں آتا ہےمگر یہ پہاڑ تین صوبوں پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کو آپس میں  “چوبارہ”  یا "چتر وٹہ" کے مقام پر ملاتا ھے۔ اس  کی مقامی آبادی قریباؔؔ ۱۰۰۰۰ سے ۱۲۰۰۰ افراد کی ہے اور یہاں کے لوگوں کا گزر بسر مال مویشی، چلغوزہ ، زیتون اور شہد پر ھوتا ھے۔

مارکیٹ پرائس کا علم نہ ھونے کی وجہ یہ ساری چیزیں انتہائی سستے داموں فروخت کر کے یہ لوگ انتائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتےہیں ۔کچھ اشیاء کی قیمتوں کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔
اس علاقے میں مختلف انواع کی جنگلی حیات ہیں جن میں شیر، چیتا، تیندوا، ریچھ ، بھیڑیا، چھوٹی ٹانگوں والے انتہائی زہریلے سانپ، اور ان کےعلاوہ مارخور ، ہرن، لومڑ، گیدڑ، خچر، گدھے،اونٹ، بھیڑ، بکریاں، گائے، عقاب، تیتر، بٹیر، چکور، سیسی، تلور، کبوتر اور مختلف قسم کی چڑیاں، فاختہ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔

  ایک اندازے کے مطابق آج سے تیس سے چالیس سال قبل یہاں پائے جانے والے مارخور اور ہرن ہزاروں اور لاکھوں میں موجود تھے مگر اب بہت زیادہ شکار اور آبادی کی وجہ سے ان کی تعداد صرف اور صرف چند سوتک رہ گئی ھے۔
پودوں اور درختوں کی قریباؔؔ ہر قسم کی انواع یہاں پائی جاتی ہے جن میں چلغوزہ، زیتون، انجیر، انار، نیشنار، زڑغوزئی، اندڑ، شرو، شووان، اژگائی(پشتو نام)، پلاہ یاپلاسہ، پیاز، گندم، مکئی، کئی اقسام کی خوشبودار جڑی بوٹیاں، سونف، زیرہ وغیرہ وغیرہ۔

  مزری غر کی پہاڑیاں اربوں، کھربوں زیتون کے جنگلی درختوں سے گھری ہوئی ہیں جن کا قدرتی زیتون قریباؔؔ سارے کا سارا ضائع ھو جاتا ھے۔ اگرحکومتی توجہ ان پہاڑوں پر موجود صرف زیتون پر ہی مرکوز ہو جائے تو سالانہ اربوں امریکی ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔ مقامی لوگ صرف اپنے لئے یا اپنے احباب کے لئےزیتون توڑتے ہیں اور زیتون کی لکڑی کی مضبوطی کی وجہ سے اسے کاٹ کر معمولی داموں قریبی قصبوں میں بیچتے ہیں۔

کوہ سلیمان ویسے تو “ دی موسٹ ایکسپنسو فارسٹ” کے نام سے جانا جاتا ھے مگر یہاں بھی چلغوزہ انتہائی معمولی داموں میں فروخت ھوتا ھے۔ پچھلے سال دسمبر ۲۰۱۹ میں لاھور میں چلغوزہ ۷۰۰۰ سے۸۰۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ھورہاتھا جبکہ اسی سال اس علاقے “ مزری غر “میں ڈیلر مافیا نے غریب باسیوں سے ۷۰ ہزار سے ایک لاکھ فی من(۴۰کلو) کے حساب سے خریدا۔

یہاں کی ایک اور چیز جس کا تذکرہ ضروری ھے وہ زیتون کا شہد اور پلاسہ کا شہد ھے جس کی قیمت یہاں انتہائی معمولی ھے۔
ویسے تو یہ علاقہ ورائٹی کے حوالے سے فانا اور فلورا کا مرکز ھے مگر اس میں قدرتی وسائل جیسا کہ کوئلہ،پٹرول اور گیس کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ مغل کوٹ سے دھانہ سر کے راستے میں پہاڑوں میں ایک ایسا چشمہ بھى ھے جس سے پٹرول نکل رہا ھے۔

قدرت نے یہاں ایسےچشمے رکھے ہوئے ہیں جن کا نظارہ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ھے۔
ایک ہی جگہ پہ مختلف قیمتی دھاتوں کی وجہ سے چشموں میں سے ایک کا رنگ دودھ جیسا سفید، دوسرا زنگ رنگ کا ، تیسرا مالٹائی رنگ کا اور چوتھا شفاف پانی کا چشمہ ہے۔ انٹرنیشنل جیالوجسٹ سے جب اس حوالے سے گفت و شنید ھوئی تو انہوں نے سونے جیسی قیمتی دھات کا اندازہ لگایا۔

مزری غر کے پہاڑوں میں کچھ چوٹیاں ایسی ہیں جن میں قیمتی جواہرات ، خام ہیرا، زمرد، اورانگلیوں میں پہننے والےقیمتی پتھر پائےجاتےہیں۔
مزری غر کے پہاڑ صرف معدنیات، نباتات ،جمادات اور جنات کے حوالے سے ہی مشہور نہیں بلکہ یہاں اولیاء کرام کا بھی بسیرا بہت زیادہ رہا ھے۔
وہاں ابھی بھی خانقاہیں آباد ہیں اور لوگ دوردراز کے علاقوں سے روحانی علاج کے لئے آتے ہیں۔


مقامی لوگوں سے جب میں نے سوال پوچھا کہ یہاں خونخوار جانور لوگوں کو کچھ نہیں کہتے تو انہوں نے اولیاء اللہ کی کرامت سے آگاہ کیا-
کچھ لوگوں کا کہنا یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام رہائش پذیر ہوا کرتے تھے اور انہیں کے ادوار کے جانوروں کی نسلیں یہاں آباد ہیں اور وہ اس لئے بھی نقصان نہیں دیتے۔
ھمارے علاقے کى ایک انتہائی معروف اور قابل قدر شخصیت منظور احمد لکھانی اور میرے والد ماجد کے استاد ڈرائنگ ماسٹر محمد اقبال خان پتافی سے جب میں نے ساری سفری کارگزاری بیان کی تو ان کا کہنا تھا کہ انبیاء اور اولیاء کرام کی مناسبت سے یہاں کے جانوروں کو نقصان کا حکم نہیں ھے-  پروفیسر عمار صاحب کی کوہ سلیمان میں وہیلز کی ھڈیوں کی ریسرچ کے حوالے سے جب سوال پوچھا تو فرمایا اوائل میں پہاڑوں  پر راستے نہیں ھوا کرتے تھے اور بارش کا پانی پودوں اور جانوروں کی بقا کے لئے استعمال ھواکرتا تھا۔

جب حضرت عبدالغفار(نوح) علیہ السلام کے دور میں روئے زمین پر پانی پانی ھوگیا تو اس وقت پہاڑوں کے درمیان پانی جمع ھوگیا- اب چونکہ سمندری حیات پہاڑوں سے باھر نہ جاسکی اور قدرت نے پہاڑوں کی حیات بھی آباد کرنی تھی تو اللہ نے جنات کو پہاڑوں میں موجود پانی نکالنے کا حکم دیا جس سے موجودہ پہاڑوں کے راستے(درے) وجود میں آئے۔
مختصراؔؔ یہ  کہ اتنی قیمتی دھاتیں، مختلف انواع حیات رکھنے والا مزری غر خوبصورتی کے لحاظ سے بین الاقوامی خوبصورت ترین مقاموں کا مقابلہ کرتا ھے اور اپنے اندر مغلیہ تاریخ اور انگریزوں کی تاریخ چھپائے دنیا کےہر شعبے کے افراد کواپنے حسن وحقیقت کے جاننے کی دعوت دے رہا ھے۔


تاریخ دانوں کے لئے صرف اتنا کہ مغل خاندان ، انگریز خاندان اور ۵۰۰۰ سال قبل از مسیح کی پینٹنگ اور قبرستانوں میں موجود بڑی بڑی قبریں آپ کی توجہ کی منتظر ہیں۔
آخر میں مقامی لوگوں کا درد دل کہ حکومت اس علاقے میں انفراسٹرکچر پہ تھوڑی توجہ دے اور پھر دیکھے یہ کیسے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آماجگاہ بنتا ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mazri Gar Aik Azeem Darsgah is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 August 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.