مقدسہ مریم بیداغ گرجا گھر

لاہور کے رومن کیتھولک گرجا گھروں میں کئی بشپ دفن ہیں لیکن یہاں مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ لاہور میں سات سے زائد گرجا گھر ایک سو سے ڈیڑھ سو برس تک قدیم ہیں

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری بدھ 24 فروری 2021

Muqaddas Maryam Bedaagh Girja Ghar
یہ کلیسا جسے   St. Marry Catholic churchبھی کہتے ہیں 1861 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ جامعہ پنجاب کے خالد بن ولید ہال کے پاس انارکلی میں واقع ایک کیتھولک گرجا گھر ہے۔ کہتے ہیں کہ رومن کیتھولک میں جب کسی بشپ کا انتقال ہوتا ہے تو اس کو چرچ ہی میں دفن کر دیاجاتا ہے۔ لاہور کے رومن کیتھولک گرجا گھروں میں کئی بشپ دفن ہیں لیکن یہاں  مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔

لاہور میں سات سے زائد گرجا گھر ایک سو سے ڈیڑھ سو برس تک قدیم ہیں جن میں مریم بے داغ کا گرجا گھر بھی شامل ہے۔

لال رنگ کی برطانوی طرز کی عمارت پر صلیب کا نشان اور گھنٹیاں دور ہی سے نظر آ جاتی ہیں جنہیں دیکھ کہ گوا کے کسی قدیم پُرتگالی گرجا گھر کا گمان ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


اس کے ایک طرف پادریوں کے دفاتر اور نیلے رنگ کی تکونی عمارت بنی ہے جس میں مقدسہ مریم کا ایک مجسمہ رکھا ہے۔

دوسری جانب سینٹ فرانسس ہائی سکول کی عمارت واقع ہے۔
سینٹ فرانسس ہائی سکول
کیتھولک چرچ سے ملحقہ 1842  میں قائم ہونے والا ''سینٹ فرانسس ہائی سکول' غریب بچیوں کی تعلیم کے لیئے قائم کیا گیا تھا جسے بعد میں لڑکوں کا ہائی سکول بنا دیا گیا۔ یہ شہر کا پہلا کیتھولک سکول تھا جو کم فیس پر بہترین تعلیم دے رہا تھا۔

179 سال پرانے اس سکول کا انتظام قریب واقع کیتھولک چرچ کے پاس تھا۔ تقسیم سے پہلے اور بعد میں اس ادارے سے کئی طلباء فارغ التحصیل ہو کر نکلے جن میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور پلے بیک سنفر ''اے نیئر'' بھی شامل ہیں۔ 1972 میں حکومت کی طرف سے اسے قومیانے سے پہلے یہ شہر کے بہترین اردو میڈیم سکولوں میں سے ایک تھا جس کے بعد اس کے زوال کا آغاز ہوا۔


39 کنال پر مشتمل اس سکول کے دو حصے تھے جو کافی عرصے سے ویران پڑے ہیں۔ سکول کی عمارت ایک کھنڈر بن چکی ہے جس کی واحد وجی متعلقہ محکموں کی بے توجہی ہے۔

 2004 میں لاہور کے 17 میں سے 16 رومن کیتھولک سکولوں کو حکومت نے نجی ملکیت میں واپس دے دیا تھا لیکن اس سکول کی قسمت نہ جاگی۔

یہاں کے لوگوں کی نظر میں اس کی واحد وجہ زمین کی قیمت اور لینڈ مافیا کی لالچ تھی(حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ چرچ اس زمین کو اپنی ملکیت ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے)۔ پنجاب خصوصاً لاہور کے عیسائیوں نے حکومت کے خلاف اپنی زمین دبا لینے پر  زبردست احتجاج کیا اور حکومت کو یہ سکول چرچ کو واپس کرنا پڑا۔
اگرچہ ملحقہ چرچ اور عیسائی کمیونٹی کی حکومت سے اس سکول کو واپس لینے کی  کوشش 2014 میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن اسکی عمارت اتنی مخدوش ہو چکی ہے کہ اب اسے گرا کہ نئی عمارت بنانے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔


 آج کل سکول ویران ہے، عمارت ٹوٹ چکی ہے، رنگ مٹ رہا ہے لیکن اس کے سامنے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اب بھی خوشی سے لہرا رہا ہے،
اِس آس میں کہ یہ جگہ جلد از جلد آباد ہو اور یہ فضا ''پاک سر زمین شاد باد'' کی صداؤں سے گونجے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muqaddas Maryam Bedaagh Girja Ghar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.