نوازشریف کی گرفتاری ‘شہباز شریف کا لندن میں طویل قیام

پارٹی عہدوں کی بندربانٹ پر(ن)لیگی کارکن نالاں؟ اندرونی خلفشار کا شکار اپوزیشن کی حکومت مخالف مہم وقت سے پہلے دم توڑ جائے گی

جمعہ 10 مئی 2019

Nawaz Sharif Ki Giraftari.. Shehbaz Sharif Ka London Main Taveel Qayyam
 محبوب احمد
مسلم لیگ ن کابیانیہ اس وقت کون سا ہے؟،اس حوالے سے اتحادی جماعتیں ہی نہیں کارکن بھی نا آشناہیں کیونکہ پارٹی میں عہدوں کی بندر بانٹ پر متعدد ن لیگی کارکن سخت نالاں ہیں جس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج مسلم لیگ ن کے دیرینہ مرکزی رہنما ء پارٹی پالیسی پر کھل کر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں لہٰذا مستقبل قریب میں تنظیمی عہدوں کی بندربانٹ سے مزید مسائل پیدا ہوں گے جس کے آثار ابھی سے دکھائی دینا شروع ہو چکے ہیں ۔


پارٹی کا بیانیہ مبہم ہونے اور عہدوں کی تقسیم کے معاملے پر خواجہ سعدرفیق کا کہنا ہے کہ کمزور لوگوں کو عہدوں سے نواز کر قربانیاں دینے والوں کو پس پشت ڈالا جارہا ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کاطبی معائنے کے لئے لندن جانا اور بعدازاں دونوں عہدوں سے سرنڈر کرنا ورکرز کیلئے شدید مایوسی کا باعث بنا ہوا ہے وہ یہ عہدے شروع میں ہی قبول نہ کرتے تو بہتر تھا اگر وہ جلد واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں تو اتنے بڑے فیصلوں کی کیا ضرورت تھی ،بہر حال عوام وخواص کی زبان پر کئی سوالات ہیں جن کے جوابات وقت کے ساتھ ساتھ آشکار ہوتے جائیں گے موجودہ حالات توا س بات کے متقاضی ہیں کہ شہباز شریف جلد وطن واپس آکر پارٹی ورکرز اور ان کی اتحادی جماعتوں خاص کر پیپلز پارٹی میں پائی جانے والی بے چینی کاخاتمہ کریں لیکن یہ ناممکن سادکھائی دے رہا ہے ،حقیقت میں جب سے مسلم لیگ ن کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی نے پی اے سی کا چےئرمین اور پارلیمانی لیڈر تبدیل کرنے کی منظوری دی ہے تب سے کارکن اندرونی خلفشار کی وجہ سے گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں ۔

(جاری ہے)


شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چےئرمین بنانے کے لئے ن لیگ نے حکومت پر کافی دباؤ ڈالا تھا جس میں پیپلز پارٹی بھی اس کے شانہ بشانہ تھی دوسری طرف جہاں حکومت شہباز شریف کو یہ عہد ہ دینے پر قطعی تیار نہ تھی وہیں شہباز شریف بھی شروع سے ہی پی اے سی کا چےئرمین بننے کے خواہاں نہیں تھے جس کا اعتراف پارلیمانی پارٹی کی طرف سے بھی کیا گیا ہے مگر پارلیمان کو چلانے کے لئے شہباز شریف کو یہ عہدہ دینے پر بالآخر حکومت نے آمادگی کا اظہار کر ہی دیا۔


یاد رہے کہ اس وقت کے معروضی حالات کی بناء پہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور پارلیمانی ایڈوائزی گروپ کا اصرار تھا کہ قائد حزب اختلاف کوہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سر براہ ہونا چاہئے لیکن اب پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لئے بغیرن لیگی قیادت کی طرف سے رانا تنویز حسین کو پی اے سی کا چےئرمین اور خواجہ آصف کوپارلیمانی لیڈرنامزدکرنے پر پی پی قیادت نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے ۔


اس بات میں کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین سیاسی اختلافات دشمنی کی حد تک بڑھے ہوئے تھے مگر حالات کے دھارے نے دونوں کو ایک مرتبہ پھر سے قریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اب ایک مرتبہ پھر سے اعتماد کی فضا گھمبیر صورت اختیار کرتی جارہی ہے کیونکہ پی پی کی مشاورت کے بغیر مسلم لیگ ن کے پارلیمان کے اندر کے فیصلے ایک بار پھر دونوں پارٹیوں میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن خود بھی ان فیصلوں سے مختلف گروپس میں بٹ جائے،یہ چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ مسلم لیگ ن2000ء کی تاریخ دہراتی نظر آرہی ہے جب پورا خاندان چپکے سے جدہ چلا گیا تھا۔


چےئرمین پی اے سی کی تبدیلی کے معاملے پر اپوزیشن میں جو تقسیم پیدا ہوئی ہے وہ اب دور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔بلاول بھٹوز رداری مسلم لیگ(ن)کے فیصلے پر سخت ناراض ہیں اور انہوں نے ن لیگ سے رابطہ کرنے والے پارٹی رہنماؤں سے استفسار کیا ہے کہ ن لیگ نے پی اے سی چےئرمین کی تبدیلی کے معاملے پر مشاورت یا اعتماد میں لینے کو کیوں ضروری نہیں سمجھا؟۔

پیپلز پارٹی اپنے اصولی موٴقف پر قائم ہے کہ پی اے سی چےئرمین اپوزیشن لیڈرہی ہویہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی راناتنویر کو چےئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تسلیم نہیں کررہی۔
پاکستان میں ان دنوں مہنگائی کا ایک نیا سونامی امڈ آیا ہے ،یہ سچ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کی ریلیف دینے کے وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی لیکن تاحال وہ اس میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہی ،اس کے کئی ایک محرکات ہیں جن سے عوام بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ سابقہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں کیا کیا گل کھلائے جاتے رہے ۔


اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ قرض لئے بغیر معیشت ٹھیک کرنے کا واحد راستہ لوٹی ہوئی دولت کی وطن کافی دباؤ ڈالا تھا جس میں پیپلز پارٹی بھی اس کے شانہ بشانہ تھی دوسری طرف جہاں حکومت شہباز شریف کو یہ عہدہ دینے پر قطعی تیار نہ تھی وہیں شہباز شریف بھی شروع سے ہی پی اے سی کا چےئرمین بننے کے خواہاں نہیں تھے جس کا اعتراف پارلیمانی پارٹی کی طرف سے بھی کیا گیا ہے مگر پارلیمانی کو چلانے کے لئے شہباز شریف کویہ عہدہ دینے پر بالآخر حکومت نے آمادگی کا اظہار کرہی دیا۔


یاد رہے کہ اس وقت کے معروضی حالات کی بناء پہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور پارلیمانی ایڈوائزی گروپ کا اصرار تھا کہ قائد حزب اختلاف کو ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سر براہ ہونا چاہئے لیکن اب پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لئے بغیر ن لیگی قیادت کی طرف سے رانا تنویز حسین کو پی اے سی کا چےئرمین اور خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر نامزد کرنے پی پی قیادت نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے ۔


اس بات میں کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین سیاسی اختلافات دشمنی کی حد تک بڑھے ہوئے تھے مگر حالات کے دھارے نے دونوں کو ایک مرتبہ پھر سے قریب کرنے
 میں اہم کردار اداکیا لیکن اب ایک مرتبہ پھر سے اعتماد کی فضاگھمبیر صورت اختیار کرتی جارہی ہے کیونکہ پی پی کی مشاورت کے بغیر مسلم لیگ ن کے پارلیمان کے اندر کے فیصلے ایک بار پھر دونوں پارٹیوں میں کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن خود بھی ان فیصلوں سے مختلف گروپس میں بٹ جائے ،یہ چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ مسلم لیگ ن 2000ء کی تاریخ دہراتی نظر آرہی ہے جب پورا خاندان چپکے سے جدہ چلا گیا تھا۔


چےئرمین پی اے سی کی تبدیلی کے معاملے پر اپوزیشن میں جو تقسیم پیدا ہوئی ہے وہ اب دور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ۔بلاول بھٹوز رداری مسلم لیگ(ن)کے فیصلے پر سخت ناراض ہیں اور انہوں نے ن لیگ سے رابطہ کرنے والے پارٹی رہنماؤں سے استفسار کیا ہے کہ ن لیگ نے پی اے سی چےئرمین کی تبدیلی کے معاملے پر مشاورت یا اعتماد میں لینے کو کیوں ضروری نہیں سمجھا؟۔

پیپلز پارٹی اپنے اصولی موٴقف پر قائم ہے کہ پی اے سی چےئرمین اپوزیشن لیڈر ہی ہو یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی رانا تنویز کو چےئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تسلیم نہیں کررہی۔
پاکستان میں ان دنوں مہنگائی کا ایک نیا سونامی امڈآیا ہے ،یہ سچ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی لیکن تاحال وہ اس میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہی،اس کے کئی ایک محرکات ہیں جن سے عوام بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ سابقہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں کیا کیا گل کھلائے جاتے رہے ۔


اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ قرض لئے بغیر معیشت ٹھیک کرنے کا واحد راستہ لوٹی ہوئی دولت کی وطن واپسی ہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کا یہی عزم ہے کہ وہ کرپٹ عناصر کے ساتھ کسی قسم کا کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے ،موجودہ حالات میں جس طرح اپوزیشن اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وقت کے ساتھ ساتھ یہ اختلافات مزید گھمبیر صورت اختیار کرتے جائیں گے جس کا بظاہرہ فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا اور وہ اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

رمضان المبارک کے بعد مولانا فضل الرحمن کی طرف سے حکومت کیخلاف جو تحریک چلانے کا عندیہ دیا گیا ہے اس میں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کوئی بھی سیاستدان اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ حکومت سے ٹکرلی جائے لہٰذا ہر ایک ”سافٹ کارنر“کی رتلاش کے چکر میں ہاتھ پاؤں ماررہا ہے اور اس میں چند کرپٹ بیوروکریٹس بھی شامل ہیں جن کیخلاف بھر پور شکنجہ کسنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Nawaz Sharif Ki Giraftari.. Shehbaz Sharif Ka London Main Taveel Qayyam is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 May 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.