آئل ٹینکرز مافیا اور قواعدوضوابط کی پابندی

توانائی ذرائع کے طور پر ہماری بہت ساری صنعتوں میں ڈیزل، پٹرول، مٹی کا تیل سمیت تمام پٹرولیم مصنوعات اہم خام مال کی حیثیت رکھتی ہیں بالخصوص توانائی بحران کے ضمن میں بیشتر صنعتیں متبادل توانائی ذرائع سے تیار کرنے والی مشینری کو نصب کر چکی ہیں اور اس طرح سے پٹرولیم مصنوعات کی طلب ہماری صنعتی پیداوار میں ایک اہم حصہ رکھتی ہیں۔

منگل 1 اگست 2017

Oil Tankers Marfia Our Qawaid-O-Wawabit Ki Pabandi
آئل ٹینکرز مافیا اور قواعدوضوابط کی پابندی
احمد جمال نظامی:
توانائی ذرائع کے طور پر ہماری بہت ساری صنعتوں میں ڈیزل، پٹرول، مٹی کا تیل سمیت تمام پٹرولیم مصنوعات اہم خام مال کی حیثیت رکھتی ہیں بالخصوص توانائی بحران کے ضمن میں بیشتر صنعتیں متبادل توانائی ذرائع سے تیار کرنے والی مشینری کو نصب کر چکی ہیں اور اس طرح سے پٹرولیم مصنوعات کی طلب ہماری صنعتی پیداوار میں ایک اہم حصہ رکھتی ہیں۔

ملک میں آئل ٹینکر وں کے ساتھ آئے روز حادثات پیش آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اوگرا کی طرف سے آئل ٹینکرز کی فٹنس چیکنگ کے حوالے سے مختلف ضابطہ اخلاق طے کئے گئے اور اسے باقاعدہ ایک قانون کی طرح آئل ٹینکرز پر لاگو کئے جانے کی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔

(جاری ہے)

جس پر آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی طرف سے روایتی طور پر حکومت اور حکومتی اداروں کو بلیک میل کرنے کے لئے ہڑتال کر دی گئی جس کے باعث ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا ہو گیا۔

پٹرول پمپس پر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں اور موٹروہیکلز کے مالکان کے ساتھ ساتھ صنعتی حلقوں کی طرف سے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قلت پر گہری تشویش اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت کی طرف سے یہ اقدام گزشتہ ماہ احمدپور شرقیہ میں ہونے والے آئل ٹینکر حادثے کے بعد خونین وقوعہ پر اٹھایا گیا تھا لہٰذا تمام صنعتی، تجارتی اور عوامی حلقے اس بات پر بلاامتیاز اور بلاتفریق متفق تھے کہ آئل ٹینکرز پر فٹنس چیکنگ کی پالیسی اور ضابطہ اخلاق سخت سے سخت ہونا چاہیے تاکہ آئندہ اس قسم کے حادثات کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال ننکانہ صاحب کے قریب ایل این جی ٹینکر کی لیکج سے ہونے والے حادثے کی صورت میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا تھا جس پر بھی تمام حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ اس حادثے میں اصل ذمہ دار لاہور فیصل آباد شیخوپورہ روڈ پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے پٹرولنگ پولیس اور تمام دیگر محکمے ہیں جو اس حوالے سے نہ تو کوئی توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کسی قسم کی کوئی ضابطہ اخلاق کو طے کر رکھا ہے جس پر اطلاق کی غرض سے سیکورٹی و فٹنس معاملات کو چیک کیا جا سکے۔

لیکن اس وقت حکومت کی طرف سے زیادہ خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی تاہم احمد پور شرقیہ کے حادثے کے بعد شدید احتجاج اور اس ضمن میں حکومتی اداروں کی عدم توجہی پر تنقید کے پیش نظر حکومتی ہدایات پر اوگرا اور دیگر متعلقہ اداروں کو ایسے سخت ضابطہ اخلاق اور کڑی پالیسی تشکیل دینی پڑی۔ جس پر آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی طرف سے ہڑتال کی گئی اور دو مرتبہ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن اور حکومت کے مابین مذاکرات ناکام ہونے سے مسائل نے جنم لیا۔

ان مسائل میں صنعتی بحران شہروں میں موٹروہیکلز پر آمدورفت، ٹرانسپورٹ سروسز اور دیگر متعلقہ نوعیت کے مسائل سرفہرست رہے۔ تاہم بعدازاں آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مذاکرات کے بعد دعویٰ کیا کہ ان کے مطالبات مان لئے گئے ہیں اور اس طرح سے ہڑتال ختم ہو گئی جبکہ دوسری طرف پٹرولیم ڈیلرز نے موقف اختیار کیا کہ حفاظتی شرائط پوری نہ کرنے والے ڈرائیورز کی گرفتاری اور لائسنس معطلی پر اعتراض نہیں۔

ترجمان اوگرا کے مطابق ٹینکرز کا فریٹ بڑھانے اور قوانین پر عمل کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہم قوانین پر عملدرآمد کروائیں گے جبکہ فٹنس سرٹیفکیٹ لازمی قرار پا چکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے تناظر میں جبکہ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی طرف سے ہڑتال کی گئی صنعتوں، تاجروں اور عوام کو کئی طرح کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود احتجاج اور تشویش صرف اور صرف آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے حوالے سے کئی گئی۔

عوامی اور صنعتی و تجارتی سطح پر کہیں بھی آئل ٹینکرز کی فٹنس اور قوانین پر اطلاق کے بارے میں احتجاج نہیں کیا گیا۔ ایسے میں محکمہ ریلوے کی طرف سے بھی پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے لئے اپنی سروسز فراہم کرنے کی پیشکش کر دی گئی تھی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ہدایات کے عین مطابق اوگرا، آئل ٹینکرز کی فٹنس اور سیکورٹی معاملات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق اور طے کردہ پالیسی پر پوری شدت اور قوت کے ساتھ عملدرآمد کرے۔

پٹرولیم مصنوعات کے ڈیلرز اس امر پر اتفاق کر رہے ہیں کہ معیار پر پورا نہ اترنے والے ڈرائیور کی گرفتاری اور لائسنس معطل کیا جائے مگر اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا جو کہ پٹرولیم ڈیلرز خود جن آئل ٹینکرز کی کمپنیوں یا ٹھیکیداروں سے معاہدہ کرتے ہیں اور ان کو اپنی مصنوعات کی ڈلیوری اور فراہمی کے لئے بطور کرائے پر استعمال کرتے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ وہ اوگرا کے فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی بھی آئل ٹینکر کو پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے لئے استعمال نہ کریں۔

یہ کاروبار کا آسان اور اہم نکتہ نظر و طریقہ کار ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے آرڈر دیتے ہیں یا پھر کسی بھی ٹرانسپورٹ سروس کو استعمال کرتے ہیں اس کا معیار ان کی طلب کے مطابق ہونا چاہیے۔ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن اکثروبیشتر ایک مافیا کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا سارا کاروبار صرف اور صرف آمدن کی غرض سے ہے اگر حکومت اپنی پالیسی اور ضابطہ اخلاق پر مستحکم رہے تو کوئی شک نہیں کہ بالاخر آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کو گھٹنے ٹیکنے ہوں گے۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ عام شہری کے لئے قوانین کے اور معیار کے پیمانے اور ہوں جبکہ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن جیسی مافیا ہمیشہ ہی بلیک میلنگ کے ذریعے اپنا اجارہ داری قائم رہے، ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے اور حکومت کو ان کی ماننی پڑے۔لاہور ہائیکورٹ نے بھی سانحہ احمدپور شرقیہ کیس میں کہہ دیا ہے کہ غیرمعیاری ٹینکرز سے پٹرول کی سپلائی روک دیں۔

اوگرا کی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ انتہائی تشویشناک ہے کہ گیارہ ہزار میں سے صرف 15سو آئل ٹینکرز معیار پر اترتے ہیں۔ اوگرا وکیل نے لاہور ہائیکورٹ کو یہ بھی بتایا کہ سانحہ احمد پور شرقیہ میں ٹینکر کا فٹنس سرٹیفکیٹ جعلی تھا۔ گویا اوگرا اور دیگر متعلقہ محکموں کی طرف سے بھی اس ضمن میں منفی کردار ادا کرنے کے شکوک و شبہات نظرانداز نہیں کئے جا سکتے۔

آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے ذمہ داران جوکہ ان ٹینکرز کے مالکان ہے انہوں نے اگر کاروبار کرنا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ انہیں قانون کا پابند بنائے اور جو ٹینکرز معیار پر نہیں اترتے ان کو ضبط کیا جائے، سخت جرمانے کئے جائیں اور آئندہ سے ایسے کسی بھی آئل ٹینکر کو سڑک پر اترنے نہ دیا جائے تاکہ مزید قیمتی جانوں کا ان کی غفلت سے ضیاع نہ ہو سکے۔

ہفتہ رفتہ کے دوران ایک مرتبہ پھر پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی طرف سے احتجاج کی بازگشت سنائی دی گئی۔ پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اجمل فاروق اور دیگر ذمہ داران نے میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم کے ٹیکسٹائل پیکج کے تحت مراعاتی سکیموں کیلئے فنڈز کی عدم فراہمی سے برآمدات کے فروغ کی تمام کوششیںبے سود ہو چکی ہیں۔

ٹیکسٹائل پیکج کے تحت ڈیوٹی ڈرابیک کے 10 ارب روپے سے زائد مالیت کے کلیمز جمع ہو چکے ہیں۔حکومت ٹیکسٹائل پیکج کے تحت بجٹ میں تفویض کردہ 4 ارب روپے فوری ریلیز کرے تاکہ ڈیوٹی ڈرابیک کلیمز کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے مطابق رواں مالی سال کے بجٹ میں وزیر اعظم کے180ارب روپے کے ٹیکسٹائل پیکج کیلئے صرف 4 ارب روپے رکھے گئے تھے جو کہ ابھی تک جاری نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے ڈیوٹی ڈرابیک کے ہزاروں کلیمز کی ادائیگی تاحال نہیں ہو سکی۔

ادائیگی کے منتظر ڈیوٹی ڈرابیک کے کلیمز کی ادائیگی کیلئے حکومت کی طرف سے ابھی تک رواں مالی سال میں کسی قسم کے فنڈز نہیں جاری کئے گئے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے اربوں روپے کے کلیمز کی ادائیگی کیلئے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فنڈز کے اجراءمیں غیر ضروری تاخیر سے بحران کی شدت مزید بڑھ رہی ہے جسکی وجہ سے صنعتی عمل متاثر ہو رہا ہے اور پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔

انھوں نے ڈیوٹی ڈرابیک کے تمام زیر التواکلیمزکی ادائیگی کیلئے فنڈز کے فوری اجراءکا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم ٹیکسٹائل پیکج اور ڈیوٹی ڈرابیک کلیمز پر ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کا احتجاج متواتر جاری ہے ۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ٹیکسٹائل کے ایکسپورٹرز اس ضمن میں حکومت اور دیگر متعلقین سے مطالبات کرتے ہوئے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کو سرمائے کی فراہمی اور ازسرنو کپڑے کی مختلف مصنوعات کی تیاری کے لئے راہ ہموار کرے تاکہ غیرملکی آرڈرز کی بروقت ترسیل ہو سکے وگرنہ آئندہ دنوں میں زرمبادلہ کے ذخائر اور جی ڈی پی اہداف کے حوالے سے شدید بحران جنم لے سکتا ہے۔

پہلے ہی اس بحران کے خاتمے کے لئے صرف تین گھنٹوں تک ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ کر کے کچھ استحکام حاصل کرنے کی سعی کی گئی۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار صورت حال کا احاطہ کریں اور وزیراعظم کو تمام تر کشمکش سے آگاہ کر کے بہتری کے لئے راہ ہموار کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Oil Tankers Marfia Our Qawaid-O-Wawabit Ki Pabandi is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 August 2017 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.