پاکستان کا اقتصادی حب بے رحم موجوں کی نذر

روشنیوں کے شہر کو عوامی نمائندوں نے ذاتی مفاد کی خاطر اندھیروں میں ڈبو دیا

منگل 16 فروری 2021

Pakistan Ka Iqtesaadi Hub BeRehem Mojoon Ki Nazar
راؤ محمد شاہد اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ”وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے“۔مگر یہ آدھا سچ ہے،پوری سچائی تو یہ ہے کہ کراچی میں حکمرانی کرنے والے کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی رہنما نے کراچی کو اپنا سمجھا ہی کب ہے؟۔وزیر اعلیٰ سندھ تو خیر سے کراچی کو اس لئے اپنا نہیں سمجھتے کہ کراچی سے انہیں اور ان کی جماعت کو ووٹ ہی نہیں ملتے لہٰذا ان کی جانب کراچی کے ساتھ روا رکھے جانے والا ”سیاسی برتاؤ“ کا غیر منصفانہ رویہ سمجھ میں بھی آتا ہے اور اس جانبدارانہ انتظامی سلوک پر شکوہ بھی نہیں بنتا ویسے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت سے اہلیان کراچی کو”سیاسی خیر“ کی کبھی کوئی خاص امید رہی بھی نہیں ہے لیکن یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں کراچی نے گزشتہ قومی انتخابات میں ووٹ دے کر منتخب کروایا اور ایوان بالا اور ایوان زیریں تک پہنچایا،کیا وہ کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں؟ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر اسد عمر اور ان کی جماعت کراچی کو واقعی اپنا سمجھ لیں تو پھر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا سمجھیں یا نہ سمجھیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ کراچی کو تعمیر کرنے،اس کے مکینوں کو آباد اور شاد رکھنے کے بے شمار ایسے انتظامی راستے وفاقی حکومت کو مہیا ہیں،جن راستوں پر سندھ حکومت کا اسپیڈ بریکر سرے سے موجود ہی نہیں ہے بس!ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ آیا تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کراچی کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لئے ان راستوں پر چلنا بھی چاہتی ہے یا نہیں؟،یاد رہے کہ اسد عمر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ہیں لیکن محسوس ایسا ہوتا کہ جیسے کہیں دور،دور تک بھی ان کی منصوبہ بندی میں کراچی کے مسائل کو حل کرنا شامل ہی نہیں ہے۔

(جاری ہے)


جس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ ہر دو،چار ہفتوں کے بعد موصوف کراچی میں تشریف لاتے ہیں اور یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ”وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کراچی کو اپنا نہیں سمجھتے“ارے بھئی!اہلیان کراچی کو بار بار یہ مت بتائیں کہ کراچی کو کون اپنا سمجھتا ہے اور کون نہیں اگر کچھ ثابت ہی کرنا ہے تو چند ایسے کام ضرور کر گزریں،جن سے یہ یقین ہو سکے کہ کم از کم آپ تو کراچی کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس شہر کی تعمیر و ترقی کیلئے انتظامی اپنے پن کا مظاہرہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ کراچی نے اگر تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ووٹ دیئے تھے تو صرف اس لئے کہ وہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی”کراچی کش“ سیاسی پالیسی سے بیزار آئے ہوئے تھے اور انہیں قومی امید تھی کہ عمران خان گزشتہ چالیس برسوں میں کراچی پر لگائے گئے سیاسی زخموں کا مداوا ضرور فرمائیں گے لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ اسد عمر پچھلے 2 برس سے مسلسل یہ”سیاسی راگ“تو ضرور الاپ رہے ہیں کہ سندھ حکومت کراچی کے ساتھ سیاسی و انتظامی زیادتی کی مرتکب ہو رہی ہے۔


شہر کراچی کو سیاسی و انتظامی طور پر چھوڑ دیا گیا ہے جو پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر ہی ہے یعنی پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کراچی کے ساتھ ہونے والی ہر سیاسی و انتظامی زخم کا علاج فقط ”منہ زبانی“ کرنا چاہتے ہیں۔تحریک انصاف کے رہنماؤں نے جتنا زیادہ وقت کراچی بیانات دینے میں ضائع کیا ہے اگر اس سے آدھا وقت بھی وہ”سیاسی اخلاص“ کے ساتھ کراچی کے مسائل کرنے میں لگاتے تو اب تک شہر کے آدھے مسائل مکمل طور پر نہ سہی تو کم از کم جزوی طور پر تو ضرور حل ہی ہو جانے تھے،در حقیقت اہلیان کراچی کو اسد عمر سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ کراچی کونسا ان کا حلقہ انتخاب ہے۔

مقام افسوس تو یہ ہے کراچی جس کا حلقہ انتخاب ہے اسے بھی اس شہر کی بدحالی کی کوئی خاص فکر اور پرواہ نہیں ہے،جی ہاں!آپ درست سمجھے ہماری مراد صدر مملکت پاکستان عارف علوی سے ہے۔
یاد رہے کہ یہ تحریک انصاف کراچی کے وہی متحرک،ولولہ انگیز اور انقلابی رہنماء ہیں جن کا ایک زمانہ میں دعویٰ ہوا کرتا تھا کہ ”وہ تو سیاست میں آئے ہی فقط کراچی کے حالات کو بدلنے کے لئے ہیں“مگر صدر مملکت بننے کے بعد جس بے رخی اور تیز رفتاری سے انہوں نے خود کو بدل کر کراچی سے نگاہیں پھیری ہیں،ایسی”سیاسی اجنبیت“ کا مظاہرہ تو سابق صدر مملکت جناب ممنون حسین نے بھی نہیں کیا تھا اگر چاہتے تو عارف علوی بطور صدر مملکت اپنے شہر کراچی کی سیاسی و انتظامی بہتری کیلئے بہت کچھ کر سکتے تھے،لیکن انہیں بھی اسلام آباد کی”سیاسی فضا“ ایسی راس آئی کہ شاید اب انہیں یاد بھی نہ رہا ہو کہ وہ ایوان صدر میں جن بے خانماں لوگوں کے ووٹوں کے بل بوتے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں،وہ بد نصیب افراد کراچی میں کبھی بارش کے پانی میں ڈوبوئے جا رہے ہیں اور کبھی سیاسی تعصب کی چکی میں بے رحمی کے ساتھ پیسے جا رہے ہیں جبکہ ان کا سیاسی رہنما عارف علوی،صدر مملکت کا چولا پہن کر اسلام آباد میں سکھ چین کی بانسری بجا رہا ہے شاید کراچی کی سیاسی فضا ہی میں بد نصیبی کی آمیزش حد سے زیادہ ہوئی ہے،جب ہی تو اہلیان کراچی کو کبھی الطاف سے لطف و کرم نہیں ملتا،ممنون حسین سے ”سیاسی ممنونیت“نہیں ملتی،عارف علوی سے ”انتظامی معرفت“ دستیاب نہیں ہوتی اور مراد علی شاہ سے وابستہ کوئی”مراد“پوری نہیں ہو پاتی، یوں سمجھ لیجئے کہ کراچی سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔

کراچی سب کے مسائل حل کرتا ہے لیکن کراچی کے مسائل کوئی حل نہیں کرنا چاہتا۔کراچی سب کے بارے میں سوچتا ہے مگر کراچی کے متعلق سوچنے کی کسی کے پاس بھی فرصت نہیں ہے۔کراچی شہر کے تمام نام نہاد”اپنے رہنما“ صرف اس وقت تک کراچی کے ساتھ”سیاسی اپنائیت“ کا اظہار کرتے ہیں جب تک کہ کراچی انہیں کسی بلند و بالاتر سیاسی و انتظامی مقام پر نہیں پہنچا دیتا پھر اس کے کراچی کے سارے اپنے”سپنے“ہو جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Ka Iqtesaadi Hub BeRehem Mojoon Ki Nazar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.