پاکستان کے بعد سعودیہ میں بھی احتساب․․․؟

سعودی عرب میں شریف برادران کی موجودگی․․․․․․ سعودی عرب میں شریف برادران سے متعلق این آر او کی خبریں جھوٹ پر مبنی تھیں

منگل 9 جنوری 2018

Pakistan ke bad Saudia main b Ehtsab
محمد انیس الرحمن
سعودی عرب میں نواز اور شہباز شریف کی موجودگک میں جو کچھ ہوتا رہا پاکستانی میڈیا کو اس حوالے سے یا تو ہلکی سی بھنک بھی نہیں تھی یا جان بوجھ کر غلط رپورٹنگ کی گئی، یہاں عجیب وغریب قلابے ملائے گئے جس میں این آر او ، مقدمات کے خاتمے کی صورت میں نواز شریف کی جلا وطنی جیسی خبریں پھیلائی گئیں بالکل اسی طرح جس طرح اسلام آباد میں مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ کے ساتھ نواز شریف کی ملاقات کی خبر چلادی گئی تھی حالانکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جس دن اس ملاقات کی خبر چلائی گئی اس دن ناصر جنجوعہ شاید پاکستان میں ہی نہیں تھے پھر کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے یہ سب تماشا کیا گیا؟ پاکستان میں سب سے پہلا تماشا اس وقت لگا جب اچانک شہباز شریف کو سعودی عرب ”طلب“ کیاگیا یہ واقعہ چونکہ نواز شریف کی جانب سے اس اعلان کے بعد تھا جس میں انہوں نے اپنی جگہ شہباز شریف کو انتخابی کامیابی کی صورت میں اگلا وزیراعظم بنانے کی بات کی تھی۔

(جاری ہے)

اس لئے سب سے پہلے یا تاثردیا گیا جیسے مستقبل کے وزیراعظم کو سعودی عرب بلایا گیا ہے۔۔۔! یہ تاثر خاصا مضحکہ خیز تھا، اس کے بعد اس قسم کی افواہیں پھیلائی گئیں کہ نواز شریف کا سعودی عرب جانا اس بات کی دلیل ہوگا کہ شہباز شریف کے سعودیوں کے ساتھ ”مذاکرات“ کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد نواز شریف بھی سعودی عرب روانہ ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد عمران خان ، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں نے معاملے کی گہرائی میں جائے بغیر سعودی عرب پر تنقید کے گھوڑے دوڑادیئے کہ پاکستان میں سعودی عرب کی پالیسی نہیں چلے گی، این آر او کی ایک اور کوشش ناکام بنادیں گے جبکہ ایسا کوئی معاملہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔

پاکستان میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ایک سابق سعودی سفارتکار سے جب ریاض میں رابطہ کرکے حقیقت جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا جو پاکستانی میڈیا یا سیاستدان پھیلا رہے ہیں۔ ان تمام معاملات کو جاننے کے بعد اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ شریف برادران کو ”ہم نوا“ ریاض کیا کرنے چلے گئے ؟ ان کا وہاں کیا کام ہے؟ خواجہ سعد رفیق اور دیگر نون لیگی کس مہم پر سعودی عرب میں ہیں؟ اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ سعودی حکام نون لیگ کی از سرے نو تشکیل کرنے جارہے ہیں۔

۔ جو نون لیگ پہلے نواز شریف کے زیر قیادت تھی اب اس کی سربراہی کا مرحلہ انتقال شہباز شریف کی قیادت میں ہورہا ہے اس لئے دیگر اہم نون لیگی بھی وہاں موجود ہیں جو اصل حقیقت ہیں ان کے نزدیک یہ ایک سیاسی شعبدے بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس حدتک نون لیگ نے سچ بولا ہے کہ شریف برادران کا یہ دورہ ذاتی نوعیت کا ہے۔ ہم بھی اسے ذاتی نوعیت کا ہی دورہ کہیں گے کیونکہ اس دورے کے دوران کچھ سوالات پوچھے گئے ہیں جن کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہیں بلکہ شریف برادران کے دوران جلا وطنی سعودی شہزادوں کے ساتھ کاروباری شراکت داری کے حوالے سے معاملات ہیں۔

سب سے پہلے اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ اس وقت سعودی اسٹیبلشمنٹ میں ایسی کوئی شخصیت نہیں بیٹھی ہوئی جس کا تعلق سعودی شاہ عبداللہ کے دور حکومت سے ہو۔ اس وقت شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت ہے اور انکے بیٹے محمد بن سلمان مملکت کے امور چلا رہے ہیں۔ انہیں ہی شاہی حکم نامے کے مطابق انسداد مالی بے ضابطگیوں کی کمیٹی کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا ہے انہی کے حکم سے اہم ترین شہزادوں کو کرپشن کے الزام میں نظر بند کیا گیا ان میں سے دو شہزادے ایسے بھی ہیں جو سابق سعودی بادشاہوں کے بیٹے ہیں ان میں سے ایک شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے بیٹے متعب بن عبداللہ ہیں جو شاہ عبداللہ کے دور میں سعودی عرب کی حساس ترین عسکری قوت الحرس الوطنی کے کمانڈرتھے، اس کے علاوہ سابق شاہ فہد بن عبدالعزیز کے چھوٹے بیٹے عبدالعزیز بن فہد بن عبدالعزیز ہیں جو مبینہ طور پر گرفتاری میں مزاحمت کے دوران گولی چل جانے سے جاں بحق ہوگئے۔

ایک اور شہزادہ جو سابق ولی عہد مشعل بن عبدالعزیز کا بیٹا ہے یمن کی سرحد کے قریب ہیلی کاپٹر گرجانے کی وجہ سے ساتھیوں سمیت جاں بحق ہوگیا۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ گرفتاری کے خوف سے یمن کی جانب فرارر ہورہا تھا لیکن اس کے ہیلی کاپٹر کو گرالیا گیا واللہ اعلم۔ اس کے علاوہ ایک اوراہم ترین شہزادہ ولید بن طلال بن عبداللہ ہے جسے مشرق وسطیٰ کا امیر ترین شخص قرار دیا جاتا ہے اور جس کی ثروت کا اندازہ اٹھارہ بلین ڈالر سے زائد ہے۔

مشرف دور میں شریف خاندان پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والے سابق شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے بیٹے متعب بن عبداللہ پر دوران حراست کرپشن کے حوالے سے اعتراف جرم کروانے کے لئے جو شاید تشدد کیا گیا اس کی وجہ سے اسے ہسپتال داخل کرانا پڑا۔ ذرائع کے مطابق اپنی مجموعی دولت کا ستر فیصد قومی خزانے میں جمع کرانے کے بعد اسے خلاصی حاصل ہوئی اسی طرح امیر ولید بن طلال کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ اسے اپنی دولت کا نصف قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا گیا ۔

ان تمام معاملات میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے موجودہ سعودی حکومت نے سابق حکومتوں کے زمانے سے کام کرنے والے تمام افراد کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا اس وقت جو کوئی بھی کسی بھی عہدے پر براجمان ہے، وہ موجودہ حکومت سے تعلق رکھتا ہے نہ پرانے دور کا کوئی وزیر ، نائب یہاں تک کے نچلے درجے کے عہدیدار تک تبدیل کردیئے گئے ہیں اس کے بعد شاہی خاندان کے اہم افراد پر ہاتھ ڈالا گیاتھا۔

اس صورتحال میں کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ سعودی حکومت یادیگر حکام کو نون لیگ کے کسی معاملے میں دلچسپی ہوگی؟اس کے علاوہ اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ سعودی عرب اس وقت اپنی تاریخ کے پر آشوب ترین دورسے گزر رہا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ عربوں کے ساتھ ڈبل گیم کررہا ہے، خطے کے معاشی حالات اب ایسے نہیں رہے جو آج سے د س یا پندرہ برس قبل تھے۔

اس لئے ان حالات میں اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ریاض میں اس وقت شریف برادران کو پاکستان میں چلنے والے ان کے خلاف کرپشن کیسوں کے معاملے میں کوئی سہولت یا این آر او دینے کے لئے معاملات طے ہورہے ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اس قسم کی خبریں تو ضرور سننے میں آئی ہیں کہ سابقہ ادوار میں سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران شریف برادارن کے سعودی شاہی خاندان کے افراد کے ساتھ جو کاروباری معاملات تھے، اس حوالے سے اہم باتیں پوچھی گئی ہیں ۔

ان تمام معاملات میں عمران خان اور دیگر افراد کا نہ لا علمی کی بنیاد پر سعودی این آر او کے خلاف بیانات تو سمجھ میں آتے ہیں لیکن آصف زرداری کی جانب سے این آر او کی مخالفت عقل سے بالاتر ہے ذرائع کے مطابق پی پی پی کی موجودہ قیادت سمیت بہت سے دیگر عناصر جوکرپشن کے حوالے سے سرسے پاؤں تک غرق ہیں دل سے چاہتے ہیں کہ نواز شریف کا کسی نہ کسی طرح این آر او ہوجائے یاچاہئے وہ سعودی عرب کے ذریعے ہویا پاکستان میں ہو کیونکہ اسی ایک صورت میں انہیں بھی ریلیف ملنے کی امید ہے لیکن ایسا ہونے نہیں جارہا۔

سعودی عرب میں تو جن کے مالی معاملات تھے وہ اپنی جگہ لیکن دیگر خلیجی ریاستوں میں موجود معاملات بھی اب وقت کیساتھ ساتھ کھلتے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق بہت سی تفصیلات زرداری کے اثاثوں سے متعلق عرب امارات کے حکام نے پاکستان کو مہیا کردی ہیں اس سے پہلے آصف زرداری کی کوشش تھی کہ ان اثاثوں کو جلد از جلد مغرب منتقل کردیا جائے اس کے علاوہ اسحاق ڈار کے عرب امارات میں اثاثے کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

اس کے علاوہ تمام دنیا میں مالیاتی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو سخت قوانین معرض وجود میں لائے جارہے ہیں آنے والے وقت میں کسی بھی قسم کی ناجائز دولت چھپانا مشکل ہوجائے گا بشرطیکہ دنیا میں امن وامان کی صورتحال برقرار رہے جو ایک دوسرے زاویے سے ناممکنات میں سے محسوس ہوتا ہے ۔ اس لئے اس زاویہ سے یہ سوچنا کہ سعودی حکام قطر اور یمن کے حوالے سے پاکستان کی ”مستقبل کی قیادت“ کے ساتھ معاملات طے کررہے ہیں تو اس خیال کو بھی محض خیال ہی کہا جائے گا۔

سعودی عرب اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ شریف خاندان پاکستان میں اپنی سیاسی عمر پوری کرچکا، ماضی میں بھی سعودی کی جانب سے شریف خاندان پر جو دست شفقت رکھا گیا تھا اُس میں صرف شاہ عبداللہ کی ہی خواہش شامل نہیں تھی بلکہ اور بھی”بین الاقوامی عناصر“ اس میں شامل تھے۔ ایک عرب ذریعہ کے مطابق ماضی میں شریف خاندان کے دور اقتدار کے دوران لبنانی سیاسی اور کاروباری الحریری خاندان کے سا تھ بھی تعلقات رہے ہیں، لبنان کے سابق مقتول وزیراعظم رفیق الحریری کے توسط سے ہی شاہ عبداللہ تک شریف خاندان کا تعارف پہنچا تھا۔

کچھ ذرائع کاخیال ہے کہ سعودی لبنان کی پالیسی کے حوالے سے سعد الحریری سے بھی زیادہ خوش نہیں اس لئے ممکن ہے کہ شریف خاندان سے حریری خاندان کے ساتھ کاروباری روابط کے حوالے سے بھی سوال جواب ہوئے ہوں بہرحال آنے والے وقت میں مزید حیران کن انکشافات ہو سکتے ہیں لیکن ان تمام معاملات میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو پاکستانی میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہی۔

سعودیوں کے نزدیک پاکستان کا استحکام خود خلیج میں ان کے وجود کے لئے انتہائی ضروری ہے وہ جانتے ہیں کہ حالات کس ڈگر پر چل نکلے ہیں عالم عرب خصوصا خلیج کی صورتحال اس وقت انتہائی کشیدہ ہے، خود سعودی عرب میں اسلامی ممالک کی جو مشترکہ فوج تشکیل دی گئی ہے اس کی سربراہی بھی سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہاتھوں میں ہے اس سے بھی پاکستان کے قائدانہ کردار کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آنے والے وقت میں پاکستانی فوج کا خطے کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی کیا کردارہوسکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس کی اہمیت اجاگر کردینے کے لئے کافی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan ke bad Saudia main b Ehtsab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.